معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
حکومت اور پی ٹی آئی، جھگڑا کس بات کا؟
بلاشبہ عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں اپوزیشن(موجودہ حکومت) کے رہنمائوں کے ساتھ نہ صرف بدترین انتقامی رویہ اپنائے رکھا بلکہ ان کی تضحیک اور توہین بھی کرتے رہے ۔یہاں تک کہ ایک دن جنرل قمرجاوید باجوہ سے فرمائش کی کہ وہ ساری اپوزیشن کو ان کے لئے جیل میں بند کردیں اور جب انہوں نے معذرت کی تو ناراض ہوئے۔
عمران خان کی حکومت کو لانے اور چلانے کے لئے عدلیہ، میڈیا، احتساب اور الیکشن کمیشن کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا بلکہ انسانیت کی جو تذلیل ہوتی رہی، اسے کوئی اور بھلانا چاہے تو بھلا سکتا ہے لیکن میں کبھی نہیں بھلا سکتا۔ کیونکہ میڈیا پرسنز میں جو غریب صحافی سب سے زیادہ عمران خان کے ذہن پر سوار تھا اور سوار ہے، وہ یہ عاجز ہی ہے۔
جتنی گالیاں مجھے، میرے خاندان اور میری ماں کو دی گئیں، اتنی شاید نواز شریف اور مریم نواز کو بھی نہیں دی گئیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس پولرائزڈ معاشرے کو جوڑنا ہے یا پھر مزید تقسیم پیدا کرنا ہے؟ اگر تو ملک اور قوم کی فکر کرنی ہے تو پھر کم ازکم حکمران جماعتوں اور مقتدر قوتوں کو انتقام کی نفسیات سے اپنے آپ کو نکالنا ہوگا۔
اس میں دو رائے نہیں کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے اور بلاشبہ دھونس یادھمکی کے ذریعے کسی کو ریاست یا حکومت سے بات منوانے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے لیکن ضد کے جواب میں ضد، گالی کے جواب میں گالی اور انتقام کے جواب میں انتقام بڑے دل والے حقیقی لیڈروں کا شیوہ نہیں۔
میرا عمران خان کے ساتھ امتیازی سلوک تب تک تھا جب تک وہ طاقتور تھے، مقتدر قوتیں انکی پشت پر تھیں اور لوگوں نے دوسرے لیڈروں کی طرح ان کا حقیقی چہرہ نہیں دیکھا تھا۔ میں ناصحین دوستوں سے کہا کرتا تھا کہ صحافی کا کام کسی لیڈر یا گروہ کی حقیقت کوسامنے لانا ہے۔ اس کے بعد عوام کی مرضی ہے کہ اس کو چاہتے ہیں یا مخالفت کرتے ہیں۔
میری دانست میں دوسرے لیڈر جیسے تھے، ویسے نظرآرہے تھے لیکن عمران خان جیسے تھے، اس سے الٹ اپنے آپ کو پیش کررہے تھے۔جس دن ان کی حقیقت بھی دیگر سیاسی لیڈروں کی طرح سامنے آجائے گی میرا کام ختم ہوجائے گا۔ دوسری وجہ اس امتیازی سلوک کی یہ تھی کہ میں انہیں کسی اور کا مہرہ سمجھ رہا تھا۔
اب پارٹی فنڈنگ کیس، توشہ خانہ کیس اور سائفر سے متعلق آڈیو لیکس کے بعد ان کے چہرے سے بڑی حد تک نقاب اسی طرح اتر گیا ہے جس طرح کہ دیگر سیاستدانوں کے چہروں سے اترا تھا۔ اس لئے اب میرا بھی ان کے ساتھ امتیازی سلوک وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتا جائے گا۔
قانون یا آئین کے مطابق کارروائی ہوگی تو میں ویلکم کروں گا لیکن اگر ان کے ساتھ زیادتی ہوگی یا پھر ان کی اس طرح تضحیک کی جائے گی تو میں مذمت اور حسب استطاعت مزاحمت کروں گا۔
وہ مجھے لفافی کہتے رہیں لیکن میں جواب میں انہیں صرف وہ ٹائٹل دوں گا جو کسی آئینی ادارے یا عدالت سے ثابت شدہ ہو۔
میں ان کا ناقد ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی اصلاح اور درازی عمر کے لئے دعا گو بھی ہوں۔ لیکن مجھ جیسا معمولی انسان اور صحافتی مزدور جسکی رگوں میں ایک قبائلی پختون کا خون دوڑ رہا ہے ، اگر اپنے انتقام پر ملک و قوم کی بھلائی کو ترجیح دے سکتا تو پھر قوم کی قیادت کے دعویدار قدآور سیاسی لیڈر ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟۔ حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے منت ترلوں اور بلیک میلنگ سے مطلوبہ نتیجہ نہ ملنے کے بعد اب عمران خان کے پائوں کسی حد تک زمین پر آگئے ہیں ۔
ان کی پارٹی میں درون خانہ پھوٹ پڑگئی ہے اور جلد منظر عام پر آکر بڑا سیاسی دھماکہ ہونے والا ہے۔
یوں حکمران اتحاد کے پاس ایک راستہ یہ ہے کہ عمران خان کو کمزور دیکھ کر حساب برابر کرنا شروع کردے اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ بڑے پن کا مظاہرہ کرکے انہیں مذاکرات کی دعوت دے۔ عمران خان ابھی تک مذاکرات سے اس لئے انکار کرتے رہے کہ ایک تو انہوں نے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے امید لگا رکھی تھی اور دوسرا ان کے دل میں یہ بات ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا ہے اور کررہے ہیں،اس کے تناظر میں شاید حکومت ان سے بات بھی نہیں کرے گی ۔
اس لئے انہوں نے یہ رٹ لگارکھی ہے کہ میں مذاکرات نہیں کروں گا لیکن حقیقت میں یہی ان کے ساتھ مذاکرات کا وقت ہے اور اس لئے ان کی دو رکنی ٹیم نے حکومت کی دو رکنی ٹیم کے ساتھ خفیہ مذاکرات کاایک دورکیا بھی۔
بظاہر تو سردست فریقین (وفاقی حکومت اور عمران خان) کا بیٹھنا اور مشترکہ نکات پر متفق ہونا بہت مشکل نظر آتا ہے لیکن اگر ایک اور حوالے سے دیکھا جائے تو دونوں فریقوں میں اب کوئی فرق بھی نہیں رہا۔
مثلا سات ماہ قبل جو عمران خان کہہ رہے تھے ، آج وہی زرداری، شہباز اور مولانا وغیرہ کہہ رہے ہیں اور جو کچھ زرداری، نواز اور مولانا کہہ رہے تھے، آج وہ عمران خان کہہ رہے ہیں۔ تب عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو اداروں کے وقار کی بڑی فکر تھی اور ان پر تنقید کرنے والے نواز شریف ، مریم نواز اور مولانا وغیرہ کو غدار اور قابل گردن زدنی قرار دے رہے تھے اور آج یہ فکر نواز، شہباز، زرداری اور مولانا کو لاحق ہوگئی ہے اور اداروں پر تنقید کرنے والے عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ کل تک موجودہ حکمران جماعتیں جلد انتخابات چاہتی تھیں اور عمران خان کہہ رہے تھے کہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی اور آج عمران خان جلد انتخابات چاہتے ہیں جبکہ اتحادی حکمران کہہ رہے ہیں کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی ۔
گویا کل کی پی ٹی آئی آج کا حکومتی اتحاد ہے اور آج کا حکومتی اتحاد کل کی پی ٹی آئی ہے ۔ کل پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے پیٹ میں سویلین بالادستی کا مروڑ اٹھ رہا تھا جبکہ آج عمران خان سویلین بالادستی کے علمبردار بن گئے ہیں ۔ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی مرکز اور سندھ میں حکمران ہیں تو عمران خان پنجاب، پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ۔جبکہ بلوچستان کی موجودہ حکومت بھی عمران خان کی بنائی ہوئی ہے ۔
پھر جب دونوں حکمران ہیں تو جھگڑا کس بات کا؟۔اس لئے اپنی اپنی انائوں کی خاطر اس ملک اور قوم کو دائو پر لگانے کی بجائے فریقین کے سنجیدہ لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے۔
ایک دوسرے کی پکڑ دھکڑ اور کیسز بنانے کا سلسلہ بندکیا جائے ۔ عمران خان اسلام آباد پر یلغار کی دھمکیاں چھوڑ دیں۔ میثاق معیشت تیار کریں۔ آزادانہ انتخابات اور احتساب کے لئے ہر کسی کو قابل قبول نظام وضع کریں۔ انڈیا کے طرز پر آزاد اور مالی و انتظامی لحاظ سے خودمختار الیکشن کمیشن بنایا جائے ۔سول ملٹری تعلقات کے لئے نئی قانون سازی کی جائے ۔
آئین کے مبہم (آرٹیکل9) اور متنازعہ آرٹیکل62، 63 کی اصلاح کے لئے قانون سازی پر اتفاق کریں۔ ممکن ہو تو خارجہ پالیسی اور آزادی اظہارکی حدود و قیود کے حوالے سے بھی ایک قومی میثاق تیار کریں اور پھر باہمی اتفاق سے آزادانہ انتخابات کی طرف جائیں۔