دوستی

اسلم بڑا پیارا بچہ تھا۔اس کے ابو کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ان کا کاروبار خوب چلتا تھا۔زندگی بڑے آرام اور مزے سے گزررہی تھی۔اسلم اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔گھر میں اور کوئی بچہ نہ تھا،جو اس کے ساتھ مل کر کھیلتا۔

اس کے ماں باپ اسے طرح طرح کی چیزیں لا کے دیتے تاکہ وہ خوش رہے۔اسلم کو کھلونوں اور چیزوں کی زیادہ پرواہ نہ تھی۔اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔وہ کھلونوں سے کھیلنے کی بجائے کتابیں پڑھا کرتا تھا۔

مدر سے میں بھی اس کی یہی حالت تھی۔

پڑھائی خوب دل لگا کر کرتا تھا۔کھیل کود کے وقت زیادہ تر انہی ہم جماعتوں سے ملتا تھا،جو پڑھنے لکھنے کے بہت شوقین ہوتے تھے۔کلاس میں بیٹھتا تو انہی لڑکوں کے پاس بیٹھتا ،انہیں اپنا دوست بناتا۔ان دوستوں میں اس کا ایک دوست ارشد تھا۔

یہ بڑا خوب صورت اور ذہین بچہ تھا۔اسلم کی اس سے بڑی دوستی تھی۔ارشد بھی اسلم کو بہت چاہتا تھا۔دونوں سگے بھائیوں کی طرح رہتے تھے۔اتفاق سے ارشد کا مکان اسلم کے مکان کے بالکل ساتھ تھا۔اس لیے مدرسے سے واپس آنے کے بعد دونوں دوستوں کو ایک دوسرے سے ملنے اور کھیلنے میں بڑی آسانی تھی۔

ارشد کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔اس کی ایک چھوٹی بہن تھی۔اس کا نام نسیم تھا۔ارشد کی امی محلے میں سلائی کاکام کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتی تھی۔اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے کتابیں خرید سکیں،اور اس کی پڑھائی کے اخراجات پورے کر سکیں،لیکن ارشد کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔

اسلم کے ابا بہت خدا ترس اور نیک انسان تھے۔وہ بھی ارشد کو بہت پیار کرتے تھے،اسی لیے وہ جب کبھی اپنے بیٹے اسلم کے لیے کوئی نئی کتاب یا کاپی خریدتے تو اس کے دوست یعنی ارشد کے لیے بھی ضرور خریدتے۔اسلم خود بھی اپنے دوست کا بہت خیال رکھتا تھا اور کبھی کوئی کاپی کوئی قلم اپنے دوست کے لیے لے آتا اور پھر موقعہ دیکھ کر تحفے کے طور پر دے دیتا تاکہ ارشد کو یہ محسوس نہ ہو کہ یہ اس پر احسان کررہا ہے۔

ارشد کی امی بھی اسلم کو بہت پیار کرتی تھیں۔جب یہ دونوں دوست مل کر پڑھتے یا کھیلتے تو وہ انہیں دیکھ دیکھ کر بے انتہا خوش ہوتی تھیں۔

ارشد کا زیادہ وقت اسلم کے گھر ہی گزرتا تھا۔گھر میں اُٹھنے بیٹھنے کے لیے صاف ستھری جگہ تھی اور ہر طرح کا آرام بھی تھا،اس لیے ارشد کی ماں خود ہی اسے وہاں زیادہ وقت گزارنے کی اجازت دے دیتی تھیں۔

محلے والے تو خیر ان سے واقف ہی تھے،لیکن دوسرے لوگ ان دونوں بچوں کو ایک ساتھ اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے،ایک ساتھ سکول آتے جاتے،اکٹھے لکھتے پڑھتے،کھیلتے دیکھتے تو یہی سمجھتے کہ دونوں سگے بھائی ہیں۔ایک دن کا ذکر ہے کہ اسلم کے ابا اپنے کاروبار کے سلسلے میں کسی دوسرے شہر میں گئے تھے۔

اسلم چاہتا تھا کہ ارشد کو ساتھ لے کر کوئی فلم دیکھنے جائے اس کی امی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا:

”نہیں بیٹا!آج تم فلم دیکھنے مت جاؤ،کیوں کہ تمہارے ابا گھر پر نہیں ہیں اگر تم بھی فلم دیکھنے چلے گئے تو میں گھر پر اکیلی رہ جاؤں گی۔

لہٰذا تم کل فلم دیکھنے چلے جانا۔“اس روز اسلم اور ارشد کا موڈ شاید اچھا نہیں تھا،اسی لیے وہ زیادہ دیر تک پڑھ نہ سکے اور پھر ارشد اٹھ کر اپنے گھر چلا گیا۔

ارشد کے جانے کے بعد اسلم بھی اٹھ کر اپنی چارپائی پر لیٹ گیا اور کافی دیر تک کروٹیں لیتا رہا۔

