پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
سرکار کے خرچے پر مزے کرنے والی بلبلیں
پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات سے ہر بندہ ہی پریشان ہے خواہ وہ پاکستان میں ہے یا پاکستان سے باہر۔ پاکستان سے باہر ہونے یا خوشحال ہونے کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ تارکینِ وطن پاکستانیوں کو اپنے آبائی ملک کی سیاسی یا معاشی بدحالی پر فکر نہیں ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں کی کئی باتوں سے نہ صرف اختلاف ہے بلکہ میں ان سے کھل کر اپنے اس اختلاف کا اظہار بھی کرتا رہتا ہوں اور بعض اوقات معاملہ تھوڑا تلخی تک بھی پہنچ جاتا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ ملکِ پاکستان سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرتے ہیں۔ سیاسی نقطہ نظر‘ ان سے اختلاف ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ ان کا چیزوں کو دیکھنے اور پرکھنے کا زاویہ ہم سے مختلف ہو سکتا ہے اور یہ اختلاف کی خلیج تو ملک کے اندر بھی پوری شدت سے موجود ہے اس لئے ان کے سیاسی نقطہ نظر سے اختلاف قدرتی اور نارمل سی بات ہے۔
بات کا آغاز تو گزشتہ دنوں امریکی اور بھارتی صدر کے مابین ہونے والی ملاقات اور اس ملاقات کے نتیجے میں جاری ہونے والے بیان اور معاشی و دفاعی تعاون سے ہوتا ہوا پاکستانی وزارتِ خارجہ اور خاص طور پر ہمارے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے اَن گنت غیر ملکی دوروں کے نتائج پر آ گئی۔ وزیر خارجہ کے دوروں پر وہ دوست کہنے لگا کہ ان کے دورے اور ان دوروں کے نتائج سے مجھے جنگل میں بندر کی ڈاکٹری والا لطیفہ یاد آ گیا ہے۔ اس پریشانی والی صورتحال میں ہم سے اب اور تو کچھ ہو نہیں سکتا سوائے اس کے کہ لطیفوں سے دل بہلائیں اور اس ہیجانی کیفیت میں من کسی اور طرف لگا کر اپنے آپ کو فریب دیں۔
جنگل میں ایک اجلاس ہوا کہ حضرت انسان نے بیماریوں اور حادثاتی زخموں وغیرہ کے علاج کے نت نئے طریقے ایجاد کر کے اپنی برادری کو کافی سہولت پہنچائی ہے مگر ہم جنگل کے رہنے والے جانور ان سہولتوں سے محروم ہیں کیوں نہ ایسا کیا جائے کہ کسی سمجھدار جانور کو شہر میں بھیج کر اسے میڈیکل کی تعلیم دلوائی جائے تاکہ وہ واپس آ کر ہمارا علاج معالجہ کر سکے اور ہمیں بھی کچھ سہولت میسر آئے۔ لومڑی کی تجویز پر بندر کو اس کام کیلئے منتخب کیا گیا۔ اس کی وجوہات یہ بیان کی گئیں کہ بندر اپنی جسمانی ساخت کے باعث انسان سے قریب ترین ہے اور ہاتھوں کی بناوٹ کی بنا پر آپریشن وغیرہ کرنے کیلئے مناسب ترین جانور ہے اور اپنی ذہانت کے باعث میڈیکل کی تعلیم جلد مکمل کر لے گا اور آخری بات یہ کہ بندر شہر میں بہت جلد خود کو انسانوں کے مطابق ڈھال لے گا۔ خیر بندر کو شہر بھیج دیا گیا۔ بندر نے جنگل باسیوں سے داخلہ فیس‘ ٹیوشن فیس‘ ہوسٹل فیس‘ کھانے پینے کے اخراجات اور دیگر ضروریاتِ زندگی کیلئے اچھی خاصی رقم اینٹھ لی اور شہر کی راہ لی۔ ا ب بھلا بندر کو کسی میڈیکل کالج میں کہاں داخلہ ملنا تھا؟ میں نے درمیان میں دخل اندازی کرتے ہوئے پوچھا: اس بندر کو کسی پرائیویٹ میڈیکل کالج کا خیال کیوں نہیں آیا؟ وہ ڈونیشن دے کر وہاں تو داخلہ لے سکتا تھا۔ میرا دوست بیزار ہو کر کہنے لگا: یہ پاکستان کا واقعہ نہیں ہے۔ پاکستان کے جنگلوں میں بھلا شیر چیتے وغیرہ بچے ہی کہاں ہیں؟
