فلائٹ PK-9739

اب اس قلم کی زور آوری کا کیا کروں؟ بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ لکھنا کچھ چاہتا ہوں اور لکھا کچھ اور ہی جاتا ہے۔ لکھنا شروع کسی اور حساب سے کرتا ہوں اور اختتام کہیں اور ہو جاتا ہے۔ اس قلم پر بعض اوقات تو بالکل ہی زور نہیں چلتا اور تھوڑی دیر بعد ہی کسی اور طرف گھسیٹ کر لے جاتا ہے۔ ایسا ہی گزشتہ کالم میں ہوا۔ بات سفر سے شروع ہوئی اور قلم نے شہسوار بن کر خیال کے گھوڑے پر ایسی سواری کی کہ اسے کہیں سے کہیں لے گیا۔ نصف سے زیادہ کالم لکھ چکا تھا تب احساس ہوا کہ ساتھ پڑی ہوئی کافی ٹھنڈی ہو چکی ہے اور کالم کہیں کا کہیں جا چکا ہے۔ تیر کمان سے نکل چکا تھا سو اسے اس کی سمت جانے دیا۔ اللہ جانے یہ ہوا میں چلایا گیا تیر کالم تھا یا کچھ اور! تاہم میرا خیال ہے بعض نشانے سے ہٹ کر چلائے گئے تیر بھی اپنے ہدف تک پہنچ جاتے ہیں۔ بقول عزیر از جان ڈاکٹر کبیراطہر:

کماں سے نکلا تھا میں نشانے سے ہٹ کے لیکن
ہوا کے اصرار پر نشانے تک آ گیا ہوں
مری بلا سے یہ راستہ اب کہیں بھی جائے
میں اپنے گھر‘ اپنے آشیانے تک آ گیا ہوں

بات گزشتہ کالم میں سفر سے شروع ہوئی اور یہ سفرعشرے عبور کرتے ہوئے ماضی کے دھندلکوں میں کھو گیا مگر کیا کروں خیال‘ قلم‘ وقت اور حالات۔ اب تو کچھ بھی اپنے قابو میں نہیں رہا۔ بس خوش فہمیاں ہیں اور زندگی گزر رہی ہے۔ سفر مری زندگی کا لازمہ سا ہے۔ طبیعت ایسی ہے کہ کہیں ٹک کر بیٹھنے پر راضی نہیں ہوتی لیکن پہلے سفر لطف دیتا تھا اب جی کو بہلاتا ہے اور من کو لگاتا ہے۔ سفر گو کہ پہلے کی نسبت آسان ہو گیا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے یہ مسئلہ پیدا ہو گیا ہے کہ دورانِ سفر زیادہ دیر پاؤں نیچے لٹکائے رکھوں تو سوج جاتے ہیں۔ اس بیماری کو میڈیکل کی اصطلاح میں ایڈیما کہتے ہیں۔ پہلے پہل تو اس کو لفٹ ہی نہ کروائی۔ معاملہ بڑھا تو معلوم ہوا کہ اس کو دل پر نہیں لینا چاہیے اور زیادہ فکر بھی نہیں کرنی چاہئے‘ اس کا بڑا ہی آسان علاج ہے۔ سفر سے واپسی پر اگلی رات سوتے ہوئے اپنے پاؤں کے نیچے ایک عدد صحت مند سا تکیہ رکھ کر سو جائیں۔ پاؤں اور ٹخنوں میں بنی ہوئی خون کی تھیلیوں میں جمع ہونے والا خون دوبارہ کھسک کر نیچے آ جائے گا مطلب ہے اوپر چلا جائے گا اور یوں دو ہی راتوں میں یہ معاملہ نپٹ جائے گا؛ تاہم پھر معاملہ اس حد تک پہنچ گیا کہ جوتا اتارا تو دوبارہ پہننا مشکل ہو گیا۔ اس پر شعیب بن عزیز کا واقعہ یاد آگیا۔ شعیب بن عزیز برطانیہ سے پاکستان واپس آ رہے تھے۔ جہاز کا لندن سے لاہور کا سفر بھی قریب آٹھ گھنٹوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ نیا جوتا خریدا اور پہن لیا۔ لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ کے طویل برآمدوں اور لمبی راہداریوں کو پیدل عبور کیا اور بالآخر جہاز میں سوار ہو گئے۔ پاؤں کو سکون دینے کی خاطر جوتے کی قید سے آزاد کیا اور سارا سفر اسی آزادی سے گزار دیا۔ جب لاہور آنے کا اعلان ہوا تو پاؤں دوبارہ جوتے کے حوالے کرنے کی سعی کی مگر نئے اکڑ خان قسم کے جوتے نے ان پاؤں کو یہ کہتے ہوئے قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ جو پاؤں اس جوتے سے چھ سات گھنٹے پہلے نکالے گئے تھے وہ یہ والے تو ہرگز نہیں تھے۔ ظاہر ہے جوتے کی آنکھیں تو تھیں نہیں کہ پاؤں پہچانتا‘ اسے تو پاؤں کے سائز سے غرض تھی۔ چارو ناچار شعیب صاحب نے جوتا ہاتھ میں پکڑا اور ننگے پاؤں ہی چل پڑے۔ کسی جاننے والے نے ایئر پورٹ پر شعیب صاحب کو پہنچانتے ہوئے انہیں ننگے پاؤں جوتا ہاتھ میں پکڑ کر چلتے دیکھا تو حیرت سے پوچھا کہ شعیب صاحب خیریت ہے؟ شعیب صاحب نے نہایت عقیدت بھری آواز میں کہا: داتا کی نگری میں داخل ہوتے وقت جوتا پہننے پر دل مائل نہیں تھا تو اتار کر ہاتھ میں پکڑ لیا ہے۔ ان صاحب نے فرطِ عقیدت سے شعیب بن عزیز کے ہاتھ چوم لیے۔

