لاہور سے یوکرین تک

سمجھ نہیں آرہی کہاں سے شروع کیا جائے۔
عجیب سا ڈپرپشن ہے۔ افسردگی نے گھیرا ڈالا ہوا ہے۔ ایک اعلیٰ پائے کی لکھاری قیصرہ شفقت صاحبہ آج کل امریکہ گئی ہوئی ہیں۔ ان کی فیملی سے ذاتی تعلق ہے۔انہوں نے اپنی فیس بک وال پر ایک لڑکے کا واقعہ لکھا جس سے ان کا دکھ جھلک رہا تھا۔ میں نے ان کی وال پر لکھا کہ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ حساس ہونا نعمت ہے یا ظلم۔پھر شاہدہ نعمانی صاحبہ کا میسج پڑھا جو لاہور میںاپنا ٹرسٹ چلاتی ہیں۔ ان جیسی حساس خواتین بھی کم ہوں گی۔پاکستان میں بہت لوگ ٹرسٹ چلاتے ہیں لیکن آپ نے کم ہی سنا ہوگاکہ کوئی خاتون بھی ٹرسٹ چلاتی ہو۔ شاہدہ نعمانی صاحبہ سے کبھی ملا نہیں لیکن ان سے پانچ سال سے رابطہ ہے۔ وہ ٹوئٹر اور فیس بک پر موجود ہیں۔مجھے کہنے دیں کہ میں نے ان سے زیادہ حساس دل انسان کم ہی دیکھا ہوگا۔ چلیں بہت سے لوگ حساس ہوں گے لیکن وہ صرف آپ یا میری طرح کڑھ سکتے ہیں‘ نعمانی صاحبہ نے دل جلانے کے بجائے اس معاشرے کے ایسے لوگوں کی مدد کا بیڑا اٹھایا کہ آج حیرت ہوتی ہے کہ ایک اکیلی عورت کیا کچھ کرسکتی ہے۔ اگرچہ اب ان کی والنٹیئرز کی ٹیم بن چکی ہے۔ وہ اکثر اپنے واٹس ایپ گروپ میں مظلوموں اور غریبوں کی ایسی وڈیوز شیئر کرتی رہتی ہیں کہ دیکھ کر دل دہل جائے۔ کبھی حیرانی ہوتی ہے کہ ایک طرف لوگوں کے پاس اتنا پیسہ ہے اور دوسری طرف یہ حالت ہے۔ شاہدہ صاحبہ وہ خاتون ہیں جن پر آنکھیں بند کر کے بھروسا کیا جاسکتا ہے۔ میں نے ان کی شیئر کی گئی ایک وڈیو پر کمنٹ کیا تو جواب دیا کہ میں بھی روز اس کرب سے گزرتی ہوں۔شاہدہ نعمانی صاحبہ کا ماڈل بڑا مختلف ہے‘ وہ جہاں لوگوں کی مدد سے ضرورت مند خاندانوں کی ہر ماہ آپ سے کفالت کراتی ہیں وہیں وہ مستحق لوگوں کو دکان کھول دیں گی‘ ریڑھی‘ رکشہ لے دیں گی کہ وہ اپنا روزگار خود کمائیں۔ میرا خیال ہے ان کم وسائل کے ساتھ جتنے لوگوں کو انہوں نے اپنے پائوں پر کھڑا کیا ہے وہ شاید ہی کوئی ادارہ کرسکا ہو۔
لیکن جس ویڈیو نے مجھے دہلا کر رکھ دیا وہ ایک ماں کی تھی‘ جس کے دس بچے ہیں اور وہ ایک کمرے میں سوتے ہیں اور کمرہ اتناچھوٹا ہے کہ وہ اپنی پائوں یا ٹانگیں سیدھی کر کے نہیں سو پاتے۔ آپ وہ ویڈیو دیکھیں تو آپ سو نہ پائیں کہ انسان ان حالات میں بھی زندہ رہتے ہیں۔کچھ کہیں گے یہ غریب اتنے بچے پیدا ہی کیوں کرتے ہیں‘ لیکن یہ بات ان غریبوں کو کس نے سمجھانی تھی یا بتانی تھی؟ حکومتوں کا کام تھا یا بیوروکریسی کا لیکن سب نے اپنے بچوں کا سوچا‘ بیرون ملک پڑھانے اور انہیں وہیں سیٹل کرنے کا سوچا۔ جو پیسہ ان بچوں پر لگنا تھا یا ان کے والدین کی تربیت یا شعور پر وہ ایلیٹ کھا پی کر باہر نکل گئی۔ چلیں مان لیا کہ اتنے بچے پیدا نہیں کرنے تھے ‘ اب ہوگئے ہیں تو ان بچوں کا کیا قصور؟ انہیں یوں ہی چھوڑ دیا جائے ان کے حالات پر؟ان بچوں کا باپ ایک سال سے گھر نہیں آیا۔ وہ نشہ کرتا ہے… یہ ہے ان بچوں کا مقدرجو اَب چوکوں پر ماسک بیچتے ہیں۔ باپ کی سزا وہ بھگت رہے ہیں۔
آج لکھنا کچھ اور تھا کہ یہ ماں اپنے دس بچوں کے ساتھ سامنے آن کھڑی ہوئی تو اور کچھ نہ لکھا گیا۔ کبھی کبھار تو ان انسانوں کے یہ دردناک حالات دیکھ کر اپنی خوشحالی بھی کاٹنے کو دوڑتی ہے۔اگر یہ ڈپریشن کم تھا کہ ابھی ایک غیرملکی چینل پر ایک رپورٹ دیکھی تو دل دکھ سے بھر گیا۔ یہ رپورٹ یوکرین میں جنگ سے ہونے والی تباہیوں کے بارے میں تھی۔میں سن ہوکر بیٹھا دیکھتا اور سنتا رہا۔یوکرین میں جو تباہی ہوئی ہے اسے دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ انفراسٹرکچر کی تباہی اپنی جگہ ‘ لیکن جو انسانی جانوں کا نقصان ہوا ہے وہ کبھی پورا نہ ہوگا۔ یوکرین کی جنگ میں دو سو سے زائد بچے مارے گئے ہیں‘ 17 ہزار بچے اپنے والدین سے بچھڑ گئے ہیں۔ اب اندازہ کریں ان والدین پر کیا گزر رہی ہوگی جو اپنے بچوں سے بچھڑ گئے ہیں اور ان کا انہیں کوئی پتہ نہیں یا بچوں کو اپنے والدین کا علم نہیں کہ وہ زندہ ہیں کہ مارے گئے ہیں۔
یوکرین کے ایک قصبے کی فوٹیج دکھائی جارہی تھی کہ ایک گھر کے لان میں ایک بیالیس سالہ بندے کی لاش زمین کھود کر نکالی جارہی تھی۔ اس بارے بتایا جارہا تھا کہ وہ ایک ریٹائرڈ فوجی تھا جس کا خاندان جنگ کی وجہ سے چلا گیا تھا اور وہ پیچھے رہ گیا تھا۔ وہ ہر وقت گھر میں بند رہتا تھا۔ ایک دن بھوک کے ہاتھوں تنگ آکر باہر نکلا تو روسی فوجیوں نے اسے گولی ماردی۔ لاش گھسیٹ کر وہیں دبا دی۔ کسی روسی فوجی کیلئے وہ ایک کھیل ہوگا کہ ٹھک سے گولی مار دی‘ اس شغل شغل میں ہزاروں انسان مارے گئے ہیں۔ یوکرین کا کامیڈین صدر کہتا ہے کہ روز اس کے ساٹھ سے سو فوجی جنگ میں مارے جارہے ہیں۔
میں ان روسی اور یوکرینی مائوں کی بدقسمتی پر افسردہ بیٹھا رہا جن کے جوان بچے اس دنیا کے ان چند لوگوں کی جنونیت کا شکار ہو رہے ہیں جو اپنے اپنے ملک کی عظمت کے نام پر لڑ رہے ہیں۔ بائیڈن اور پوتن کے اپنے بچے اس جنگ میں شریک نہیں۔ عام روسی اور یوکرینی ان لیڈروں کے فیصلوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔راتوں رات ان لوگوں کی دنیا تباہ ہو گئی۔ یوکرین جو گندم پید کرنے والا بڑا ملک تھا وہاں گندم کی فصل پھر تیار کھڑی ہے۔ دنیا بھر سے سودے ہورہے تھے‘ پاکستان نے پچھلے سال چالیس لاکھ ٹن گندم یوکرین سے خریدی تھی تو اس سال بیس لاکھ ٹن کا سودا کرنا تھا کیونکہ ہمارے ہاں وہ زمینیں جہاں کبھی گندم اگتی تھی‘ وہاں ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن گئیں اور پچھلے سال دس ارب ڈالرز لگا کر گندم‘ چینی اور کاٹن باہر سے منگوائی گئی ۔ اس سال مزید زرعی رقبے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نیچے جارہے ہیں تو مزید گندم ڈالرز دے کر باہر سے منگوائی جارہی ہے۔
یوکرین کو بھی عظیم بننے کا خبط سوار تھا۔ اب وہاں خون اور بربادی کا منظر ہے۔ خبریں آرہی ہیں کہ پوتن کی صحت ٹھیک نہیں ‘ شاید دو تین سال بعد اس کی جگہ کوئی نیا حکمران بیٹھا ہو۔ بائیڈن بھی دو سال بعد دوبارہ صدر نہیں بنے گا۔ یوں جن دو بڑی پاورز کی اَنا اور عظمت کی خاطر جنگ لڑی جارہی ہے اور جو یوکرین کا کامیڈین صدر استعمال ہوا وہ دو سال بعد منظر پر نہیں ہوں گے لیکن ان کی اَنا کی قیمت ان سترہ ہزار یوکرینی بچوں نے دی ہے جو ماں باپ سے بچھڑ گئے ہیں یا وہ سوا دو سو بچے جو جنگ میں مارے گئے ہیں یا وہ سابقہ فوجی جو بھوک کے ہاتھوں تنگ آکر باہر کھانا ڈھونڈنے نکلا اور روسی فوجیوں نے اسے دور سے ہی گولی مار دی۔
وہ دنیا کے خوش قسمت لوگ جو پوری دنیا کو گندم سپلائی کررہے تھے آج اس دنیا کی دی ہوئی خوراک پر دوسرے ملکوں میں کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ دو تین ماہ میں ان کی زندگیاں تباہ ہوگئیں۔ وہ گھر جن کے لان میں بچے کھیلتے تھے وہاں اب لاشیں دفن ہیں۔ وہ کھیت جہاں گندم اگتی تھی وہاں روسی فوجی لینڈ مائنز بچھا گئے ہیں تاکہ جنگ ختم ہو اور وہ واپس آئیں تو ان بارودی سرنگوں میں مارے جائیں یا ہمیشہ کیلئے معذور ہو جائیں۔میں کبھی نہ سمجھ سکا کہ انسان کیسے ایک دوسرے سے اتنی نفرت کرسکتا ہے۔دوسروں کے بچوں کو بموں ‘ توپوں یا گولیوں سے مار کر رات کو کیسے اپنے گھر واپس جا کر اپنے بچوں کو پیار کرتے ہیں یا ان کے ساتھ سوتے ہیں یا اگلے روز انہیں سکول بھیجتے ہیں یا ان کے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں؟ یا وہ روسی فوجی کیسے رات کو سو پاتا ہوگا جس نے تنہا اداس گھر میں کئی دنوں کی خودساختہ قید اور بھوک سے گھبرا کر خوراک کی تلاش میں سرگرداں سابق یوکرینی فوجی کو دور سے گولی ماردی اور لاش گھسیٹ کر اسی گھر کے لان میں گاڑ دی۔