کریڈٹ کی دوڑ

ابھی برلن میں ”فیٹف“ کا اجلاس شروع ہی ہوا تھا کہ پاکستان میں یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ نام گرے لسٹ سے نکالا جا رہا ہے۔ بھارت کی پوری کوشش تھی کہ اس کے حریف اول کا نام گرے سے نکال کر ’بلیک“ میں ڈال دیا جائے، جبکہ پاکستان گرے سے ”وائٹ“ ہونے کے لئے زور لگائے ہوئے تھا۔ پاکستان کو چار برس پہلے اس لسٹ کا حصہ بنایا گیا تھا، چار دن تک جاری رہنے والے برلن اجلاس میں فیٹف کے ممبر ممالک کے علاوہ اقوام متحدہ اور آئی ایم ایف کے نمائندے بھی شریک تھے۔ پاکستان کا موقف بیان کرنے کے لئے وزیر مملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر یہاں موجود تھیں اور دن رات ایک کئے ہوئے تھیں۔ ابھی اجلاس ختم ہوا تھا، نہ کوئی واضح اعلان سامنے آیا تھا کہ سوشل میڈیا پر کریڈٹ کی بحث شروع ہو گئی۔ تحریک انصاف کے جنگجو میدان میں اتر آئے اور تھینک یو عمران خان کا ٹرینڈ بننا شروع ہو گیا۔ سابق وزیراعظم نے خود بھی ٹویٹ کی اور اپنی بلائیں آپ لیں۔ برسرِ اقتدار جماعتوں کے حامی بھی داد سمیٹنے کی کوشش کرنے لگے، دفاعی اداروں کو خراج تحسین پیش کرنے والے بھی میدان میں آ گئے کہ جی ایچ کیو میں اس مقصد کے لئے ڈی جی ایم او کی سربراہی میں 2019ء میں ایک خصوصی سیل قائم کیا گیا تھا، جس نے وفاقی اور صوبائی حکام کی معاونت سے سخت اقدامات وضع کئے اور ”فیٹف“ کی طرف سے مقرر کردہ ٹائم لائن (جنوری 2023ء) سے بھی پہلے اپنا کام مکمل کر لیا۔ منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کی روک تھام کے لئے موثر لائحہ عمل ترتیب دیا، 30سے زائد محکموں، وزارتوں اور ایجنسیوں کے درمیان رابطہ کاری کا میکنزم بنایا اور مکمل ایکشن پلان پر تمام محکموں، وزارتوں اور ایجنسیوں سے عمل درآمد بھی کرا کے دکھایا۔

پاکستان میں ہر شخص اپنے اپنے ممدوح کے سر پر سہرا سجانے کے لئے بے تاب تھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کامیابی حاصل ہوئی، وہ ایک دن، ایک ماہ یا ایک سال میں نہیں ہوئی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دوران اس کے لئے بڑی محنت اور لگن سے کام کیا گیا، جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں جی ایچ کیو نے جو کچھ کیا، اس کے کریڈٹ سے بھی وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کو محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے بھی سرگرمی کے ساتھ اپنا کام جاری رکھا، تمام حکومتی محکمے اور ادارے دل جمعی سے اپنا کام کرتے رہے۔ ”فیٹف“ کے سربراہ نے علی اعلان اعتراف کیا کہ پاکستان نے وہ تمام اہداف حاصل کر لئے ہیں جو مقرر کئے گئے تھے۔ اکتوبر تک اس بین الاقوامی ٹاسک فورس کا نمائندہ وفد پاکستان کا دورہ کرے گا اور زمینی حقائق کی تصدیق کے بعد پاکستان کی یہ آزمائش ختم ہو گی۔کہا جا رہا ہے کہ یہ مجوزہ دورہ ایک رسمی کارروائی ہے، اگرچہ کہ کریڈٹ لینے کی دوڑ میں شریک خواتین و حضرات کچھ دھیمے پڑ گئے ہیں، تاہم جو کچھ حاصل کر لیا گیا ہے اس پر اظہارِ اطمینان کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ کوئی ایک فرد، محکمہ یا ادارہ یہ کام نہیں کر سکتا تھا، اس کے لئے مسلسل اور مربوط کاوش کی ضرورت تھی جو کی گئی اور رنگ لے آئی۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ جب یہ خبر موصول ہوئی تھی تو وزیراعظم اور ان کے رفقاء یہ ٹویٹ کرتے کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے جس جدوجہد کا آغاز کیا تھا، ہمارے دور میں وہ پایہ تکمیل کو پہنچ گئی ہے، اس پر ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور اپنے رفقاء کو بھی شاباش دیتے ہیں کہ انہوں نے تیزرفتاری سے معاملات کو آگے بڑھایا اور انجام تک پہنچایا۔ سابق وزیراعظم یہ پیغام دے سکتے تھے کہ موجودہ حکومت نے ان کے شروع کئے ہوئے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر احسن اقدام کیا ہے۔ ہم اپنے رفقاء کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کے ذمہ داران کو بھی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ افواج پاکستان کو خراج تحسین بھی دونوں رہنما پیش کر سکتے تھے کہ اس اعتراف میں کسی کی سبکی نہیں۔ ہمارے دفاعی ادارے کسی ایک جماعت یا گروہ کے نہیں، سب جماعتوں اور سب گروہوں کے ہیں، ان کی کارکردگی پر خوش ہونے کا حق ہم سب کو حاصل ہے۔ اگر ہمارے فوجی ترجمان گزشتہ اور موجودہ حکومت کی مساعی کا اعتراف بھی کر لیتے تو اس میں کوئی مضائقہ نہ تھا،اس سے ہماری اجتماعیت کو توانائی ملتی کہ پاکستان کی مشکلات کم کرنا اور اسے آگے بڑھانا کسی ایک جماعت یا گروہ کا نہیں سب کا ایجنڈا ہے۔ طریق کار میں فرق ہو سکتا ہے لیکن کسی بھی پاکستانی کی خواہش یا کوشش یہ نہیں ہو سکتی کہ پاکستان کو کمزور کیا جائے۔

