ایچ بی ایل پی ایس ایل؛ دنیا کی ٹاپ تھری لیگزمیں سے ایک قرار

ایچ بی ایل پی ایس ایل میں کرکٹ کے معیار نے راشد خان کا دل جیت لیا،افغان آل راؤنڈر نے دنیا کی ٹاپ تھری لیگز میں سے ایک قرار دیتے ہوئے کہاکہ ہر ٹیم کے پاس 140کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بولنگ کرنے والے پیسرز موجود ہیں۔

بولرز کا حوصلہ آزمانے والے بیٹرز بھی ایکشن میں نظر آتے ہیں،لاہور قلندرز نتیجے کی پرواہ کیے بغیر 100 فیصد پرفارم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

فخرزمان کی فارم خوش آئند ہے،شاہین آفریدی بھی بطور کپتان مختلف نظر آ رہے ہیں۔تفصیلات کے مطابق پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pkکے پروگرام ’’کرکٹ کارنر ود سلیم خالق‘‘ میں گفتگوکرتے ہوئے راشد خان نے کہاکہ پاکستانی لیگ دنیا کی ٹاپ تھری لیگز میں سے ایک ہے۔

یہاں بہترین کھلاڑیوں کی موجودگی میں معیاری کرکٹ دیکھنے کو ملتی ہے،ہر ٹیم کے پاس 140کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بولنگ کرنے والے پیسرز موجود ہیں،دوسری جانب بولرزکا حوصلہ آزمانے والے بیٹرز بھی ایکشن میں نظر آتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ لاہور میں قلندرز کو ہوم گرائونڈ پر کھیلنے کا موقع ملے گا،کراؤڈ کی گرمجوشی اور شور میں کھیلنے کا الگ ہی مزا ہوگا،ابھی تک ٹیم اپنی اچھی کرکٹ سے لطف اندوز ہورہی ہے،قذافی اسٹیڈیم میں بھی کارکردگی کا گراف بلند رکھنے کی کوشش کریں گے۔

راشد خان نے کہا کہ کرکٹ میں دباؤ تو ہوتا ہے مگر کسی بھی صورتحال میں اپنی اسکلز کو نہیں بھولنا چاہیے، لاہور قلندرز کی حکمت عملی یہی ہے کہ بولنگ، بیٹنگ اور فیلڈنگ میں 100فیصد پرفارم کریں،نتیجے کی پروا کیے بغیر اپنے ٹیلنٹ کا بھرپور اظہار کرنا ہے۔انھوں نے کہا کہ ٹاپ آرڈر میں کوئی بیٹر اچھی فارم میں ہو تو ٹیم اور بولرز کے لیے بھی آسانی ہوتی ہے،ہمارے لیے فخرزمان یہی کردار ادا کر رہے ہیں،میں ان کی بیٹنگ سے لطف اندوز ہو رہا ہوں، اوپنر سمجھداری سے کھیل رہے ہیں۔

ان کو معلوم ہے کہ کہاں دفاع اور کب اٹیک کرنا ہے، امید ہے کہ ٹورنامنٹ کے آخر تک ان کی یہی فارم برقرار رہے گی،وہ خود بھی ٹیم میں ایسا کردار ادا کرنے کے لیے پْرعزم ہیں، افغان اسپنر نے کہا کہ شاہین شاہ آفریدی بطور کپتان بڑے مختلف نظر آتے ہیں،وہ ٹیم کا ماحول بہت پْرسکون رکھتے ہیں، دوسروں کی بات سنتے اور مشورہ کرتے ہیں،اسی کے ساتھ بولرز اور بیٹرز کا حوصلہ بڑھاتے ہیں، ہماری بھی کوشش ہوتی ہے کہ ان کو پھرپور سپورٹ کریں۔

رسٹ فلک کھیلتا ہوں،اسٹروک کو تاحال کوئی نام نہیں دیا

راشد خان نے کہا ہے کہ میں رسٹ فلک کھیلتا ہوں،اس اسٹروک کو تاحال کوئی نام تو نہیں دیا مگر یہ دھونی کا ایجاد کردہ ہیلی کاپٹر شاٹ نہیں ہے،کلائی قدرتی طور پر مضبوط ہونے کی وجہ سے میں نے منفرد اسٹروکس کھیلنے کی کوشش کی۔

اس میں کامیابی بھی ملی،زیادہ پریکٹس نہیں کی مگر اعتماد ہوتا ہے کہ ٹائمنگ درست ہوگئی تو کلائی کے زور پر گیند باؤنڈری کے پار ضرور جائے گی،انھوں نے کہا کہ ٹی ٹوئنٹی میچز کی اننگز کے آخر میں تیزی سے بنائے گئے 20،15رنز فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں، اسی لیے میں اپنی بیٹنگ پر توجہ دیتا ہوں،اسٹروک کھیلتے ہوئے جسم کا توازن نہ رہنے کے مسئلے پر قابو پالیا،ابھی مزید بہتری کیلیے کام کررہا ہوں۔

بائیوببل میں کھیلنا مشکل چیلنج،کھلاڑی ذہنی طور پرمتاثرہوتے ہیں

راشد خان نے کہا کہ بائیوببل میں رہ کر کرکٹ کھیلنا ایک مشکل چیلنج ہے، صرف ہوٹل اور گراؤنڈ تک محدود رہنے سے کھلاڑی ذہنی طور پر بھی متاثر ہوتے ہیں، دبئی میں تو ہم ساحل پر جا سکتے تھے مگر پاکستان میں ایسا ممکن نہیں ہے، 2سال سے اسی ماحول میں کھیل رہے ہیں، جسم اور ذہن اس کیلیے تیار ہوچکا،اب تمام تر توجہ کرکٹ پر مرکوز ہوتی ہے،امید ہے کہ آنے والی کرکٹ میں بائیوببل میں آسانی پیدا ہوگی۔

