پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
اساتذہ کرام کے نام!
میرے قابلِ صد احترام، معزز اساتذہ کرام۔ آپ کی خدمت میں چند گلے شکوے اور چند گزارشات پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ میرے احباب جانتے ہیں کہ میں اساتذہ کرام کا کتنا احترام کرتا ہوں۔ میرے ٹی وی پروگرام کے لیے اگر کبھی کسی استاد یا کسی پروفیشنل ڈاکٹر نے آنا ہو تو ان کو ریسیو کرنے کے لیے میں خود نیچے جاتا ہوں۔
میری شادی کی تقریب کے مہمان خصوصی بھی ایک استاد تھے اور میری والدہ کے جنازہ کی امامت بھی میں نے اپنے ایک استاد سے کرائی۔ میری نظر میں کسی بھی دوسرے طبقے سے زیادہ لائق احترام آپ لوگ ہیں کیونکہ آپ پیغمبرانہ پیشے سے وابستہ ہیں۔
گستاخی کی پیشگی معذرت کہ آج آپ کی خدمت میں چند گلے شکوے رکھنا چاہتا ہوں اور ان شکووں کا تعلق براہ راست میری ذات سے نہیں بلکہ اس قوم کی نئی نسل کی تعلیم وتربیت، ان کے سیاسی اور سماجی شعور اور اس ملک و ریاست کے مستقبل سے ہے۔
اس ملک کی آبادی کا 66 فی صد یعنی ایک تہائی بچوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان کی ایک بڑی تعداد پبلک اور پرائیویٹ اسکولوں اور مدارس میں زیر تعلیم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس ملک کی آبادی کا ایک تہائی حصہ آپ کی نگرانی میں ہے۔
پاکستان میں جامعات کی تعداد اب کم وبیش دو سو ہے جن میں لاکھوں نوجوان تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ دینی مدارس، کالج اور اسکول الگ ہیں۔ نوجوانوں کو آپ یقیناً ریاضی، انگریزی اور سائنس بھی پڑھا رہے ہونگے لیکن چند مضامین اسلامک اسٹڈیز، مطالعہ پاکستان، تاریخ، ادب اور سماجیات کے بھی ہونگے۔
مجھے گلہ یہ ہے کہ اس نئی نسل کو زندگی کا شعور، اختلاف کرنے کا سلیقہ، مکالمے کے بنیادی اصول اور اس کا طریقہ کار، ریاست اور حکومت کا فرق، حکومتوں کے اقتدار میں آنے کے آئینی اور قانونی طریقہ کار اور حکومت سے جانے کے طریقہ کار، آئین اور قانون کی حرمت، لاقانونیت سے جنم لینے والے مسائل، خانہ جنگی کے اسباب اور ان کا تدارک، عالمگیریت کے اس دور میں دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کی ضرورت اور اہمیت، پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اور اس کی اہمیت، آدابِ سفارت کاری علی ھذاالقیاس، یہ سب اور اس نوعیت کے دیگر موضوعات سکھانے اور ان کا شعور پیدا کرنے پر آپ کیوں توجہ نہیں دیتے؟ کیا ایک استاد کی ذمہ داری ریاضی کا مضمون پڑھانے اور انگریزی سکھانے کے بعد ختم ہو جاتی ہے؟
ماضی قریب کے چند واقعات ایسے ہیں جن میں بڑے پیمانے پر پاکستان کی نئی نسل نے ایک ایسے طریقے سے حصہ لیا کہ تنقید کا رخ فطری طور پر اساتذہ کی طرف ہوجاتا ہے کہ ان تعلیمی اداروں میں بچوں کی کیا تعلیم و تربیت ہورہی ہے۔
ظاہر ہے میرے کہنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ والدین اور دیگر ادارے ذمہ دار نہیں ہیں، وہ بھی یقیناً ہیں بلکہ بنیادی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ لیکن اس وقت میرے مخاطب اپنے جلیل القدر اساتذہ ہیں۔ ولی خان یونیورسٹی میں طالب علم مشال خان کو بے دردی سے قتل کیا گیا.
