معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
اسلام آباد سے نکلنا آسان نہیں!
میں ان دنوں بہت سونے لگا تھا اور خواب بھی بہت دیکھتا تھا، ایک روز میں نے ایک بہت عجیب خواب دیکھا، میں نے دیکھا کہ میں مدینے کے سفر پر روانہ ہوا ہوں ۔سفر بہت لمبا اور صبر آزما تھا میں سارا دن چلتا رہتا اور رات کو کسی سرائے میں قیام کرتا جہاں ساری رات قرآن مجید کی تلاوت کرتا ،نمازیں ادا کرتا، نوافل پڑھتا اور صبح پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جاتا ۔مجھے علم نہیں کہ وہ کون سا ملک اور کون سا شہر تھا جہاں میں ایک بڑے پیڑ تلے بیٹھا گیان دھیان میں مشغول تھا کہ میری نظر سامنے کی طرف اٹھی تو میں نے دیکھا کہ بستی کے کچھ لوگ جن میں خستہ حال عورتیں مرد اور بچے بھی شامل تھے میرے سامنے مودب بیٹھے تھے ،جب انہوں نے مجھے اپنی جانب متوجہ پایا تو ان میں سے ایک مرد نے آگے بڑھ کر میرے قدموں کو بوسہ دیا اور فریاد کی کہ اس کی فصلیں پانی نہ ملنے کی وجہ سے جل گئی ہیں اور اب اس کے بچے گھروں میں بھوکے بیٹھے ہیں پھر ایک عورت نے آگے بڑھ کر میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور کہا کہ وہ بے اولاد ہے اور اس کے شوہر نے اسے گھر سے نکال دیا ہے، وہ میرے حلیے اور میرے گیان دھیان سے مجھے کوئی ولی اللہ سمجھ بیٹھے تھے۔میں نے ان کے اصرار پر دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور اپنے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے با آواز بلند آمین بھی کہا مگر جو سفر تمام تر صعوبتوں کے باوجود میری روحانی آسودگی کی بدولت بہت آسان محسوس ہو رہا تھاوہ مجھے بہت مشکل معلوم ہونے لگا ،اس بستی کے لوگ میرے لئے نذرنیاز بھی اپنے ساتھ لائے تھے جو میں نے اپنے فقیری چولے کی جیبوں میں رکھ لی تھی ۔
اب مجھ میں ایک عجیب تبدیلی واقع ہو گئی تھی میں راہ چلتے ہوئے ہر کسی کی جانب اس توقع سے دیکھتا کہ وہ میری طرف عقیدت سے دیکھ رہا ہو گا مگر ان میں سے غالباً کسی کو بھی میرے چہرے سے نور کی شعائیں نکلتی نظر نہیں آ رہی تھیں ۔اس کے باوجود میرے ذوق و شوق میں ابھی تک کوئی کمی واقع نہیں ہوئی تھی میں اسی طرح دن کے اوقات میں جہاں نماز کا وقت ہوتا وہاں خدا کے حضور سجدہ ریز تو ہو جاتا ،اس کے علاوہ میری زبان پر ہر وقت درود شریف بھی ہوتا میں قیام کے دوران پہلے ہی کی طرح ساری ساری رات نوافل بھی ادا کرتا ۔ قرآن پاک کی تلاوت بھی کرتا اور دن کو مدینے کی طرف اپنا سفر جاری رکھتا ۔ مگر اب عبادات میں حضوری کی کیفیت نہیں رہی تھی خیر اگلے روز میں نے لوگوں کا ایک ہجوم اپنی جانب بڑھتے دیکھا ان میں امیر شہر بھی تھا اور اس کے جلو س میں پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس عوام کا ایک پورا جلوس، امیر شہر نے آگے بڑھ کر میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور کہا میرے اہلکاروں نے اطلاع دی ہے کہ آپ ایک پہنچے ہوئے بزرگ ہیں چنانچہ یہ سب لوگ آپ کی قدم بوسی کیلئے حاضر ہوئے ہیں بعدازاں امیر شہر نے دست بستہ التجا کی کہ میں ان کے ساتھ ان کے غریب خانہ پر قدم رنجہ فرمائوں۔
یہ غریب خانہ کیا تھا ایک طلسمات کی دنیا تھی کھانے کا وقت ہوا تو دنیا جہان کی نعمتیں دسترخوان پر موجود تھیں سونے کیلئے بستر نرم و گداز تھا اور کمرے کےپردے حریر و ریشم سے بنے تھے۔ چنانچہ جب سویا تو آنکھ اس وقت کھلی جب سورج کب کا نکل چکاتھا، میں اس رات عبادت بھی نہ کرسکا اور فجر کی نماز بھی قضا ہو گئی، امیر شہر نے مجھ سے درخواست کی کہ میں کچھ دن مزید اسے میزبانی کا اعزاز بخشوں۔ میں نے اس کی درخواست قبول کرتے ہوئے مزید کچھ روز اس کے پاس قیام کیا۔ بعدازاں مجھے مکمل احترام اور عقیدت سے رخصت کرتے ہوئے اس نے مجھے قیمتی ہیرے جواہرات بطور نذرانہ پیش کئے جو میں نے اپنے فقیری جھولے میں بھر لئے۔ میرا رخ تو اب بھی مدینے ہی کی طرف تھا لیکن میرے اندر ایک تبدیلی واقع ہو چکی تھی میں نے امیر شہر کے محل سے نکلتے ہی پارچات کی ایک دکان کا رخ کیا اور بہت اعلیٰ درجے کے ملبوسات خریدے جن میں سے ایک میں نے وہیں پہن لیا اب راستے میں میرا قیام کسی بہت مہنگی سرائے میں ہوتا تھا میں بہت لذیذ کھانے کھاتا تھا، دنیاوی خواہشات میرے اندر اس طرح سرایت کر چکی تھیں کہ میں ہر آنے جانے والے کو اس امید سے دیکھتا کہ شاید یہ میرے ہاتھ چومنے کیلئے آ رہا ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا تھا، البتہ یہ تبدیلی ضرورآئی تھی کہ لوگ میرا زرق برق لباس اور میری امارات کے دوسرے مظاہر دیکھ کر مجھ سے مرعوب ہوتے تھے مگر عزت اور عقیدت میں بہت فرق ہے چنانچہ میں نے ایک شخص کو ملازم رکھا جس کا کام صرف یہ تھا کہ وہ لوگوں کو بتاتا تھا کہ یہ بہت نیک آدمی ہے اورمدینے کے سفر پر روانہ ہے ۔اس سفر میں مجھے کئی دن گزر چکے تھے اور مجھے مدینہ نظر نہیں آرہا تھا ۔ایک دن مجھے محسوس ہوا کہ میں مدینے کے مضافات میں پہنچ گیا ہوں چنانچہ میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی میں نے برابر سے گزرتے ہوئے ایک گھڑ سوار سے پوچھا برادر!یہ جو شہر سامنے نظر آ رہا ہے یہ مدینہ ہے اس نے میری طرف رحم آمیز نظروں سے دیکھا اور کہا ’’تو غالباً رستہ بھول چکا ہے یہ شہر مدینہ نہیں، تو کہاں سے آیا ہے ‘‘میں نے اسے بتایا کہ اسلا م آباد سے آیا ہوں اس پر اس نے قہقہہ لگایا اور کہا تو اب بھی اسلام آباد ہی میں ہے!