بڑھتی مہنگائی، قوت خرید میں کمی کے باعث ماہانہ راشن کی خریداری میں بڑی کمی

برطانیہ میں تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور زندگی گزارنے کیلئے اخراجات میں اضافے کے باعث برطانوی تعطیلات کے دوران بڑے پیمانے پر لوگوں نے سیروسیاحت کا ارادہ ترک کر دیا قوت خرید میں کمی آنے کے باعث ماہانہ راشن کی خریداری میں بھی واضح کمی دیکھی جا رہی ہے۔ ایک عوامی سروے کے نتائج میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ افراط زر، شرح سود اور توانائی کے بلو ں میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے کئی خاندان معاشی مشکلات کا شکار ہیں آدھے سے زیادہ برطانوی کھانے کی خریداری میں کٹوتی کر رہے ہیں کیونکہ وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھر پور جدوجہد کر نے پر مجبور ہیں ریڈفیلڈ اور ولٹن اسٹریٹیجیز کی طرف سے پوچھے گئے سوالات پر تقریباً سبھی نے اعتراف کیا کہ قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، 43 فیصد نے کہا کہ اس کا اثر گہرا پڑ رہا ہے گروسری کے اخراجات کو جان بوجھ کر 55فیصد عوام کی طرف سے کم کیا گیا ہے عادات کو تبدیل کرنے والوں میں سے دو تہائی نے کہا کہ انہوں نے ویلیو برانڈز کو تبدیل کر دیا ہے جبکہ 40فیصد صرف کم خرید رہے ہیں ۔گزشتہ مہینے میں نصف عوام نے تفریحی سرگرمیوں، کھانے پینے اور کپڑوں پر اپنے اخراجات کو بھی کم کر دیا ہے41فیصد نے آنے والے مہینوں میں برطانیہ یا بیرون ملک چھٹیاں لینے سے انکار کیا ہے ان میں سے تقریباً 60فیصد کا کہنا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ مالیات پر مسلسل دباؤ کی وجہ سے ہے دریں اثنایہاں تک کہ وہ لوگ جو اب بھی روانہ ہو رہے ہیں انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے معمول سے سستی منزل اور رہائش کا انتخاب کیا ہے یا کم وقت کے لیے قیام پذیر ہیں ساتھ ہی ٹیکس کی بلند شرح پر بھی بڑے پیمانے پر ناخوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے‘ وراثتی ٹیکس میں کٹوتیوں کے لیے کالز سب سے زیادہ بلند ہو رہی ہیں جسے ٹریژری کے ذریعے نظر انداز کیا جا رہا ہے یہ انکم ٹیکس ہے جسے ووٹرز کی طرف سے سب سے کم منصفانہ سمجھا جاتا ہے یہ اس وقت آتا ہے جب افراط زر کا مطلب ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اعلی ٹیکس بریکٹ میں گھسیٹا جا رہا ہے ایسے حالات میں ٹوری اگلے انتخابات میں اقتدار برقرار رکھنے کی امید رشی سنک اور جیریمی ہنٹ کی مہنگائی کو نصف کرنے اور ووٹروں کے انتخابات میں جانے سے پہلے رہن کے اخراجات میں کمی کی امیدوں پر مرکوز ہے۔ریڈ فیلڈ اور ولٹن کے سروے میں ایک تہائی سے زیادہ (35فیصد) نے کہا کہ یہ وہ مسئلہ ہے جو زیادہ تر اس بات کی وضاحت کرے گا کہ وہ اگلے انتخابات میں اپنا ووٹ کیسے ڈالیں گے واضح طور پر یہ تمام عمر گروپوں میں سب سے اہم مسئلہ تھاجس میں پنشنرز میں سب سے زیادہ تعداد تھی ایک گروپ جس میں ٹوری ووٹرز کی ایک بڑی تعداد شامل تھی اپریل میں سی پی آئی ایک ماہ پہلے کے 10.1 فیصد سے گھٹ کر 8.9 فیصد پر آ گیا آٹھ مہینوں میں پہلی بار دوہرے اعداد و شمار سے باہر ہو گیاوزیراعظم مسٹر سنک نے سال کے آخر تک مہنگائی کی شرح نصف کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے کیونکہ لاکھوں افراد زندگی گزارنے کی لاگت کے بحران، بلند شرح سود اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں سروے کے مطابق ووٹروں کے ذہنوں پر اگلے سب سے سنگین مسائل تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال تھے۔ یو گوو کی جانب سے کئے گئے تازہ ترین سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اخراجات زندگی میں اضافے کے سبب کم و بیش 2 ملین افراد کم ازکم مہینے میں 3 دن فاقہ کشی پر مجبور ہوتے ہیں۔ 6 ہزار افراد سے کئے گئےسروے کے دوران یہ بات سامنےآئی کہ کم و بیش 9.6 ملین گھرانے شدید مالی مشکلات سےدوچار تصور کئے جانے والے گھرانوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ اس سروے کے دوران مالی مشکلات سے دوچار 61 فیصد افراد نے بتایا کہ انہوں نے دوستوں اور فیملی کے ارکان سے ملنا جلنا کم کر دیا ہے۔ 46 فی صد نے بتایا کہ انہوں نے اخراجات کی وجہ سے ڈا کٹروں کے علاج کا ارادہ ملتوی کر دیا ہے۔ 35 فیصد برطانوی شہریوں نے بتایا کہ وہ مہینے میں ایک مرتبہ بھی متوازن غذا نہیں لے سکتے۔ اطلاعات کے مطابق لوگ ٹیک اوے سے گریز کر رہے ہیں اور سستی اشیا کی خریداری کیلئے سپرمارکیٹ کے چکر لگاتے ہیں۔ 6540 افراد سےیہ سروے 24 اپریل سے 3 مئی کے دوران فنانشل فیئرنس ٹرسٹ چیرٹی ابرڈن کی جانب سےکرائی گئی۔