واقعے میں براہ راست ملوث سارے طالب علم ہی تھے۔ اسی طرح کسی جذباتی مذہبی اور مسلک پرست لیڈر کی کال آتی ہے تو نوجوانوں کا ہی ایک بڑا طبقہ سوچے سمجھے بغیر لبیک کہتا ہوا آگے نکلتا ہے، نہ وہ لگائے جانے والے نعروں کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، نہ اس کے نتائج پر سوچتا ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ نئی نسل کو جذباتی تقریروں اور ایک سنجیدہ بات چیت کے درمیان فرق نہیں سمجھایا گیا۔
طالب علموں کو یہ نہیں سکھایا گیاکہ وہ جب کوئی بات سنیں یا کوئی تحریر پڑھیں تو اس کو اچھے طریقے سے سمجھنے اور اس کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت اور اہمیت کیا ہے۔
سوات، دیر، سیالکوٹ، مردان، راوالپنڈی میں بعض جذباتی مقررین کی وجہ سے کتنا خون بہا، کتنے گھرانے اجڑ ے اور پاکستان کی سیاست اور سماج پر اس کے کتنے بھیانک اثرات مرتب ہوئے۔
اگر کوئی لیڈر یا رہنما نوجوان طالب علموں سے یہ کہتا ہے کہ میں تیس دن میں نظام انصاف بدل دونگا، بیس دن میں ملک سے کرپشن کا خاتمہ کردونگا تو نئی نسل اور طالب علموں میں یہ صلاحیت ضرور ہونی چاہیے کہ وہ اس جذباتی تقریر کا تجزیہ کرسکیں اور اپنی تنقیدی جائزہ کی صلاحیت کو استعمال کرکے یہ فیصلہ کرسکیں کہ اتنے دِنوں میں ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔
مذہب اور مذہبی اصطلاحات کو اس بدقسمت ملک میں پہلے دن سے سیاسی اور تزویراتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہاہے اور اس کے کئی خمیازے ہم بھگت چکے ہیں۔ لیکن میں اس میں بھی فرق کرتا ہوں۔
اگر کوئی مذہبی سیاسی جماعت جیسے کہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی، ایک باقاعدہ نظریے کے طور پر سیاست میں حصہ لیتی ہے، ایک پرامن لائحہ عمل پیش کرتی ہے اور اس جماعت کا پورا کلچر اس مذہبی نظریے کاثبوت ہو تو میں شاید پھر بھی اختلاف کروں، لیکن اپنے اختلاف کے باوجود، میں اس کو یہ حق دیتا ہوں کہ وہ دیگر سیاسی نظریات کی طرح مذہبی سیاست بھی کرے۔
لیکن اگر کوئی جماعت یا لیڈر جزوقتی مشغلہ اور قلیل المدتی نتائج کے لیے مذہبی اصطلاحات کو بے دریغ استعمال کرتا ہے تو میرے اندر یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان نظریات کے فرق اور اس طرح کے خودغرضانہ مقاصد کے لیے مذہب کی مقدس اصطلاحات اور شخصیات کے نام کواستعمال کرنے والوں کے درمیان امتیاز کرسکوں۔ لیکن یہاں بھی میری مایوسی اور پریشانی یہ ہے کہ جدید تعلیمی نظام نئی نسل کو یہ فرق سمجھانے میں ناکام ثابت ہورہا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ تعلیمی ادارے اور اساتذہ کرام اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور نئی نسل کو تنقیدی سوچ کا حامل بنائیں، ریاست اور حکومت کا فرق سمجھائیں، آئین اور قانون کی اہمیت سمجھائیں بھی اور اس پر عمل کرنے کی عملی صورتوں سے وضاحت بھی کرائیں، جذباتی تقریروں اور سنجیدہ مکالمے کا فرق بتائیں، شہریت کی بنیادی باتوں کے بارے میں ایجوکیٹ کریں، پر امن اور مہذب گفتگو کا سلیقہ سکھائیں۔
یہ ایک ایسا کام ہے کہ اگر اساتذہ کرام اور تعلیمی ادارے کر گزرینگے تو حقیقی معنوں میں ایک نیا پاکستان بن سکے گا اور ایک فلاحی ریاست وجود میں آسکے گی۔