اس کی امی سمجھیں،شاید اسلم فلم پر جانے کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے کچھ اداس اور بے چین ہے۔انہوں نے اسلم سے پوچھا:”بیٹا!کیا بات ہے ،تم ابھی تک جاگ رہے ہو،کیا نیند نہیں آرہی ۔کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟“

اسلم نے جواب دیا:”نہیں امی،کوئی تکلیف نہیں،بس نیند نہیں آرہی۔

معلوم نہیں طبیعت کیوں بے چین ہورہی ہے۔“

اس کی امی نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا:”چلو بیٹا !آنکھیں بند کرو۔نیند خود بخود آجائے گی۔“تھوڑی دیر کے بعد ماں بیٹا دونوں سوگئے۔رات کو اچانک اسلم کی امی کی آنکھ کھل گئی۔

انہوں نے شاید کوئی ڈراؤنا سا خواب دیکھا تھا۔انہوں نے گھبرا کر ادھر ادھر نظر ڈالی تو دیکھا کہ اسلم کی چارپائی خالی پڑی ہے۔وہ ایک دم گھبرا کر اپنی چار پائی سے نیچے اتر آئیں۔کمرے سے باہر جھانک کر دیکھا۔اسلم چھجے کے ایک کونے میں کھڑا تھا۔

امی نے اسے پیار کیا اور پوچھا:”بیٹا!کیا بات ہے،یہاں کیوں کھڑے ہو؟“

اسلم بولا:”امی !ادھر سے کسی کے رونے کی آواز آرہی ہے،ایسا لگتا ہے جیسے ارشد کی آواز ہے“۔

اسلم کی امی نے دیکھا کہ ارشد کے مکان میں روشنی ہورہی ہے۔

کان لگا کر سنا تو واقعی ارشد کے کر اہنے کی آواز آرہی تھی۔اسلم کو جب یہ پتہ چلا تو وہ بے تاب ہو گیا اور سیڑھیوں کی طرف لپکا۔اس کی امی اس کے پیچھے پیچھے گئیں وہاں جا کر دیکھا کہ ارشد بیمار ہے اور سخت بے چین ہے اور اس کی امی اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہیں۔

اسلم تو جاتے ہی ارشد سے لپٹ گیا اور اسے تسلیاں دینے لگا۔اس کی امی بھاگ کر اپنے گھر گئیں اور نوکر کو بلا لائیں اور پھر فوراً سے ڈاکٹر کی طرف دوڑایا۔خود بیٹھ کر ارشدکی امی کو دلا سادینے لگیں۔چند ہی منٹوں میں نوکر ڈاکٹر کو لے کر آگیا۔

اس نے ارشد کو دیکھا اور پھر کہا:”گھبرائیے نہیں،بچے کو بخار ہے۔ذرا تیز ہو گیا ہے۔اس لیے بے چین ہے،اللہ نے چاہا تو بہت جلد ٹھیک ہو جائے گا“۔

ڈاکٹر نے فوراً ارشد کو ٹیکہ لگایا۔نسخہ لکھا،کچھ ہدایات دیں اور کہا کہ بچے کے سر پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھیں۔

اسلم بڑے غور سے یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہا تھا۔وہ اپنے گھر گیا اور فرج میں سے برف لایا۔ایک طشت میں ڈال کر پانی ٹھنڈاکیا۔اور پھر پٹی بھگو کر ارشد کے سر پر رکھ دی۔ارشد اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔اس کی حالت دیکھ کر اسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
اس نے ایک دم اپنا منہ دوسری طرف کرلیا۔

تھوڑی دیر کے بعد نوکر ڈاکٹر کے یہاں سے دوا لے کر آگیا۔ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ارشد کو دوا پلادی گئی۔کچھ ہی دیر بعد ارشد کی بے چینی کم ہو گئی اور پھر وہ سو گیا۔اسلم اور اس کی امی جب سے دونوں آئے تھے،ارشد کی امی کی ڈھارس بندھ گئی تھی۔

اب جو بچے کی آنکھ لگ گئی تو ان کے دل کو ذرا تسکین ہوئی۔ارشد اب سکون سے سورہا تھا۔اس کی امی نے اسلم سے کہا :”اسلم بیٹا!اب تمہارے بھائی کی آنکھ لگ گئی ہے،تم بھی جاؤ،آرام کرو،رات کافی گزر چکی ہے‘’‘۔

لیکن اسلم نہیں مانا،کہنے لگا:”نہیں خالہ جان!میں نہیں جاؤں گا۔

آپ آرام کریں۔میں یہیں ارشد کے پاس بیٹھوں گا۔“

بڑی مشکل سے اسے راضی کیا گیا،اسلم اور اس کی امی خدا حافظ کہہ کر رخصت ہوئے۔صبح سویرے جب ارشد کی امی کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ارشد کا بخار اتر گیا ہے اور وہ آرام سے سورہا ہے اور اسلم ایک طرف بیٹھا ہے۔ارشد کی امی نے اسے گلے سے لگا لیا۔