اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ کنونشن 2022

امریکہ میں بہت سی اسلامی تنظیمیں ہیں جو مختلف ریاستوں‘ قومیتوں اور مقاصد کیلئے کام کر رہی ہیں‘ تاہم امریکہ میں موجود ان تمام اسلامی تنظیموں میں ”اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ‘‘ (ISNA) سب سے بڑی تنظیم سمجھی جاتی ہے۔ ”اسنا‘‘ کی جڑیں مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن سے نکلی تھیں۔ 1963ء میں یونیورسٹی آف الی نوئے میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان طلبہ نے ایک میٹنگ کا اہتمام کیا اور مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔ یہ امریکہ میں اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس اور اس سے نکلنے والی پہلی تنظیم تھی۔ اِسنا اپنی موجودہ شکل و صورت میں 1982ء میں وجود میں آئی۔ اس کے قیام کے پیچھے چار تنظیموں کی کاوشیں تھیں یہ چار تنظیمیں مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن آف یو ایس اے اینڈ کینیڈا‘ اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن‘ دی ایسوسی ایشن آف مسلم سوشل سائنٹسٹس اور ایسوسی ایشن آف مسلم سائنٹسٹس اینڈ انجینئرز تھیں۔ اِسنا کا سالانہ کنونشن امریکہ بھر میں مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے۔
امریکہ میں مسلمانوں کی دوسری اور برصغیر پاک و ہند سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ”اکنا‘‘ یعنی اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ ہے۔ ایک لحاظ سے ”اکنا‘‘ نے بھی مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن سے ہی جنم لیا تھا۔ جنوبی ایشیا یعنی پاکستان‘ بنگلہ دیش اور بھارت سے تعلق رکھنے والے وہ طلبہ جو اپنے آبائی ممالک میں اسلامی تحریکوں کے ساتھ وابستہ رہے تھے انہوں نے امریکہ آ کر آپس میں ایک سٹڈی سرکل کا آغاز کیا جو بعد ازاں ایک طلبہ تنظیم میں ڈھل گیا۔ ان طلبہ کی غالب اکثریت کا تعلق کسی نہ کسی طرح جماعت اسلامی کی ذ یلی طلبہ تنظیموں اسلامی جمعیت طلبہ (پاکستان) اسلامی چھاترا شہر (بنگلہ دیش) اور سٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن انڈیا (بھارت) سے رہا تھا۔ 1968ء میں ایک سٹڈی سرکل سے شروع ہونے والا یہ سفر حلقۂ احباب ِاسلامی سے ہوتا ہوا آخر کار 1977ء میں ایک تنظیم اکنا (ICNA) میں بدل گیا۔” اکنا‘‘ کا سالانہ کنونشن بھی امریکہ میں مسلمانوں کا اپنی نوعیت کا بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ اس سال ”اکنا ‘‘کا سالانہ اجتماع ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور میں تھا۔ اس تنظیم میں ویسے تو تقریباً تمام مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے امریکی مسلمان شامل ہیں اور اس کا اجتماع دنیا کی ہر قومیت سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں پر مشتمل ہوتا ہے تاہم اس تنظیم میں غالب اکثریت پاکستان‘ بنگلہ دیش اور بھارت سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی ہے۔ اس سالانہ کنونشن میں درجنوں مختلف نوعیت کے پروگرام ہوتے ہیں۔ اردو مشاعرہ اس کنونشن کاایک مستقل فیچر ہے۔ میں کئی سال پیشتر بھی اکنا کے بفلو میں ہونے والے سالانہ کنونشن کے مشاعرے میں جا چکا ہوں۔ اس بار اس مشاعرے میں پاکستان سے مجھے اور بھارت سے منظر بھوپالی کو مدعو کیا گیا تھا۔ مشاعرے کا سارا اہتمام معوذ اسد صدیقی کے ذمے تھا۔معوذ اسد صدیقی کے ذمہ اس کنونشن سے متعلق میڈیا کے تمام معاملات کی دیکھ بھال بھی تھی جو انہوں نے نہایت احسن طریقے سے انجام دی اور نبھائی۔
