جج ارشد ملک کی وڈیو بناکر کوئی غلط کام نہیں کیا ،برطانیہ کی ہائی کورٹ

برطانیہ کی ہائی کورٹ کی جج نے تسلیم کیا ہے کہ پی ایم ایل این کے رہنما ناصر بٹ نے جج ارشد ملک کی وڈیو بناکر کوئی غلط کام نہیں کیا جسے خفیہ طور پر یہ اعتراف کرتے ہوئے ریکارڈ کیا گیا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 10 سال قید کی سزا سنائی تھی کیونکہ انہیں 2018 کے انتخابات سے قبل ایک ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کیا گیا تھا تاکہ نواز شریف اور مریم نواز کو کسی بھی قیمت پر جیل بھیجا جاسکے۔

ایک شاندار فیصلے میں مسز جسٹس ہیدر ولیمز نے سماء یوکے کے وکلاء کی جانب سے پیش کردہ ’’سچائی کے دفاع‘‘ کو مسترد کر دیا کہ نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 10 سال کی سزا درست اور کرپشن پر مبنی تھی؛ کہ جج ارشد ملک ایک ایماندار آدمی ہیں جنہیں ناصر بٹ نے نواز شریف کی مدد کے لیے بلیک میل کیا تھا اور یہ کہ ارشد ملک-نواز شریف ویڈیو اسکینڈل رپورٹ کرنا عوامی مفاد میں ہے۔

جج نے اس ثبوت کو ’’اعلانیہ کمزور اور سچائی کا غیر پائیدار دفاع‘‘ قرار دیا اور اپنی ناراضگی کا اظہار کیا کہ مدعا علیہ اس پر ڈٹا ہوا ہے۔

ناصر بٹ اب تک تین ٹی وی چینلز کے خلاف ہتک عزت کے تین مقدمات جیت چکے ہیں لیکن یہ عدالت کے باہر ہی طے پا گئے۔

تاہم یہ پہلا کیس ہے جس میں نواز شریف کی سزا، پاکستانی سیاست اور جج ارشد ملک کا ویڈیو اسکینڈل شامل ہے جسے ایک انگریز جج کے سامنے ٹیسٹ کیا گیا جس میں ایک مقدمے کی سماعت اور شواہد کی جانچ شامل تھی۔

جسٹس ہیدر ولیمز نے حکم امتناعی کے ذریعے ٹی وی کمپنی کو برطانیہ میں ناصر بٹ، نواز شریف اور بعد ازاں ارشد ملک اسکینڈل کے خلاف وہی الزامات دہرانے سے روک دیا ہے۔

36 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں معزز مسز جسٹس ہیدر ولیمز نے فیصلہ سنایا کہ سماء کی نشریات ناصر بٹ کیلئے توہین آمیز تھی اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہے جبکہ ٹی وی چینل کی جانب سے ناصر بٹ اور نواز شریف کے خلاف پیش کردہ دلائل کو مسترد کیا اور اعلان کیا کہ ناصر بٹ کو یوکے میں چینل کی جانب سے بلیک میلنگ اور رشوت ستانی کے جھوٹے الزامات لگا کر بدنام کیا گیا اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا۔

جج نے حکم دیا کہ سچائی کا دفاع ناکام ہو جاتا ہے کیونکہ مدعا علیہ نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ الزام کا ہتک آمیز ڈنک، یعنی دعویٰ کرنے والے نے دھمکی دی تھی اور جج کو رشوت دینے کی کوشش کی تھی، کافی حد تک درست ہے۔

مفاد عامہ کے معاملے پر اشاعت کا دفاع ناکام ہو جاتا ہے کیونکہ مدعا علیہ نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ کسی بھی متعلقہ شخص کو اس وقت یقین تھا کہ جن الفاظ کی شکایت کی گئی ہے ان کو شائع کرنا مفاد عامہ میں ہے اور کسی بھی صورت میں اگر ایسا عقیدہ رکھا جاتا تو یہ تمام حالات میں معقول عقیدہ نہ ہوتا؛ اور اسی کے مطابق، دعویدار کا ہتک عزت کا دعویٰ قائم ہوتا ہے۔

جج نے کہا کہ میں انہیں 35 ہزار پونڈز معاوضہ ہرجانے کے طور پر دیتی ہوں اور میں ایک حکم امتناعی جاری کروں گی جس میں مستقبل میں توہین کی تکرار کو روکا جائے گا۔

جب 11 جولائی 2019 کو چینل نے یہ الزامات لگائے تھے تو یوپی اینڈ کمنگ ٹی وی لمیٹڈ کے ذریعے پاکستان میں اس کے مالک کوئی اور تھے اور برطانیہ میں یہ کسی اور کی ملکیت تھا اور سیاستدان اور پراپرٹی ٹائیکون نے اسے نہیں لیا تھا۔

ناصر بٹ کا کیس برطانیہ کی کمپنی کے خلاف تھا جس کا تعلق پاکستان استحکام پارٹی (آئی پی پی) کے رہنما سے نہیں جو اب برطانیہ اور پاکستان میں سماء کے مالک ہیں۔

سماء یوکے نے برطانیہ میں الزام لگایا تھا کہ ناصر بٹ سابق وزیراعظم نواز شریف کو آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں سزا سنانے والے احتساب عدالت کے مرحوم جج کو دھمکیاں دینے اور رشوت دینے میں ملوث ہیں۔

نشریات کے دوران چینل نے نواز شریف، ناصر بٹ اور ان کے ساتھیوں پر کئی الزامات لگائے تھے۔ مقدمہ یوپی کمنگ ٹی وی لمیٹڈ کے ذریعے سماء یو کے کے سابق مالک کے دلائل کے گرد گھومتے ہیں اور ناصر بٹ ہتک عزت کے مقدمے میں دعویدار ہیں۔

عدالت کے روبرو اپنے کیس میں سماء کے وکیل نے جج ارشد ملک کے بیان حلفی پر انحصار کیا جس میں ناصر بٹ پر کرپشن اور عدلیہ کے ساتھ ہیرا پھیری کا الزام لگایا گیا تھا تاکہ نواز شریف کی مدد کی جا سکے جو اس وقت جیل میں تھے جب بٹ نے جج کی وڈیو بنائی تھی۔

چینل نے عدالت کو 2016 کے پاناما پیپرز کے بارے میں بتایا تھا اور اس انکشاف کے بارے میں بتایا تھا کہ نواز شریف اور خاندان کے پاس برطانیہ میں کروڑوں ڈالر مالیت کی جائیدادیں اور کمپنیاں ہیں۔

چینل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے اس لیے ہٹایا کیونکہ دبئی میں واقع کیپٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت میں ان کی دلچسپی ظاہر کرنے میں بے ایمانی اور ناکامی کا پتہ لگایا گیا تھا اور اسی وجہ سے نواز شریف کو سزا سنائی گئی تھی۔

ناصر بٹ کے مقدمے میں کہا گیا کہ نواز شریف کو لندن میں چار فلیٹس کی خریداری سے متعلق الزامات سے بری کر دیا گیا تھا لیکن عدالت نے فیصلہ دیا کہ نواز شریف سعودی عرب میں اسٹیل مل کی ملکیت کے لیے ذرائع آمدن ثابت کرنے میں ناکام رہے جس کے لیے نواز شریف مالک یا فائدہ اٹھانے والے نہ تھے اور جس کی وجہ سے انہیں سزا سنائی گئی۔

ناصر بٹ کے وکیل نے سماء یوکے کے کیس کو مسترد کرتے ہوئے جج کو بتایا کہ اب یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے 2018 کے الیکشن میں دھاندلی اور نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے ججز کے ساتھ ہیرا پھیری کے ذریعے ان مقدمات میں نواز شریف کو سزا سنائی تھی۔

ان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ریٹائرڈ پاکستانی ججوں نے بھی یہی کہا ہے اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ باجوہ نے پورے نظام کو کنٹرول کیا اور شو چلایا۔

ناصر بٹ نے جج کو بتایا کہ انہیں ایک سیکنڈ کے لیے بھی یقین نہیں آیا کہ نواز شریف نے کچھ غلط کیا ہے اور درحقیقت تمام شواہد اس حقیقت کی تائید کرتے ہیں۔

انہوں نے جج کو بتایا کہ میں نے ویڈیو اس لیے بنائی کیونکہ میں نے سوچا کہ نواز شریف کی بے گناہی کو سامنے لانا اور ہمارے ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور حکام کے اندر موجود بدعنوانی اور ہمارے عدالتی نظام پر ان کے اثرات کو اجاگر کرنا ضروری ہے۔

جج ملک کبھی وڈیو بنائے جانے پر راضی نہ ہوتے اور اگر انہیں معلوم ہوتا کہ میں وڈیو بنا رہا ہوں تو وہ پریشان ہوجاتے۔

جج ملک کے اعتراف کی وڈیو بنانا عوامی مفاد اور انصاف کے مفاد میں تھا۔ میں ناانصافی اور قانونی نظام کی ناکامی کی سب سے بڑی داستانوں میں سے ایک کو بے نقاب کر رہا تھا۔

ناصر بٹ نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے جاتی امرا میں شریف سے مرحوم جج کی ملاقات کا اہتمام کیا جہاں جج نے شریف سے معذرت کی اور کہا کہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔

مسز جسٹس ہیدر ولیمز نے فیصلہ دیا کہ مدعا علیہ نے یہ ثابت نہیں کیا کہ ہتک آمیز الزام کہ دعویٰ کرنے والے نے جج کو دھمکیاں دی تھیں اور رشوت دینے کی کوشش کی تھی، بالکل درست ہے اور مدعا علیہ یہ ظاہر کرنے کے قریب نہیں پہنچا کہ مدعی نے جج کو دھمکی دی اور رشوت دینے کی کوشش کی۔

جج نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ ٹی وی چینل کے اداریے نے ناصر بٹ کا موقف حاصل کرنے کے لیے کوئی معقول قدم نہیں اٹھایا اور مدعا علیہان کے پیش کردہ دلائل کو مسترد کر دیا کہ انہوں نے دعویدار سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ جج کا کہنا تھا کہ دعویٰ کرنے والے نے اپنا دعویٰ ہتک عزت میں ثابت کیا ہے۔

جج نے تسلیم کیا کہ ہتک آمیز بیان میں اس قسم کا ایک بہت ہی سنگین الزام لگایا گیا جس نے دعویٰ کرنے والے کی بطور سیاسی شخصیت سالمیت کو نقصان پہنچایا۔

جج نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ان کی ساکھ کو زیادہ نقصان پہنچا کیونکہ وہ پاکستان اور برطانیہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی میں ایک ممتاز شخصیت ہیں۔

جج نے کہا کہ وہ مانتی ہیں کہ براڈکاسٹ کے اندر تاثرات کو اہمیت دی گئی جیسا کہ وہ پہلے بیان کر چکی ہیں۔

یہ ایوارڈ ایسے حالات میں دعویدار کی ساکھ کو درست کرنے کے لیے کافی ہونا چاہیے جہاں مدعا علیہ سچائی کے واضح طور پر کمزور اور غیر پائیدار دفاع کے ساتھ ڈٹا ہوا ہے۔

سماء یوکے کے وکیل بیرسٹر رشید احمد اور ناصر بٹ کے وکیل بیرسٹر ڈیوڈ لیمر دونوں نے لندن ہائی کورٹ میں 2016 میں میر شکیل الرحمان اور اے آر وائی نیٹ ورک لمیٹڈ کے درمیان کیس میں ہتک عزت کے تاریخی فیصلے پر انحصار کیا۔

یہ فیصلہ برطانیہ میں اردو ٹیلی ویژن کی نشریات کے تناظر میں ہتک آمیز معنی کے تعین کے لیے ایک معیار بن گیا ہے۔

دسمبر 2021 میں اس معاملے میں معنی کو ہتک آمیز قرار دیتے ہوئے سینی جے نے مسٹر رحمان کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات کا تعین کیا کہ جن الفاظ کی شکایت کی گئی تھی ان کا مطلب یہ تھا کہ دعویدار نے جج کو دھمکی دی اور رشوت دینے کی کوشش کی؛ جن الفاظ کی شکایت کی گئی وہ حقیقت کا بیان ہے؛ اور ان الفاظ نے دعویٰ کرنے والے کو عام قانون میں بدنام کیا۔