افغان کرکٹرزپاکستان سے میچز کے شدت سے منتظر ہیں

راشد خان تسلسل سے پاک افغان باہمی مقابلوں کے خواہاں ہیں،انھوں نے کہاکہ ابھی تک دونوں ملک ورلڈکپ یا ایشیا کپ میں ہی آمنے سامنے ہوتے ہیں،شائقین انھیں باہمی مقابلوں میں ایکشن میں دیکھنا چاہتے ہیں،بورڈز کوئی سیریز شیڈول کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو اچھی کرکٹ دیکھنے کو ملے گی،افغان کرکٹرز بھی پاکستان سے میچزکے شدت سے منتظر ہیں۔

کنڈیشنز کے بجائے اپنی مہارت کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں

آسٹریلوی بگ بیش میں کنڈیشنز سازگار نہ ہونے کے باوجود پرفارم کرنے کے سوال پر راشد خان نے کہا کہ کنڈیشنز کے بجائے اپنی مہارت کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں،کبھی یہ نہیں سوچتا کہ اس پچ میں اسپن نہیں تو میرے لیے بھی پرفارم کرنے کا موقع نہیں ہوگا،اگر ایسا کروں تو مطلب یہ ہوا کہ میں تو ذہنی طور پر پہلے ہی ہار گیا،میں اپنے ٹیلنٹ پر اعتماد کرتے ہوئے کنڈیشنز کے مطابق لینتھ میں تبدیلی لاتا ہوں، اسی مطابقت کی وجہ سے ہی مختلف میدانوں پر عمدہ کارکردگی دکھانے میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔

قلندرز سے بہت زیادہ خوش ہوں ثمین رانا نے بہت پیاراورعزت دی

راشد خان نے کہاکہ لاہور قلندرز کے ثمین رانا بہت اچھے انسان ہیں،انھوں نے میرے پہلے سیزن سے مجھے بہت پیاراور عزت دی،میں لاہور قلندرز سے بہت زیادہ خوش ہوں،بطور پروفیشنل کرکٹر آپ کو ٹیم میں ایڈجسٹ ہونا ہوتا ہے، کسی بھی ٹیم کی جانب سے کھیلیں تو یہ ذہن میں نہیں ہونا چاہیے کہ میں کتنے انٹرنیشنل میچزکھیلا ہوں۔

میں بھی گھل مل کر رہنے کی کوشش کرتا ہوں، جونیئرز سے بھی بات چیت ہوتی ہے،میں اپنے تجربات دوسروں کے ساتھ بیان کرتا ہوں،ہر ٹیم کا ماحول پلیئرز اور مینجمنٹ مل کر بناتے ہیں،میری بھی یہی کوشش ہوتی کہ اچھے انداز میں رہوں ہے، ماحول اچھا تو پرفارم کرنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔

پرستاروں کے لیے گلوکاری وغیرہ کی ویڈیوز شیئر کرتا ہوں

راشد خان نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر گانے اور ڈانس جیسی سرگرمیاں پرستاروں کی خوشی کیلیے کرتا ہوں،اس سے تازہ دم ہونے کا موقع بھی ملتا ہے،کسی بالی ووڈ فلم میں ہیرو آنے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ مستقبل کے بارے میں تو کوئی نہیں جانتا کہ کیا ہوگا مگر ہمارے پرستار کرکٹ سے ہٹ کربھی ہماری سرگرمیوں کے بارے میں جان کر خوش ہوتے ہیں،کرکٹ کے دباؤ کے بعد ہمیں بھی تازہ ہونے کا موقع ملتا ہے،اسی لیے گلوکاری وغیرہ کی ویڈیوز شیئر کرتا ہوں۔

آفریدی سے ملاقات کر کے بولنگ کا آرٹ سیکھنا چاہتا ہوں

راشد خان نے کہاکہ میں بچپن سے ہی شاہد آفریدی اور انیل کمبلے کو پسند کرتا تھا،اب بھی موقع ملے تو ان دونوں کی ویڈیوز دیکھ کر سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں،شاہد آفریدی سے ملنا چاہتا تھا،کراچی میں وہ کورونا کا شکار ہوگئے،کئی دن کیلیے قرنطینہ میں جانا پڑا، بعد میں بھی ملنے کا موقع نہیں مل سکا،ماضی میں فون پر گفتگو ہوتی رہی ہے لیکن میدان میں ملاقات کی بات ہی اور ہوتی ہے،مجھے نصف گھنٹہ بھی مل جائے تو ان سے لیگ اسپن سمیت بولنگ آرٹ کے بارے میں جان کر اپنے علم میں اضافہ کرنا چاہوں گا۔

افغان ٹیم میں کپتان کے بجائے بطور آل راؤنڈر کھیل کر خوش ہوں

راشد خان نے کہا کہ افغان ٹیم میں کپتان کے بجائے بطور آل راؤنڈرکھیل کر خوش ہوں،قیادت کررہے ہوں تو بولنگ اور بیٹنگ پر توجہ منتشر ہوتی ہے،میری کوشش ہوتی ہے کہ بطور آل راؤنڈر تینوں فارمیٹس میں ملک کیلیے پرفارم کروں،کپتان کو میری بھرپور سپورٹ حاصل ہوتی ہے، نوجوان کرکٹرز کی رہنمائی اور جذبہ ابھارنے کیلیے بھی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں،اپنا تجربہ نئے ٹیلنٹ کو منتقل کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہوں۔