خواہش، بارش، خارش، سازش!

میں نے بہت دنوں سے کار ڈرائیو کرنا چھوڑی ہوئی ہے کل ایسے ہی ہاتھوں میں ’’خارش‘‘ ہوئی اور کار ڈرائیو کرنے کو جی چاہا مگر یہ خارش بھی ایسے ہی نہیں ہوئی تھی بلکہ جب آسمان پر بادل چھاتے ہیں اور کچھ دیر بعد رم جھم شروع ہو جاتی ہے تو مجھ پر ایک وحشت سی طاری ہو جاتی ہے چنانچہ میری یہ روٹین رہی تھی کہ بارش کی بوندوں کی چھنکار کان میں پڑتے ہی میں کار پورج سے نکالتا تھا اور بغیر کسی متعین سمت کے سڑکوں پر دوڑاتا تھا کل بہت دنوں کے بعد میرا جی مچلا اور اگرچہ طویل عرصے سے کار نہ چلانے کی وجہ سے میں تقریباً اناڑی ہو چکا تھا مگر شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا ۔ خواہش ویسے بھی انسان کو بعض اوقات اندھا کر دیتی ہے چنانچہ ریورس میں باہر نکالتے ہوئے پہلے تو کار گھر کے گیٹ سے ٹکرائی جس سے میں ذرا محتاط ہو گیا اور میں نے چن کر اس سڑک کا رخ کیا جس پر بارش کے دوران پانی جمع ہو جاتا ہے پانی میںسے کار گزارنے کا اپنا ہی مزا ہے خصوصاً اگر اس کی چھینٹیں سڑک پر چلتے ہوئے یا بس اسٹاپ پر کھڑے غریب لوگوں پر پڑیں اور وہ بے بسی سے بس آپ کو دیکھتے رہیں یا دل میں گالیاں دیں ،دل میں گالیاں دینے سے نودولتیوں کو کیا فرق پڑتا ہے تاہم میں محسوس کر رہا تھا کہ اپنے اناڑی پن کی وجہ سے متعدد بار کار حادثے کا شکار ہوتے ہوتے بچی چنانچہ میں نے سوچا قریب ہی ارشد تھتھے کا گھر ہے کیوں نہ اسے ساتھ لے لیا جائے، وہ بہت عرصے سے رکشا چلاتا آ رہا ہے اسے ایک دفعہ موت کے کنویں والوں نے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے کی ملازمت آفر کی تھی مگر ارشد تھتھا اپنی موجودہ ’’ملازمت‘‘ سے مطمئن تھا چنانچہ اس نے انکار کر دیا۔

ارشد گھر پر ہی موجود تھا مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور فوراً میرے برابر والی نشست پر بیٹھ گیا یہ تو اس کے بیٹھنے کے ساتھ ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ شدید خارش میں مبتلا ہے مگر مجھے اس سے کیا فرق پڑتا تھا ،بولا یار نہر والی سڑک پر چلو میں نے کہا لاہور میں اتنا کچھ نیا بن گیا ہے کہ مجھے لاہور کے رستے یاد نہیں رہے ویسے بھی کار ڈرائیور چلاتا ہے اور میں پچھلی سیٹ پر بیٹھا رات کی نیند پوری کرتا رہتا ہوں مجھے اب یاد نہیں نہر والی سڑک پر جانے کا رستہ کون سا ہے؟ اس نے کہا میں اسٹیئرنگ پر آتا ہوں تم میری سیٹ پر آ جائو میں نے پوچھا تم نے کبھی کار چلائی ہے !بولا اگر میں رکشا چلا سکتا ہوں تو کار کیا چیز ہے سو اس نے اسٹیئرنگ پر بیٹھتے ہی ایکسیلیٹر پر پائوں رکھا اور میری چیخ نکل گئی کیونکہ کچھ فاصلے پر بس جا رہی تھی مگر ارشد تھتھے نے اس کے قریب پہنچ کر تیزی سے کار کا رخ دائیں طرف موڑا اور پھر رکشوں، موٹر سائیکلوںاور کاروں کے درمیان میں سے زگ زیگ بناتا ہوا کار کو ایک بار پھر سیدھے