پاکستانی قوم جب بھی کسی بحران میں مبتلا ہوئی ہے یا اسے کوئی چیلنج درپیش ہوا ہے، اس نے متحد ہو کر ہی اس کا مقابلہ کیا ہے۔ آپس کے اختلافات اس کی منزل کھوٹی نہیں کر سکے۔ پاکستان ایٹمی قوت بنا تو کسی ایک فرد یا ادارے کا کارنامہ نہیں تھا، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، غلام اسحاق خان، نوازشریف کتنے ہی نام اس کامیابی سے جڑے ہوئے ہیں۔کسی ایک شخص کے سر پر سہرا باندھا نہیں جا سکتا تو کسی ایک کے سر سے اسے اتارا بھی نہیں جا سکتا۔ آج فیٹف کے حوالے سے جو خبر ہمیں سننے کو ملی ہے، اس میں گزشتہ چار سال کی کاوشیں شامل ہیں۔ نہ تو عمران خان سے یہ اعزاز چھینا جا سکتا ہے، نہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے، نہ ہی موجودہ حکومت کو اس معاملے سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے رہنما، ہمارے ذمہ داران اس حقیقت کا ادراک اور اعتراف کیوں نہیں کر پاتے کہ روم ایک دن میں تباہ تو کیا جا سکتا ہے، ایک دن میں تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔

ایس ایم ظفر سے مکالمہ

وہ مکالمہ جو جناب ایس ایم ظفر اور ڈاکٹر وقار ملک کے درمیان کم و بیش پچیس برس جاری رہا، مختلف مجلوں اور جریدوں میں شائع ہوتا اور دلچسپی سے پڑھا جاتا رہا، اب کتابی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ جس طرح ایس ایم ظفر اپنی مثال آپ ہیں، اُسی طرح وقار ملک بھی منفرد اور ممتاز ہیں۔ انہیں مختلف موضوعات پر سوال اٹھانے کا جو ملکہ حاصل ہے، وہ بہت کم میڈیا پرسنز کو نصیب ہوا ہوگا۔ پاکستان کے کئی ممتاز اہل دانش کے ساتھ ان کا مکالمہ رہا ہے لیکن ایس ایم ظفر کے ساتھ جس تسلسل سے ان کی ملاقاتیں جاری رہیں، یہ کسی اور کے ساتھ ممکن نہیں ہوا۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کی ”عادت“ سی ہو گئی۔ ایک دوسرے کا اسلوب ایسا بھایا کہ بات سے بات نکلتی چلی گئی، ملاقاتیں جاری رہیں اور سینکڑوں صفحات مرتب ہو گئے۔ پاکستا نکی تاریخ،سیاست، عدالت اور ثقافت کے بارے میں شاید ہی کوئی سوال ایسا ہوگا جو وقار ملک نے پوچھا نہ ہو اور اُس کا جواب حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہ کی ہو۔ درست ہے کہ کسی عالی دماغ سے مکالمے میں بنیادی اہمیت جواب ہی کی ہوتی ہے لیکن یہ بھی غلط نہیں ہے کہ جواب کی وسعت اور گہرائی بعض اوقات سوال کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ سوال کرنے والا اس کان کن کی مانند ہے، جو سونے کی کان میں اُترتا اور مالا مال واپس آتا ہے۔

پاکستان کے اہل سیاست اور اہل دانش میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو مسائل کی قوالی کرنے کو کمال سمجھتے ہیں، اپنے الفاظ کی قوالی (یا جگالی) کرتے چلے جاتے ہیں اور الجھاؤ میں اضافہ کرنے کو شجاعت اور استقامت کا نام دے بیٹھتے ہیں۔ اس ماحول کو اگر ایس ایم ظفر یکسر تبدیل نہیں کر سکے تو بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری، اسلوب نہیں بدلا، نعرہ بازوں میں اپنا نام نہیں لکھوایا۔ تدبیر اور تدبر کا سکہ ان کی ٹکسال میں ڈھلتا چلا گیا، وقار ملک نے اس سکے کا ایک بڑا ذخیرہ محفوظ کر دیا ہے۔ اس سے استفادہ کرکے آپ نے لکھ پتی بننا ہے، کروڑ پتی یا ارب پتی، یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے ؎

بنتے ہیں مری کارگہِ فکر میں انجم

لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان