ہوتا رہا، ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا

طبیعت بھی اس جمہوریت جیسی حالت سے دوچار ہے لیکن ناں ناں کرتے بھی قلم سنبھالا تاکہ ان دیدہ وروں کی حیرت کو خراجِ تحسین پیش کر سکوں جو صورتحال کو دِیدے پھاڑ پھاڑ کر یوں دیکھ رہے ہیں جیسے یہ مجرے اور نوٹنکیاں پہلی بار دکھائی دے رہی ہوں حالانکہ یہی تو اس لنڈے کی جمہوریت کا حسن ہے جو کبھی ریسلنگ اور کبھی سٹرپ ٹیز(STRIP TEASE)کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہی لوٹے تو ہماری پاکیزگی و طہارت کی علامتیں ہیں اور یہی گھوڑے تو وہ گھوڑے ہیں جن کے بارے میں شاعر مشرق نے فرمایا:

دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے

بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے ’’گھوڑے‘‘ ہم نے

ہمارا آج کا ’’بحرِ ظلمات‘‘ چھانگوں مانگوں سے سندھ ہائوس تک پھیلا ہوا ہے اور گھوڑے چار نہیں دو دو ٹانگوں والے ہیں اور جمہوریت کی قسم یہ پہلی بار نہیں ہو رہا اور تب تک ہوتا رہے گا جب تک یہ سادہ سی بات سمجھ نہیں آ جاتی کہ جو کچھ کاشت کیا جاتا ہے، وہی کچھ کاٹنا بھی پڑتا ہے۔

جیسے جمہور، ویسی جمہوریت اور ویسے ہی منتخب جمہوریے

اس جمہوریت کو سمجھنا ہوتو اس مکالمے پر غور کریں۔

VOTER:”IWOULDN,T VOTE FOR YOU,IF YOU WERE ST.PETER HIMSELF”

CANDIDATE:”IF I WERE ST. PETER, YOU WOULD’NT BE IN MY DISTRICT”

جسے سمجھ آجائے اس کا بھلا اور جو سمجھنا ہی نہ چاہے اس کا بھی بھلا۔ یہ مغربی جمہوریت ہے جس کا خلاصہ چند روز پہلے اسی کالم میں عرض کیا تھا کہ ’’مادرِ جمہوریت‘‘ انگلستان میں مرحلہ وار طویل سفر طے کرکے یہاں تک آئی ہے اور اس سے بھی کہیں اہم یہ کہ کیا ہم میں اور اہلِ مغرب میں دور پار کی بھی کوئی مماثلت ہے؟ ہمارے تو روپ ہی نہیں رویے بھی ان سے بالکل مختلف ہیں۔ ہماری تعمیر اور تاریخ بھی ان سے الٹ ہے اور یہ ساری پریکٹس یوں ہی ہے جیسے 5یا ساڑھے پانچ فٹ کا مقامی غیور و باشعور کسی چھ سوا چھ فٹ کے گورے کا گرم سوٹ لنڈے سے خرید کر اسے ازسرنو کٹائے سلائے بغیر زیب تن کرکے ’’سالا میں تو صاب بن گیا‘‘ گاتے ہوئے گلی میں نکل آئے اور پھر اپنے قد سے کہیں لمبی پتلون کے پائنچوں میں الجھ کر منہ کے بل نالی میں جا گرے۔ اس لنڈے کی جمہوریت نے ہمیں تو جو دیا سو دیا، ہندوستان کی جمہوریت نے بھی گرینڈ ٹوٹل میں انہیں نریندر مودی ہی دیا حالانکہ شائننگ انڈیا میں تو ان کے بھگوان کی کرپا سے کبھی مارشل لاء بھی نہیں لگا تو بھائی! کہیں نہ کہیں کوئی گڑ بڑ ضرور ہے کہ ’’کسے نوں مانہہ نروئے تے کسے نوں بادی‘‘ امریکہ میں بھی ٹرمپ اور بائیڈن ہی رہ گئے۔

چلو فرض کر لیتے ہیں کہ اس لنڈے کی جمہوریت کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں حالانکہ چین روس ہم سے تھوڑے بہتر ہی ہوں گے لیکن مان لیتے ہیں تو برادرانِ اسلام! اتنا تو کر لو کہ لنڈے کا یہ سوٹ کسی درزی کے پاس لے جائو اور اسے کہو کہ کانٹ چھانٹ کے بعد اسے ہمارے تمہارے سائز کے مطابق تیار کر دے۔

مدتیں بیت گئیں جب موٹر کار برصغیر میں متعارف ہوئی لیکن آج تک چلانی نہیں آئی۔ ہندوستان میں بھی صورتحال ملتی جلتی ہے تو آخر اس کی وجہ کیا ہے! ہوتا غالباً یوں ہے کہ جہاں کوئی شے ایجاد ہوتی ہے اس کے عام ہونے تک عوام لمحہ لمحہ تربیت پا رہے ہوتے ہیں، اس کے تقاضے، ادب آداب سیکھ سمجھ رہے ہیں اور پھر جب یہ ایجاد ہم جیسوں پر اوپر سے نازل ہوتی ہے تو اس کا ABUSEعام ہو جاتا ہے مثلاً مہذب دنیا میں ہارن دینا ماں بہن کی گالی سے بڑھ کر ہے جبکہ یہاں اور ہمارے پڑوسی ملک میں یہ کوئی ایشو ہی نہیں۔ آج ہمارے اربن سنٹرز میں بمپر ٹو بمپر گاڑیاں ہیں لیکن نہ پارکنگ کی تمیز نہ ٹریفک سائینز کی کوئی پروا۔ اور تو اور تین تین پولیس اہلکار ایک لاغر سی موٹر سائیکل پر سوار قانون کے نفاذ میں مصروف ہوتے ہیں۔

معروضات کا مطلب یہ کہ اگر لنڈے کی اس جمہوریت کا اتنا ہی شوق ہے تو اس میں حسبِ ضرورت و ذائقہ تھوڑی کمی بیشی کر لو ورنہ جیسا ووٹر ویسا ووٹ اور اس کا امیدوار اور طلب گار…. نتیجہ وہی لوٹے، لفافے، گھوڑے، جلسے، دھرنے، دھمکیاں، دھاوے اور آوے آوے، جاوے ای جاوے۔ قیمے والے نانوں اور بریانی کی پلیٹوں سے شروع ہونے والی جمہوریت کے ساتھ یہی کچھ نہ ہو گا تو کیا ہو گا؟

بزدارسے لیکر رمیش کمار تک … ’’لگا ہے مصر کا بازار دیکھو‘‘ ایک سے بڑھ کر ایک شہکار کھڑکی توڑ ہفتے کچھ یوں منا رہا ہے کہ عوام کے رہے سہے جوڑ بھی ڈھیلے پڑ گئے ہیں۔ آج ہی ایک اخبار میں خبر تھی کہ ’’حالاتِ حاضرہ‘‘ نے عوام کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے حالانکہ یہ ’’حالات حاضرہ ‘‘ عشروں نہیں صدیوں پر محیط ہیں۔صدیوں کے حساب سے ’’رعایا‘‘ ہونے کے عادی عوام کو اچانک بغیر کسی تیار کے’’شہری‘‘ بنانے کا ڈھونگ رچائو گے تو یہی کچھ ہو گا جو ہوتا رہا، ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