اور صاف رستے پر ڈال دیا مگر اللہ جانتا ہے کہ اس عرصے میں میری جان پر بنی رہی اوپر سے تھتھے کو خارش بھی تنگ کر رہی تھی وہ کبھی اوپر کھجلاتا، کبھی دائیں بائیں ،کبھی درمیان، کہیں ٹانگوں کو کھجلانے لگتا ظاہر ہے اس دوران اس کا ایک ہاتھ مسلسل مصروف رہتا میں دعا مانگا رہا کہ یا اللہ اس کا جو پائوں بریک پر ہے اسے خارش سے بچائے رکھیو بلکہ میں نے اسے یہ پیشکش بھی کر دی کہ اگر پائوں میں خارش ہو تو خود زحمت نہ کرنا میں خدمت کے لئے حاضر ہوں!

اس دوران بارش بہت تیز ہوگئی تھی، مگر اب مجھے اس سہانے موسم سے کیا لینا دینا تھا، میں تو مسلسل دونوں ہاتھ اٹھائے دعا کر رہا تھا کہ یا رب کریم میں بہت قیمتی انسان ہوں، ملک و قوم کو میری خدمات کی شدید ضرورت ہے میری حفاظت فرمانا۔ارشد کو اندازہ ہو گیا تھا کہ میں بہت خوفزدہ ہوںچنانچہ اس نے میری طرف منہ کرکے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے ڈرنے کی ضرورت نہیں، تم بے خوف ہو کر بیٹھو کہ ساتھ ہی کار کی چیخیں سنائی دیں اور اس کے ساتھ ہی کار اگلی کار کے بمپر سے ٹچ ہوگئی۔ کار کا مالک نیچے اترا، اس نے ایک نظر بمپر پر ڈالی جس پر معمولی سا ڈینٹ پڑا تھا چنانچہ اس نے ارشد تھتھے کو چند معمولی سی گالیاں دیں اور دوبارہ اپنی کار میں بیٹھ گیا۔

اب میرا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا، میری جان بھی خطرے میں تھی اور ہمارے ہمسائے یعنی ارد گرد کی گاڑیوں والے بھی اب محتاط ہوگئے تھے۔ میں نے ارشد سے کہا ’’تمہیںاللہ کا واسطہ ہے اب واپس گھر چلو‘‘مگر اسٹیرنگ سے جدائی اس کے لئے ناقابلِ برداشت تھی کہ زندگی میں پہلی بار اسے گاڑی چلانے کا موقع ملا تھا۔ اس سے پہلے روزی کمانے کیلئے ایک ورکشاپ میں کام کرنے کے دوران اپنے استاد کے کہنے پر اس نے دو بار ایک گاڑی ریورس کی تھی، اب وہ اسٹیرنگ کی جان چھوڑنے کو تیار نہ تھا کہ اسے پہلی بار کھل کھیلنے کا موقع ملا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ میں اسے واپس جانے کیلئے کہہ رہا ہوں تو اس نے پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ڈرائیونگ شروع کردی۔ چنانچہ اس بار کار کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا۔ وہ سامنے سے آنے والے ایک ٹرک سے ٹکرائی، میں اور ارشد تھتھا معجزانہ طور پر بچ گئے، مگر کار کا انجر پنجر ہل گیا۔ ارشد نے دائیں ہاتھ سے جسم کے ایک حصےاور بائیں ہاتھ سے جسم کے دوسرے حصے کو بہت بری طرح کھجلاتے ہوئے کہا ’’اب تم مجھ پر الزام دھرو گے، تمہاری خواہش پر میں نے اسٹیرنگ سنبھالا، اس دوران بارش نے بھی ٹریفک میں خلل ڈالا، ڈرائیونگ کے دوران شدید کھجلی پر تھوڑی بہت کھجلی ہی سے کام چلایا، چنانچہ اس حادثہ میں قصور نہ تمہاری خارش کا ہے نہ تمہاری موسم سے لطف لینے کی خواہش کا ہے، نہ بارش کا ہے، نہ میری خارش کا ہے۔ قصور ٹرک ڈرائیور کا ہے ہم تو سیدھا جا رہے تھےوہ سازش کے تحت ہماری کار سے ٹکرایا‘‘۔

میں نے اس سے بحث کرنا مناسب نہ سمجھا اب کار کا انجر پنجر ایک ورکشاپ میں پڑا ہے۔