اکنا کا ہیڈ آفس نیو یارک کی کاؤنٹی کوئینز کے شہر جمائیکا میں ہے۔ میں تین سال قبل اکنا کے ہیڈ آفس میں گیا تو وہاں میری ملاقات اکنا کے سیکرٹری جنرل طارق الرحمان سے ہوئی۔ میں نے طارق الرحمان کو دیکھا تو مجھے یہ شکل بہت زیادہ جانی پہچانی لگی۔ میں نے قریب چار عشروں کی پرانی یادیں کھنگالیں تو اچانک مجھے یاد آیا کہ یہ تو ”طارق شیلے‘‘ ہے۔ اگر میں بھولتا نہیں تو طارق شیلے 1979ء میں پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا جنرل سیکرٹری تھا۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والا طارق الرحمان ان بنگالی نوجوانوں میں شامل تھا جنہوں نے سقوط ڈھاکہ کے بعد مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد وہاں رہنے کے بجائے پاکستان آنے کو ترجیح دی۔ طارق الرحمان مشرقی پاکستان سے پہلے نیپال پہنچا اور پھر کھٹمنڈو سے پاکستان آ گیا۔ اس نے پنجاب یونیورسٹی سے جیالوجی (ارضیات) میں ماسٹرز کیا اور پھر امریکہ آ گیا۔ تب سے وہ امریکہ میں ہی مقیم ہے اور جنوری 2009ء سے یعنی گزشتہ ساڑھے تیرہ سال سے اکنا کا جنرل سیکرٹری ہے۔ میں نے اکنا کے ہیڈ آفس میں اسے قریب اڑتیس سال بعد دیکھا تو پہچان گیا۔ میرے ”طارق شیلے‘‘ کہنے پر وہ زور سے ہنسا اور کہنے لگا :اب میں نے بھی آپ کو پہچان لیا ہے۔ گزرے وقت کی باتیں یاد کرتے پتا ہی نہ چلا کہ کتنا وقت بیت گیا ہے اور اس دوران اڑتیس سال بھی کہیں اڑن چھو ہو گئے۔ اس سال تین روزہ اکنا کنونشن 28مئی سے 30مئی تک تھا۔ اکنا کے سالانہ کنونشن کی سب سے مزیدار بات یہ ہوتی ہے کہ لوگ اس میں فیملی کی صورت میں شرکت کرتے ہیں۔ ہر عمراور ہر رنگ و نسل کے لوگوں کا ایسا اجتماع ایک عرصے بعد دیکھا۔ اس سال اس کنونشن میں چھوٹے بڑے‘ بچے بوڑھے‘ نوجوان اورمردو خواتین کو ملا کر اکیس ہزار لوگوں نے شرکت کی۔ میں یہ تعداد اندازاً نہیں بتا رہا بلکہ یہ وہ تعداد ہے جو منتظمین کے پاس رجسٹر ہوئی اور منتظمین نے ان میں سے بیشتر شرکا کے رہنے اور کھانے کا بندوبست بھی کیا تھا۔ اس کنونشن کا اہتمام تو بالٹی مور کنونشن سنٹر میں کیا گیا تھا تاہم شرکا کی رہائش کیلئے اس کنونشن سنٹر کے ساتھ ملحقہ تقریباً سارے ہوٹلز ہی مکمل طور پر اکنا نے بک کیے ہوئے تھے۔
وسیع و عریض کنونشن سنٹر میں سارا دن میلے کا سماں رہتا تھا۔ مجھے پہلے ہی روز سکرامنٹو سے آئے ہوئے عارف الحق عارف مل گئے۔ بیاسی سالہ عارف الحق نے زندگی کا بیشتر حصہ جنگ گروپ کے ساتھ گزار دیا۔ میری ان سے پہلی ملاقات سکرامنٹو میں ہی ہوئی تھی۔ اگلے دو روز کے دوران ہم اس ہجوم میں کم از کم آٹھ دس بار ایک دوسرے سے ملے اور ہر بار ہنستے کہ ہزاروں لوگوں میں ہم دونوں آخر کس طرح ایک دوسرے کو مل جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف سپیکرز پر ہرتھوڑی دیر بعد کسی گمشدگی کا اعلان ہو رہا ہے۔ اردو‘ بنگالی‘ عربی اور انگریزی زبان میں کل ایک سو چھیانوے مقررین نے 169مختلف سیشنز میں 398لیکچرز دیے۔ آٹھ لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ زیریں منزل پر بڑے ہال میں لگے ہوئے بازار میں 535 مختلف سٹالز تھے اور اس سارے پروگرام میں سات سو والنٹیرز مسلسل لوگوں کی مدد میں مصروف تھے۔ اس کنونشن میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے آخری بنگالی ناظم اعلیٰ اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سابق امیر مطیع الرحمان نظامی‘ جنہیں 11مئی 2016 کو پاکستان سے محبت کے جرم میں پھانسی دے دی گئی تھی‘ کے بیٹے انجینئر نصیب الرحمان نے اپنے والد کی یادوں کے حوالے سے بڑا اثر انگیز خطاب کیا۔ ایک سیشن امریکی ریاست منیسوٹا کے شہر منیاپولیس سے منتخب ہونے والی رکن کانگریس الحان عمر کے ساتھ تھا۔ الحان عمر امریکی ایوان نمائندگان میں منتخب ہو کر آنے والی پہلی افریقی نژاد رکن ہے جو بطور مہاجر امریکہ میں آئی تھی۔ دھان پان سی الحان عمر امریکی کانگریس میں ایک مضبوط مسلمان آواز ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ سلوک کے بارے میں کھل کر بولتی ہے۔ وہیں میری ملاقات شکاگو سے امریکی کانگریس کیلئے امیدوار جنید احمد سے ہوئی۔ جنید شکاگو سے نسل پرست ہندو سیاستدان اور موجودہ رکن کانگریس راجہ کرشنا مورتی کے خلاف الیکشن لڑ رہا ہے۔ رات دو بجے تک ہلٹن ہوٹل کی لابی میں برادرم عاصم اسد‘ دیرینہ دوست طاہر جاوید اور درجن بھر دوستوں کے ساتھ ایک یادگار محفل سجی رہی۔ طاہر جاوید نے اپنے دورہ ٔپاکستان سے متعلق بڑی باتیں سنائیں مگر بیشتر آف دی ریکارڈ تھیں۔ اگر آن دی ریکارڈ ہوتیں تو کئی نیک نام خوار و خستہ ہو جاتے۔