بے چارہ تلور اکیلا کیا کرتا ؟

دبئی میں جاننے والے تو درجنوں ہوں گے مگر دوست صرف دو ہیں‘ عامر رزاق اور سہیل خاور۔ ایک دوست تعمیرات کے شعبے سے وابستہ تو دوسرا ریسٹورنٹ کے کاروبار سے منسلک ہے۔ دونوں ایک عرصے سے ادھر دبئی میں ہیں اور اس شہر کی ترقی کے اُن مراحل کے عینی شاہد ہیں جن کا میں نے گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا۔ اس بار ابوظہبی میں میرے بہت ہی عزیز اور پرانے دوست صباحت عاصم واسطی نے مشاعرے سمیت ایک روزہ ادبی فیسٹیول کا اہتمام کیا تھا جس میں شرکت کے لیے بھارت سے فہمی بدایونی اور برطانیہ سے ہمدم دیرینہ باصر کاظمی کے علاوہ پاکستان اور بھارت سے دیگر شعرا بھی آئے تھے۔ صباحت واسطی بہت ہی اعلیٰ اور استاد شاعر جناب شوکت واسطی مرحوم کے جبکہ باصر کاظمی اردو غزل کی آبرو‘ ناصر کاظمی کے فرزند ہیں۔ ایک دن ابوظہبی میں گزار کر میں اگلے ہی روز دبئی آ گیا جہاں عامر رزاق اور سہیل خاور میرے منتظر تھے۔
سہیل خاور ایسا وضع دار ہے کہ ہر بار دوستوں کو اکٹھا کرکے ایک ایسی نایاب نشست کا بندوبست کرتا ہے کہ جس میں دبئی میں مقیم ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں سے ہر موضوع پر گفتگو ہوتی ہے اور سیاست سے قطع نظر زمینی حقائق سے آگاہی ہوتی ہے۔ جبکہ عامر رزاق ایسا بامروت ہے کہ صبح سے شام تک بلکہ رات گئے تک اپنی ساری مصروفیات ایسے ترک کرتا ہے کہ رات گئے اسے زبردستی گھر بھیجنا پڑتا ہے۔ میں دو دن کے لیے دبئی ٹھہرا لیکن یہ دو دن صرف ان دوستوں کی محبت کے طفیل پلک جھپکنے میں گزر گئے‘ تاہم اس دوران دل میں مسلسل یہ چبھن رہی کہ اس بھاگ دوڑ اور نفسا نفسی والے شہر میں یہ عجیب آدمی اپنی تمام تر کاروباری مصروفیات کو تیاگ کر مسلسل میری دلجوئی میں لگا ہوا ہے۔ عامر کو میری کمزوری کا علم ہے اس لیے ہر آدھ گھنٹے بعد پوچھے گا کہ ٹم ہارٹن چلیں؟ میں کہتا ہوں بندہ ٔ خدا! میں دن میں ایک دو بار کافی پی لیتا ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم ہر آدھ گھنٹے بعد کافی پلانے پر تل جاؤ۔
قارئین! میرا مطلب حاشا و کلا مایوسی پھیلانا نہیں مگر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینا بھی کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ دبئی اس تمام تر مراجعت کی کہانی پر مبنی تصویر کا منظر نامہ پیش کر رہا ہے جس سے ہم پاکستانی دوچار ہیں۔ انحطاط اور گراوٹ کی ایسی داستان جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ایک دوست کہنے لگا کہ پہلے ہم بھارتیوں سے بحیثیت قوم اپنا مقابلہ بھی کرتے تھے اور موازنہ بھی۔ لیکن اب یہ عالم ہے کہ ہمارا بھارت سے سارا مقابلہ اور موازنہ صرف ایک معاملے میں رہ گیا ہے کہ ادھر دبئی میں پاکستانیوں نے زیادہ جائیداد خریدی یا بھاتی سرمایہ داروں نے۔ باقی کسی معاملے میں اب نہ تو مقابلہ ہے اور نہ کسی مقابلے کا کوئی امکان ہی دکھائی دیتا ہے۔ چند سال قبل تک یہ عالم تھا کہ ہمیں اُمید ہی نہیں‘ یقین تھا کہ ہم اور کچھ نہیں تو کم از کم موجودہ توازن کو ہی برقرار رکھ پائیں گے۔ گو کہ وہ توازن بھی بالکل بگڑا ہوا تھا مگر ایسا بھی یکطرفہ نہیں تھا جتنا ان چند برسوں کے دوران ہو گیا ہے۔ دو عشرے پہلے ایک بھارتی روپیہ ستر پچھتر پاکستانی پیسوں کے برابر ہوتا تھا‘ اب بھاری روپیہ پونے چار پاکستانی روپوں کے برابر ہے۔ ایک تو بھارتی روپے کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی بے قدری نے ہمیں باقاعدہ ذلیل کرکے رکھ دیا ہے‘ اوپر سے جب ہمارے حکمران ادھر کے حکمرانوں سے پیسے مانگنے آتے ہیں تو بھارتی پوچھتے ہیں کہ آخر آپ لوگ کب تک مانگ تانگ کر کام چلاؤ گے؟جس دن سے بھارت نے چندریان تین چاند پر پہنچایا ہے تو ان کی تمسخرانہ نگاہوں اور جملوں نے ہمیں مزید زمین میں گاڑ دیا ہے۔ ایک دوست بتانے لگا کہ اس کے ایک بھارتی ہمسائے نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ تو چاند سے بھی کہیں آگے جنت میں جانے کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں‘ شاید اسی لیے چاند کو اپنے قابل نہیں سمجھ رہے۔
