ملتان کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالنے والے …(3)

ملتان جنوبی پنجاب کا سب سے قدیم اور بڑا شہر ہے۔ یہ اس علاقے کا صدیوں سے سیاسی اور عسکری مرکز بھی ہے۔ قدیم تواریخ میں ملتان ایک ایسے ترقی یافتہ اور اہم شہر کے طور پر پہچاناجاتا تھا لاہور جس کے نواح میں ایک غیر نمایاں شہر تھا‘ پھر آہستہ آہستہ لاہورکی اہمیت بڑھتی گئی‘ پہلے حملہ آور بلوچستان کے راستے برصغیر میں آتے تھے تو راستے میں ملتان ایک دفاعی مرکز کے طور پر ایک مضبوط شہر سمجھا جاتا تھا جس کی جگہ بعد ازاں افغانستان سے دہلی کی طرف جانیوالے لشکروں کے باعث لاہور نے لے لی۔
جنوبی پنجاب سے نواب مشتاق گرمانی‘ میاں ممتاز دولتانہ‘ فاروق لغاری‘ نواب صادق حسین قریشی‘ غلام مصطفی کھر‘ مخدوم سجاد حسین قریشی اور سید یوسف رضا گیلانی صوبہ پنجاب اور مرکز میں اقتدار کے سنگھاسن پر مسند آرا رہے لیکن افسوس کہ ملتان اور جنوبی پنجاب میں وہ تعمیر و ترقی نہ ہو سکی جواس کا حق تھا اور اسے حق سے جہاں دوسروں نے محروم رکھا وہیں اس وسیب سے تعلق رکھنے والوں نے بھی لاہور اور اسلام آباد جا کر اس سے آنکھیں پھیر لیں۔ صدر فاروق لغاری نے ڈیرہ غازیخان میں ایئر پورٹ بنوایا تو وہ بنیادی طور پر ڈیرہ غازیخان کا کم اور سردار فاروق لغاری کا ذاتی ایئر پورٹ زیادہ تھا کہ اس ایئر پورٹ کا ڈیرہ غازیخان شہر سے اور فاروق لغاری کی ذاتی رہائش گاہ واقع چوٹی زیریں سے فاصلہ تقریباً برابر تھا۔ اگر پہاڑی علاقے کی مجبوری نہ ہوتی تو فاروق لغاری یہ ایئر پورٹ واقعتاً چوٹی زیریں میں ہی بنوا لیتے مگر رن وے کیلئے درکار سیدھی زمین کی عدم دستیابی کی مجبوری کے باعث یہ ایئر پورٹ چوٹی زیریں سے پچیس کلو میٹر دور بنانا پڑا۔ یاد رہے کہ یہ ایئر پورٹ جس جگہ بنایا گیا وہاں زیر زمین پانی کڑوا ہے اور پینے کے لیے پانی ڈیرہ غازی خان شہر سے ٹینکر کے ذریعے ایئر پورٹ پہنچایا جاتا ہے۔ ایئرپورٹ کے لیے شہر کے ساتھ میسر زمین کے باوجود یہاں کے رہائشیوں کو پچیس کلو میٹر دور ایئر پورٹ پر جانا پڑتا ہے۔
ملتان شہر میں سید یوسف رضا گیلانی نے کافی پروجیکٹس مکمل کروائے تاہم اگر ان پروجیکٹس کو خالصتاً میرٹ پر بنایا جاتا تو اتنے ہی فنڈز کے ساتھ اس سے کہیں بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے تھے مگر ہمارے ہاں فائدہ اٹھانے والی پارٹیاں اصل پروجیکٹ کی ساری شکل تبدیل کر کے رکھ دیتی ہیں اور یہ پروجیکٹ جب پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اس سے مستفید ہونے والوں میں عوام دوسرے نمبر پر ہے جبکہ ٹھیکیدار ٹائپ حواری اور دوست پہلے نمبر پر ہیں۔کلمہ چوک والے فلائی اوور اور نشتر چوک والے فلائی اوور کی تعمیر کے دوران اگر تب کے کمشنر ملتان کے عزیزوں اور یوسف رضا گیلانی کے دوستوں کے ہوٹل کو متاثر ہونے سے بچانے کا مسئلہ درپیش نہ ہوتا تو یہ دونوں پروجیکٹس نسبتاً کم پیسوں میں اس سے کہیں بہتر انداز میں بن سکتے تھے۔ نشتر ہسپتال جانے والا فلائی اوور اس ہوٹل کو بچانے کے لیے سنگل لین کر دیا گیا اور کلمہ چوک والا فلائی اوور خانیوال روڈ کے اوپر سے گزارنے کے بجائے کچہری چوک والے فلائی اوور کو سیدھا آگے لے جایا جاتا تو مخلوقِ خدا کو آسانی بھی ہوتی اور پیسے بھی کم لگتے ‘مگر افراد کا مفاد اجتماعی مفاد پر بازی لے گیا اور اب عالم یہ ہے کہ نواں شہر سے کچہری چوک جانے کیلئے اور کچہری چوک سے ایم ڈی اے چوک کی طرف جانے کیلئے بھول بھلیاں ٹائپ راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے اور بندہ آسانی کے بجائے ایک گورکھ دھندے میں پھنس جاتا ہے۔
ہمارے پیارے شاہ محمود قریشی کے والدِ گرامی مخدوم سجاد حسین قریشی جب گورنر پنجاب تھے تو میری یادداشت کے مطابق انہوں نے جو سب سے بڑا کام کیا وہ چوک دولت گیٹ کی کشادگی تھی اور اللہ مجھے بدگمانی پرمعاف کرے انہوں نے یہ بھی شاید اس لیے کروایا کہ گھر سے نکل کر شہر کی طرف جاتے ہوئے انہیں سب سے پہلا یہی چوک پڑتا تھا اور یہیں ان کی گاڑی پھنستی تھی۔ شاہ محمود قریشی مسلم لیگ‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی طرف سے اقتدار کا حصہ رہے؛ تاہم ان کے کریڈٹ پر میری یادداشت کے مطابق صرف ایک بڑا پروجیکٹ ہے اور وہ ملتان آرٹس کونسل کی تعمیر ہے جو انہوں نے تب کروائی جب وہ پنجاب کے صوبائی وزیر تھے۔ 1985ء کے بعد لے دے کر اس بار انہوں نے ولایت آباد کالونی کے قریب فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے پرانے سٹورز کی جگہ پر جنوبی پنجاب کو ملنے والے تین مدر اینڈ کیئر ہسپتالوں میں سے ایک کی تعمیر شروع کروائی ہے۔
خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ملتان کی خدمت کرنے میں اگر کسی غیر ملتانی کا کردار سب سے نمایاں ہے تو وہ چودھری پرویز الٰہی تھے۔ اللہ جانے اس بار ان کی کارکردگی کیسی رہتی ہے‘ تاہم اپنی پہلی حکومت کے دوران چودھری پرویزالٰہی نے ملتان میں کئی بڑے پروجیکٹس پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ ان میں سب سے نمایاں اور اس پورے خطے کیلئے باعث رحمت ملتان انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی تھا جس کا نام بعد ازاں چودھری پرویز الٰہی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کر دیا گیا اور اسی بدعت کو مزید ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے عثمان بزدار نے ڈیرہ غازیخان میں بننے والے کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ کا نام بھی اپنے والد سردار فتح محمد بزدار کے نام پر رکھ دیا۔ ہمارے ہاں اچھی روایات فروغ پائیں یا نہ پائیں مگر بری روایات کسی متعدی مرض کی مانند پھیلتی ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی نے جہاں پنجاب کے بڑے شہروں میں ٹریفک وارڈنز پر مشتمل ایک نئے سیٹ اپ کے ساتھ سٹی ٹریفک پولیس کا نظام وضع کیا‘ وہیں ہائی وے پٹرولنگ اور 1122 جیسے صوبائی سطح کے محکمے بھی بنائے؛ تاہم صرف ملتان کی حد تک انہوں نے کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ کے علاوہ نشتر کالج آف ڈینٹسٹری کو ایک علیحدہ انسٹیٹیوٹ بنا کر ایک مکمل purpose-builtعمارت میں منتقل کیا۔ ملتان میں اٹلی کی حکومت کے تعاون سے ایک برن ہسپتال بنایا جو اس خطے کا اپنی نوعیت کا پہلا اور اکلوتا ہسپتال ہے۔ اس کے علاوہ ملتان میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال (DHQ) کی نئی عمارت بنوائی اور بچوں کے ہسپتال کو اپ گریڈ کر کے چلڈرن کمپلیکس میں بدل دیا۔ صحت عامہ کیلئے ان پانچ بڑے پروجیکٹس کے علاوہ ملتان جنرل بس سٹینڈ کی ساری توسیع ان کے زمانے میں ہوئی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو چودھری پرویز الٰہی نے بطورِ وزیراعلیٰ پنجاب اہلِ ملتان کیلئے جتنے کام کئے ہیں اتنے کام تو ملتان سے تعلق رکھنے والے اہلِ اقتدار نے نہیں کیے۔
ہاں! یاد آیا سید یوسف رضا گیلانی نے ملتان میں ایئر یونیورسٹی کا کیمپس بنوا کر جہاں اپنے اجداد کی تعلیمی خدمت کے کام کو آگے بڑھایا وہیں زکریا یونیورسٹی کو اعلیٰ تعلیم کیلئے غیر ملکی یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کیلئے سو سکالر شپس بھی دیے۔ اس سے پہلے یا اس کے بعد زکریا یونیورسٹی کو اعلیٰ تعلیم کے فروغ کیلئے مالی معاونت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کے زمانے میں ملتان سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کو دی گئی ایک ارب روپے کی مشینری اب تک کام آتی رہی ہے اور اب یہ عالم ہے کہ اس مشینری کی مرمت کیلئے کمپنی کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اٹلی کے ساتھ مل کر جہاں انہوں نے ملتان اندرون شہر اور قدیمی حرم دروازے کی تزئین و آرائش کروائی وہیں اٹلی کے پیسوں سے اپنے جد امجد حضرت موسیٰ پاک کے دربار کی پارکنگ بنوائی اور مریدوں کی آسانی کیلئے راستہ کشادہ کروایا۔ لیکن بہرحال اس سے مخلوقِ خدا کو بھی آسانی ہوئی‘ دہلی گیٹ تا پاک گیٹ شہر پناہ کی قدیمی فصیل (النگ) کا یہ حصہ اس کی اصل صورت میں بحال کروایا۔ اس حصے کو جمالیاتی طور پر نئی صورت عامر کریم نے دی؛ تاہم اٹلی کے مالی تعاون والے اس پروجیکٹ میں اتنے کھانچے لگائے گئے کہ وہ قوم جو اس معاملے میں خود پورے یورپ میں بڑی شہرت رکھتی ہے اس کا اگلا فیز چھوڑ کر بھاگ گئی۔ (ختم)