خیر سے بندر نے دو تین سال مزے کیے۔ ہر ماہ جنگل سے اس کے ہوسٹل‘ کھانے پینے ا ور دیگر ضروریات کے پیسے آ جاتے تھے اور وہ مزے کرتا تھا۔ دو تین سال بعد بندر جنگل میں واپس آ گیا۔ ابھی اسے واپس آئے دو تین دن ہی ہوئے تھے کہ کسی ناہنجار شکاری نے ملکہ معظمہ شیرنی صاحبہ کو گولی ماردی۔ شیرنی شدید زخمی حالت میں واپس اپنی کچھار میں پہنچی تو بادشاہ سلامت ببر شیر صاحب نے فوری طورپر ڈاکٹر بندر کو بغرضِ علاج طلب کیا۔ بندر آیا اس نے بغور شیرنی کے زخم کا جائزہ لیا۔ سر کو دو تین بار مفکرانہ اور دانشمندانہ انداز میں دائیں بائیں اوپر نیچے ہلایا پھر چھلانگ لگا کر قریبی درخت پر چڑھ گیا۔ وہاں سے چھلانگ لگا کر دوسرے درخت کی ڈال پکڑی۔ اس کے ساتھ دو تین جھولے لئے پھر اسے چھوڑ کر دوسری شاخ پکڑی۔ وہاں سے اچھل کر تیسرے درخت پر ڈیرہ لگایا۔ چار چھ جمپ لگا کر اس درخت کی پھننگ تک پہنچا۔ وہاں سے ایک حیرت ناک حد تک لمبی چھلانگ لگا کر چوتھے درخت پر پہنچ گیا۔ اسی اچھل کود میں شیرنی نے آخری سانس لیا اور دم دے دیا۔ یہ دیکھ کر بندر نیچے اترا اور سب کو مخاطب کر کے کہنے لگا: میں نے بھاگ دوڑ تو بہت کی مگر قدرت کے آگے کسی کا زور نہیں چلتا۔ موت برحق ہے اور ایک روز سب ذی روحوں نے اس کا ذائقہ چکھنا ہے؛ تاہم میری تگ و دو آپ سب کے سامنے ہے۔
میں نے اپنے دوست سے کہا کہ اللہ کے بندے اپنے بلاول بھٹو زرداری اور ا ن کے ساتھ ساتھ حنا ربانی کھر کو اگر امریکی پالیسی میں کسی تبدیلی یا بہتری کی فکر ہوتی تو وہ پچاس میں سے ساڑھے چوالیس دورے از قسم ممالک عراق‘ اُردن‘ جاپان‘ کمبوڈیا‘ سنگاپور‘ مصر‘ ترکیہ‘ ایران‘ سوئٹزر لینڈ اور انڈونیشیا وغیرہ کر کے ہلکان نہ ہوتے۔ میرا وہ دوست کہنے لگا کہ اس نے کہیں پڑھا تھا کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایسے تمام دوروں کا خرچہ خود کیا ہے۔ بلکہ اس سلسلے میں فارن آفس کی ترجمان ممتاز زہرا نے بتایا تھا کہ بلاول بھٹوزرداری نے اپنے سرکاری دوروں کے اخراجات بھی پلے سے کیے ہیں۔ میں ہنسا اور اس سے کہا کہ یہ تو صرف وزیر خارجہ ہیں‘ ہمارے عظیم رہنما اور ضمانت پر ملک سے کھسک جانے والے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف جب وزیراعظم تھے اور بغرض علاج لندن گئے تھے تو وہاں ہونے والے تمام اخراجات کے با رے میں بھی اسی قسم کا بیان آیا تھا۔ بلکہ جہاں تک مجھے یاد ہے یہ بیان اسمبلی میں دیا گیا تھا کہ میاں صاحب کے دورۂ لندن اور علاج کا سارا خرچہ انہوں نے خود برداشت کیا ہے۔ مجھے تو خیر سے اسی وقت اندازا ہو گیا کہ معاملہ گڑبڑ ہے کیونکہ جب بھی کسی چیز کے ”برداشت‘‘ کرنے کا ذکر ہو تو یہ کام پاکستانی حکمران نہیں‘ بلکہ عوام کرتے ہیں۔ یعنی موج میلہ ہو تو حکمران انجوائے کرتے ہیں اور جب خرچہ برداشت کرنے کا ذکر ہو تو یہ عوام کے ٹیکسوں سے کیا جاتا ہے۔
بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے اس علاج پر سرکار کے 327927ڈالر خرچ ہوئے تھے جو سارے کے سارے سرکار نے عوام سے وصول کردہ ٹیکسوں سے ادا کیے تھے۔ ان اخراجات کی تفصیل بڑی ہوشربا ہے۔ دورے میں ان کے ساتھ جانے والے وفد نے اس دوران ڈیلی الاؤنس کی مد میں 29777 ڈالر وصول کئے۔ خصوصی ہوائی جہاز کا خرچہ 56657ڈالر تھا۔ لندن میں گاڑیاں کرائے پر لی گئیں ان کا خرچہ 28981 ڈالر تھا۔ 5840ڈالر موبائل فونز کا خرچہ تھا۔ کھانے کا خرچہ 28462ڈالر تھا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ دل کے عارضے میں مبتلا وزیراعظم بیماری کے دوران پاکستانی روپوں میں چونتیس لاکھ روپے سے زیادہ کا کھانا ڈکار گئے جبکہ ان کے دو بیٹے جو بچپن سے ہی ارب پتی تھے ‘لندن میں موجود تھے اور باپ کو دورانِ بیماری پرہیزی کھانا دینے سے قاصر تھے۔ 173562ڈالر ہوٹل کے کرائے کی مد میں ادا کیے گئے حالانکہ لندن میں ان کے بچوں کے وہ شہرہ آفاق فلیٹس بھی تھے جن کا ”الحمد للہ‘‘ وہ اقرار کر چکے ہیں۔ حتیٰ کہ پڑھنے لکھنے سے دور بھاگنے والے میاں نواز شریف نے اس دوران 165 ڈالر کے اخبارات پڑھ مارے۔ پھر آپ پوچھتے ہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف سے قرضے کیوں مانگتا ہے؟