ووٹ ڈالنے کے لئے تیار ہوکر نکلیں !

میں شاید، شام گھر کی چھت پر الیکشن کا چاند دیکھنے چڑھ گیا تھا مگر کچھ نظر نہ آیا سوائے چند چہروں کےجو چار پائیوں پر بستر بچھا کر ر ات کو چلنے والی ٹھنڈی ہوا میں سونے کی تیاری کر رہے تھے ،کچھ چہرے اس کے علاوہ بھی تھے جن کے ذکر سے پہلے شاعر حضرات بہت سےکلمات لگاتے ہیں ماہ لقا، ماہ جبیں، چاند صورت مگر یہ ’’چاند تارے‘‘ اتنے احمق نہیں ہیںکہ چند خوشامدی جملوں سے ان کے جال میں آ جائیں ،بہرحال جب الیکشن کا چاند نظر نہ آیا تو میں نیچے لائونج میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ گیا کہ ابھی رویت ہلال کا اجلاس شروع ہو گا اور مفتی صاحب چاند نظر آنے یا نہ آنے کے بارے میں بتائیں گے آپ ذرا غور کریں انسانی ذہن کس قدر پیچیدہ اور دھوکا دینے والا ہے کہ اس نے میرے دل میں یہ بات بٹھا دی کہ الیکشن بھی چاند نظر آنے کی صورت ہی میں منعقد ہو سکتے ہیں لاحول ولا قوۃ۔

اس دھوکے سے نکلنے کے بعد میں نے آج کے الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی تیاریاں شروع کر دیں اس مرتبہ کسی جماعت کے کارکن نے ہمارے گھر آکر پرچیاں تقسیم نہیں کی تھیں جن میں ووٹ نمبر درج ہوتا ہے اور جس میں ’’جائے واردات‘‘ بھی بتائی گئی ہوتی ہے چنانچہ اپنے طور پر معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ہمارا ووٹ کسی ٹائون میں ہے اور کوئی پتہ نہیں کہ یہاں نام اللہ دتہ، خدا بخش یا اللہ وسایا لکھایا گیا ہو ۔خیر اس کے بعد میں نے پہلا کام یہ کیا کہ وزیر آباد عمر صاحب کو فون کیا کہ اخبارات کے مطابق کل کے الیکشنز بہت خونخوار قسم کے بھی ہو سکتے ہیں چنانچہ میرے دفاع کے لئے وزیر آباد کی چند بہترین چھریاں ابھی کسی کے ہاتھ روانہ کریں پھر مجھے خیال آیا کہ ایک بلٹ پروف جیکٹ بھی ہونی چاہئے یہ خیال آتے ہی میں نے صلاح الدین خلجی کو کوئٹہ فون کیا کہ کسی اولین فلائٹ سے میرے لئے ایک بلٹ پروف جیکٹ ارسال کریں جس پربم بھی اثر نہ کر سکتا ہو ساتھ ہی میں نے اپنے اس پٹھان دوست کو وضاحت کر دی کہ بلٹ پروف جیکٹ اچھی طرح چیک کرکے بھیجنا یہ کہیں خودکش جیکٹ نہ ہو ۔

اس کے ساتھ ہی مجھے ایک خیال اور بھی ذہن میں آیا کہ امریکہ میں ہیلو وِن کا ’’تہوار‘‘ بھی منایا جاتا ہے جس میں بچے خوفناک چہروں والا ماسک پہن کر گھروں سے نکلتے ہیں اور لوگوں کو ڈراتے ہیں، میں نے ایک دوست سے پوچھا کہ یار یہ ماسک کہاں سے مل سکتا ہے جس سے چہرا بہت خوفناک لگتا ہے اس نے پوچھا کیا کرنا ہے میں نے بتایا کہ کل الیکشن ہے اور خبروں سے پتہ چلتا ہےامن وامان کی صورتحال کچھ بہتر نہیں ہو گی سو میں چاہتا ہوں کہ میں ووٹ ڈالنے نکلوں تو وہ ماسک چہرے پر ہو تاکہ کوئی تخریب کار میری طرف آنے کی کوشش نہ کرے ،یہ سن کر دوست نے کہا تم واقعی ماسک کےبغیر ووٹ ڈالنے نہ جانا کیونکہ موجودہ شکل وصورت میں تم زیادہ محفوظ ہو ماسک پہن کر کہیں اچھے نہ لگنے لگو ۔گندہ آدمی ،بیہودہ شخص یاوا گو! میں نے اس منحوس سےکوئی دوسری بات ہی نہیں کی!اس دوران میرا ایک دوست ملنے آیا جو ایک ٹی وی چینل پر روڈ شو کرتا ہے اس نے کہا کل وہاں میرے جیسے کئی لوگ کیمرے لیکر پھر رہے ہوں گے جو پوچھیں گے کہ آپ کس کو ووٹ ڈال رہے ہیں، آپ کو کیا لگتا ہے کون سی جماعت جیتے گی ان لوگوں کو کوئی معروف شخص نظر آ جائے تو اس کاپیچھا تو بالکل نہیں چھوڑتے تم چونکہ کافی مشہور ہو شہر کے اکثر تھانوں میں بھی تمہاری تصویر لگی ہوئی ہے تمہاری کئی ایف آئی آر کٹی ہوئی ہیں چنانچہ تم کیمرہ مینوں اور رپورٹروں میں گھرے ہوئے ہو گے، لہٰذا ابھی سوچ لو کہ تم نے وہاں کیا کہنا ہے پہلے تو میں نے اس خبیث شخص کو دو چار نا مناسب سے الفاظ کہے اور پھر کہا ’’تم مجھے بیوقوف سمجھتے ہو میں ایک بہت محفوظ بیان دوں گا جو منافق لوگ اس موقع پردیا کرتے ہیں یعنی ’’یہی کہ جناب میں کسی سیاسی پارٹی کا کارندہ نہیں ہوں ،یہ سب چور ہیں میں تو رونق میلہ دیکھنے آیا ہوں ‘‘ اس کے بعد یہ ذہن میں رکھنا کہ ان رپورٹروں میں سے کوئی ایک تمہارا پیچھا کر رہا ہو گا اور کسی ’’چور‘‘ کے پولنگ اسٹیشن سے تمہیں پرچی بنواتے ہوئے تمہاری ویڈیو بنائے گا اور اگلے دن کسی یو ٹیو ب چینل پر تم یہ کلپ اس کیپشن کے ساتھ دیکھوگے کہ ’’ایک ڈاکو ایک چور کو ووٹ ڈال رہا ہے ‘‘ ان سب ’’مکروہات‘‘ سے فارغ ہو کر میں صاحب کشف و کرامت دوست عبدالشکور کی طرف گیا جن کا ایک کشف چند روز قبل ان کیلئے باعث ندامت ثابت ہوا تھا میں نے پوچھا ’’یا حضرت کل الیکشن ہو رہے ہیں آپ کو اس سلسلے میں کوئی کشف ہوا ہے کہ کون سی جماعت جیتے گی ‘‘ یہ سن کر عبدالشکور صاحب مراقبے میں چلے گئے کچھ دیر بعد سر اوپر اٹھایا آنکھیں کھولیں اور فرمایا مجھے اشارہ ملا ہے کہ وہ جماعت جیتے گی جس کے ووٹ زیادہ ہوں گے ؟سو میں نے سب ادب وآداب پرے رکھتے ہوئے کہا تمہیں یہ کشف ہوا ہے اٹھ تیر ی….