قاضی اگر ایک فریق کے ساتھ نرم اور دوسرے فریق کے ساتھ سخت بات کرے تو وہ قاضی بھی بد دیانت ہے:جاوید لطیف

اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید لطیف نے کہا ہے کہ ہمارا دین یہ کہتا ہے وقت کا قاضی اگر دو فریقوں میں سے ایک فریق کے ساتھ نرم اور دوسرے فریق کے ساتھ سخت بات کرے تو وہ قاضی بھی بد دیانت ہے لہٰذا ایسے قاضی کو اس کے منصب پر نہیں رہنا چاہیے۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے جاوید لطیف نے کہا کہ بتایا جائے کہ کیا تمام ادارے اے پولیٹیکل ہوگئے ہیں؟ آج کہا جارہا ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ایجنسیاں ملوث تھیں، گرفتاری کی صورت میں ردعمل کی ایک سال سے تیاری کی جارہی تھی، جو نقصان ہوا ہے وہ ان کی توقع سے کم ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج ایک پیج پھٹ جانے کے باوجود اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاسکتا ہے، آج اگرایک ادارہ اے پولیٹیکل ہوگیا ہے تو دوسرا ادارہ کیوں نہیں ہورہا ہے، فوجی تنصیبات پرحملہ کرنے والے تو مجرم ٹھہرے، حملہ کروانے والا کیسے مجرم نہیں ہوگا؟

لیگی رہنما نے مزید کہا کہ خصوصی عدالتیں 9 مئی واقعات کا ٹرائل کریں، مجھے پوچھا جاتا ہے کہ نوازشریف واپس کیوں نہیں آرہا، عمرعطا بندیال اور چھوٹی عدالتوں کے فیصلوں کے بعد نوازشریف کیسے آجائیں، کیا اب بھی نوازشریف کے واپس آنے کا سوال بنتا ہے، ہمارا دین یہ کہتا ہے وقت کا قاضی اگر دو فریقوں میں سے ایک فریق کے ساتھ نرم اور دوسرے فریق کے ساتھ سخت بات کرے تو وہ قاضی بھی بد دیانت ہے ، ایسے قاضی کو اس کے منصب پر نہیں رہنا چاہیے ۔

ان کا کہنا تھا کہ بتایا جائے فوجی تنصیبات پرحملہ کرنے والوں کوپھرکیوں چھوڑا جارہا ہے؟ آج مرشد کوسفید چادروں میں لپیٹ کرعدالت لے جایا گیا توباقی عورتیں نہیں تھیں؟ یہ آج بھی کچھ قوتوں کا آلہ کار ہے جسے یہ رعایات مل رہی ہیں، یہ دہشتگرد ہے اس سے مذاکرات کسی صورت نہیں ہونے چاہئیں۔