جب اپنا معاملہ بھی بگڑ کر اس حد تک آ گیا کہ دوبارہ جوتا پہننا مشکل ہو گیا تو ڈاکٹر بیٹی نے فون پر بتایا کہ اس کے لیے مخصوص جرابیں ہوتی ہیں۔ نیلا گنبد لاہور سے ایک سرجیکل سٹور سے مبلغ بارہ سو روپے کی وہ جرابیں خریدیں۔ دکاندار نے پیسے پکڑ کر جرابیں میرے ہاتھ میں پکڑائیں۔ رسید میرے حوالے کرنے سے پہلے اس پرمہر لگائی‘ میں نے گمان کیا کہ دکان کی طرف سے رقم وصولی کی تصدیقی مہر ہوگی مگر جب اس پرنظر دوڑائی تو وہ دراصل ایک اطلاعی مہر تھی جس کے ذریعے مجھے مطلع کیا گیا تھا کہ خریدی ہوئی چیز واپس یا تبدیل ہرگز نہیں ہوگی۔ امریکہ سے تازہ تازہ واپسی کے باعث شفیق کے سنائے گئے قصے ابھی ذہن میں تھے کہ وہاں اٹھائیس دن کے اندر اندر بے شمار ایسی چیزوں کی واپسی کا رواج اور قانون ہے کہ بندہ سن کر پریشان ہو جائے۔ برادرِ عزیز شفیق کے امریکی شہر لاس اینجلس میں چار پانچ بی این سی سٹور ہیں۔ یہ امریکہ میں وٹامنز اور فوڈ سپلیمنٹ فروخت کرنے والی شاید سب سے بڑی چین ہے۔ شفیق نے بتایا کہ بعض اوقات لوگ ان سے پندرہ بیس روز پہلے خریدے گئے وٹامنز یا فوڈ آئٹمز اس حالت میں واپس کرنے آتے ہیں کہ وہ ستر‘ اسی فیصد گولیاں یا پاؤڈر استعمال کر چکے ہوتے ہیں اور آ کر بتاتے ہیں کہ ان کو اس سے رَتی برابر فائدہ نہیں ہوا بلکہ منفی اثرات پڑے ہیں‘ لہٰذا یہ بقیہStuff واپس لیا جائے اور انہیں پوری رقم واپس کی جائے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ پھر تم کیا کرتے ہو؟ وہ کہنے لگا واپس کرتے ہیں اور کیا کریں۔ میرا منہ حیرانی سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔

ادھر دکاندار نے بیک جنبش مہر میرے ایسے تمام حقوق کا قلع قمع کر دیا جو بحیثیتِ گاہک مجھے حاصل تھے۔ بعد ازاں یہ جرابیں بیکار اور ناکارہ ثابت ہوئیں۔ گھٹنوں تک اونچی یہ جرابیں نہ پاؤں کی سوجن روکنے میں معاون ثابت ہوئیں اور نہ ہی پہننے میں آرام دہ ثابت ہوئیں۔ دو سفروں کے بعد کوڑے کے ڈرم میں پھینک دیں۔ منجھلی بیٹی کچھ عرصہ پہلے آسٹریلیا سے یہ جرابیں لائی جو بہت ہی کارآمد ثابت ہوئیں۔ اس عمر میں سفر میں ایسی سہولت بھی اب غنیمت ہے۔ سفر سے یاد آیا‘ دنیا بھر میں ہوائی اور زمینی ٹرانسپورٹ مسافروں کی سہولتوں پر اتنی توجہ دیتی ہے کہ روز نت نئی ایجادات اور تراکیب معرضِ وجود میں آ رہی ہیں‘ ادھر ہمارے ہاں ایک کام تو بہتر ہوا ہے کہ زمینی ٹرانسپورٹ میں مقابلے کے رجحان سے بہت بہتری پیدا ہوئی ہے۔ جدید بسوں کی آمد سے سفر آرام دہ اور آسان ہوا ہے مگر ریلوے اور ہوائی سفر میں جہاں سرکاری اداروں کی تقریباً مناپلی ہے‘ حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خرابی کی طرف گامزن ہیں۔

ملتان سے جدہ جاتے ہوئے دل پر پتھر رکھ کر ایگزیکٹو کلاس کا ٹکٹ لے لیا۔ سوچا کہ جدہ سے آگے تھوڑی مشقت درپیش آئے گی لہٰذا اس سے پہلے تھوڑا آرام کر لیا جائے۔ ایئر ہوسٹس سے کمبل مانگا تو اس نے آگے سے ایسا ٹیکنیکل انکار کیا کہ دل اَش اَش کر اٹھا‘ کہنے لگی: کمبلوں کو پرفیوم لگا ہوا ہے اور آپ نے احرام باندھا ہوا ہے‘ ایسے میں خوشبو سے پرہیزکیا جاتا ہے۔ میں نے کہا :بی بی میں اب محض آپ کو آزمانے کی خاطر کمبل کا رسک تو نہیں لے سکتا؛ تاہم تکیہ تو دے دیں۔ کہنے لگی: آج ہم سارے جہاز کے لیے تکیے لانا بھول گئے ہیں۔ کھانے کے دوران اس نے پینے کے لیے کچھ پوچھا۔ میں نے کہا کہ اورنج جوس چاہئے۔ آگے سے نہایت ہی اطمینان سے کہنے لگی:سر! آج کیٹرنگ والے جوس دے کر ہی نہیں گئے۔ پھر پوچھنے لگی اور کچھ؟ میں نے کہا: پہلے کون سی میری چل رہی ہے‘ جو دل کرے دے دیں۔ پوچھ کر دل تو نہ جلائیں۔ اطلاعاً عرض ہے کہ مورخہ بارہ مئی کی اس فلائٹ کا نمبر PK-9739تھا۔