گزشتہ سال میں نے امریکہ سے پاکستان واپسی کی اپنی ٹکٹ کی تاریخ تبدیل کروانی تھی۔ پرانی ٹکٹ پر دیا گیا ہیلپ لائن نمبر ملایا جو امریکہ کا تھا۔ دوسری طرف سے فون اٹھانے والے نے جب بات شروع کی تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کوئی بھارتی ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا وہ انڈین ہے؟ اس نے جواب دیا کہ وہ قطر ایئر ویز کے احمد آباد والے کال سنٹر سے بول رہا ہے۔ بعد ازاں مجھے جو تبدیل شدہ ٹکٹ وصول ہوئی وہ بھی احمد آباد سے جاری شدہ تھی۔ یہ صرف ایک ایئر لائن کی کہانی ہے۔ تقریباً تمام امریکی فضائی کمپنیوں کے کال سنٹر بھارت میں ہیں اور ہمارے آئی ٹی کے ماہرین داتا دربار میں آن لائن دیگ خیرات کرنے کی ایپ بنا کر خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں اور حکومت اسے اپنے انقلابی قسم کے سنہرے کارناموں میں شمار کر رہی ہے۔
جس دن میں دبئی آیا تھا اس روز درہم کی شرحِ تبادلہ بیاسی روپے سے کم تھی اور جب چار دن بعد متحدہ عرب امارات سے روانہ ہوا تو یہ شرحِ تبادلہ ستاسی روپے تھی۔ یعنی ہر روز ایک روپے فی درہم سے زیادہ تنزلی ہوئی۔ اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ مخلوقِ خدا پاکستانی روپے کی بے قدری بلکہ رسوائی پر اپنے دل کو اس حد تک تسلی دے چکی ہے کہ ڈالر تین سو روپے سے اوپر چلا گیا ہے لیکن نہ سرکار کو فکر ہے اور نہ ہی عوام کو کوئی پروا ہے۔ عالم یہ ہے کہ زرِمبادلہ نہ ہونے کے باعث ملک میں ڈائریا کی بنیادی دوا ایک ماہ سے ناپید ہے۔ ہمارے معاشی جادوگر اسحاق ڈار بڑے دعوے سے آئے تھے کہ وہ ڈالر کو دو سو روپے سے کم پر لے آئیں گے۔ پھر یہ بہانے بازی شروع کردی کہ عمران خان جاتے وقت آئی ایم ایف کا معاہدہ خراب کر گیا تھا جونہی ہم آئی ایم ایف سے معاہدہ کر لیں گے‘ ڈالر دھڑام سے نیچے آن گرے گا۔ پھر آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی ہو گیا۔ آئی ایم ایف کے معاہدے سے یاد آیا کہ اس بات کا بہت شہرہ تھا کہ آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں اسحاق ڈار یدطولیٰ رکھتے ہیں اور ان کا اس سلسلے میں کوئی ثانی ہی نہیں۔ تاہم یہ معاہدہ اتنی ذلت آمیز شرائط پر ہوا کہ کوئی باعزت وزیر خزانہ ہوتا تو مستعفی ہو کر گھر چلا جاتا مگر موصوف آئی ایم ایف سے معاہدہ یا ڈالر کا ریٹ کنٹرول کرنے نہیں آئے تھے بلکہ وہ فرنٹ مینوں کے ذریعے کی جائے والی اپنی سرمایہ کاری کا منافع وصول کرنے اور اپنی ضبط شدہ جائیداد ڈی سیل کروانے آئے تھے۔ یہ دونوں کام انہوں نے بخیر و خوبی کر لیے۔ رہ گئی قوم! تو وہ گئی بھاڑ میں۔
ایک دوست کہنے لگا کہ ادھر خلیجی ریاستوں میں کام کرکے گھر رقم بھیجنے والوں پر شاید بہت زیادہ دباؤ نہیں کہ ان کے گھر والوں کو پہلے ایک ہزار درہم کے چالیس ہزار روپے ملتے تھے تو اب اتنے ہی درہم کے عوض انہیں اٹھاسی ہزار روپے مل جاتے ہیں لیکن یہ تسلی بالکل ذاتی نوعیت کی ہے۔ قومی اعتبار سے دیکھیں تو یہ نہایت شرمناک صورتحال ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی امارات آیا تو اس کا استقبال امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان نے خود کیا اور اسے مملکت کے پہلے درجے کے مہمان خانے امارات پیلس میں ٹھہرایا۔ دوسری طرف اب جب ہمارے حکمران آتے ہیں تو ان کا استقبال دوسرے درجے کے سرکاری افراد کرتے ہیں اور انہیں دوسرے درجے کے مہمان خانے میں ٹھہرایا جاتا ہے۔ بھارت امارات کا بہت بڑا بزنس پارٹنر ہے جبکہ ہم عشروں سے محض تلور کے شکار کے زور پر تعلقات نبھانے میں مصروف تھے۔ میں مانتا ہوں کہ تلور نے محض ایک پرندہ ہوتے ہوئے ہمارا بہت بوجھ بانٹا مگر بھلا اکیلا تلور کتنا دم مار سکتا تھا؟ ہر سال اربوں کا خسارہ پورا کرنا بہرحال اکیلے تلور کے بس کی بات نہیں ہے۔