ذرا لندن تک

بہت دن ہوگئے دیار مغرب جانا نہیں ہوا، میں نے جوتے پر جوتا رکھ کر بھی دیکھا، مگر سفر درپیش نہیں ہوا، نجومی کو ہاتھ دکھایا وہ مجھے ہاتھ دکھا گیا۔ فیس بھی رکھ لی اور سفر کی پیش گوئی بھی نہیں کی، مگر یہ سب ٹوٹکے غلط ثابت ہوئے جب لندن سے احسان شاہد کا فون آیا کہ آپ لندن کب آ رہے ہیں؟ میں نے پوچھا آپ کو یہ خیال کیسے آیا، بولے رات خواب دیکھا کہ میں اور آپ مادام تسائو میں مشاہیر کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویریں اتروا رہے ہیں، بس اس کے بعد میرے لئے ممکن نہ رہا کہ اپنے دوست کے خواب کو غلط ثابت کروں، سو میں نے عذیراحمد کو فون کیا کہ تیاری پکڑو ہم لندن جا رہے ہیں۔

سو قارئین کرام جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو ہم لندن کے خوشگوار موسم کے مزے لے رہے ہوں گے۔ احسان شاہد کی کار ہوگی، لندن کی سڑکیں ہوں گی، ہم تو شریفا نہ لباس میں ہوں گے مگر گورے تو فوراً نیکروں پر اتر آتے ہیں اور گوریاں گوروں سے کہاں کم ہیں،سو ان کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے اور میچ دو ایک پر ختم ہوتا ہے۔ اس بار میرا ارادہ صرف لندن میں قیام کا ہے، ورنہ اس سےپہلے بریڈ فورڈ کے حضرت شاہ، مانچسٹر کے صابر رضا اور گلاسکو کے ڈاکٹر شفیع اور اظہر کہاں گوارا کرتے تھے کہ ہم لندن سے ہو کر واپس چلے جائیں۔ ڈاکٹر شفیع کے دم سے گلاسکو کی ادبی رونقیں زوروں پر تھیں مگر شاید اب وہ بہت بوڑھے ہو چکے ہوں گے۔ اب میں آپ کو سچی بات بتائوں کہ لندن جا تو رہا ہوں، بہت خوشی ہے، مگر یہ وہی لندن ہے جہاں کبھی مشتاق احمد یوسفی اور ساقی فاروقی ہوتے تھے، ان کے علاوہ یہاں بخش لائلپوری ہوتے تھے، میرا یار اعجاز احمد اعجاز ہوتا تھا۔ یہاں اطہر راز تھے۔ عبدالرحمٰن بزمی، گلشن کھنا، سیما جبار، نور جہاں نوری، حیدر عباس بھائی، ڈاکٹر عبدالفکار عزم، عاشور کاظمی اور مجاہد ترمذی بھی یو کے کی رونق تھے۔

ابھی میں نے اطہر راز کا ذکر کیا، کیا خوبصورت شاعر اور کتنا بھولا بھالا انسان تھا، اس کا ایک واقعہ مجھے نہیں بھولتا۔ ایک دفعہ لندن یاترا کے دوران ہم دوستوں نے بائی کار ناروے جانے کا پروگرام بنایا، اعجاز احمد اعجاز نے اپنی کار کا اسٹیرنگ سنبھالا اور باقی ’’سواریوں‘‘ میں میرے علاوہ بخش لائلپوری، حسن رضوی اور اطہر راز شامل تھے۔ پیرس پہنچے تو میں نے، حسن رضوی اور بخش لائلپوری نے ہوٹل میں کمرے لے لئے مگر اعجاز احمد اعجاز نے کار کی حفاظت کے لئے کار ہی میں قیام کا فیصلہ کیا۔ پہلے اعجازنے ہمارے کمرے کا واش روم استعمال کیا، اس کے بعد اطہر راز نے بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو ہوٹل کے خبیث منیجر نے کہا ’’واش روم استعمال کرنا ہے تو اپنا کمرہ لو‘‘۔ جس پر اطہر راز مایوسی کے عالم میں باہر آگیا۔ اب فطرت کی ضرورتوں سے تو نہیں لڑا جا سکتا۔ اطہر راز پبلک ٹائلٹ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا، اس کے پائوں میں بھی کچھ پرابلم تھا، بچارا لنگڑاتا لنگڑاتا ایک میل دور گیا تو اسے ایک پبلک ٹائلٹ دکھائی دیا۔ مگر مصیبت اکیلے نہیں آتی جو سکے ٹائلٹ باکس میں ڈالنے سے ٹائلٹ کا دروازہ کھلتا تھا وہ اس کے پاس نہیں تھے۔ یہ شریف آدمی پریشان کھڑا تھا کہ نائیجریا کی ایک خاتون نے ٹائلٹ کے باہر ہی ’’کام‘‘ دکھا دیا، جس سے اطہر راز کی بھی ’’حوصلہ افزائی‘‘ ہوئی اور اس نے بھی نائیجرین بی بی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فطرت کی کال پر وہیں ’’لبیک‘‘ کہہ دیا۔ اس کے بعد وہ دوبارہ ایک میل تک لنگڑاتا لنگڑاتا کار کے پاس پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ایک گورا اس کی کار کی اوٹ میںو ہی کام کر رہا تھا، جس کے لئے اطہر راز کو اتنی دور جانا پڑا تھا۔

اس سفر کے دوران اور بھی کچھ اس طرح کے مقامات آہ و فغاں آئے تھے، مگر جوانی کے دن ہوں اور آپ یورپ میں سفر کر رہے ہوں تو بہت سے خوشگوار واقعات کی موجودگی میں اکا دکا ناخوشگوار واقعات بھی بآسانی برداشت ہو جاتے ہیں۔ تاہم میرا لندن کا یہ سفر جس کا تذکرہ کر رہا ہوں سراسر خوشگوار ہے کہ بہت عرصے کے بعد اپنے صحافی دوستوں مرتضیٰ علی شاہ، شوکت ڈار اور افتخار قیصر سے ملاقات ہوگی۔باقی باتیں لندن پہنچ کر ہوںگی۔

اور اب آخر میں بہت عمدہ شاعر فواد حسن فواد کی کشمیری حریت پسند رہنما یاسین ملک کے لئے ایک نظم:جہد مسلسل…(یاسین ملک کے نام )

تمہیں جو بھی کہا تھا ظالموں نے ،تم نے کرڈالا

لرزتے کانپتے بے جان لفظوں میں

سناڈالا وہی اک فیصلہ جو،مرے حاکم نے لکھا تھا

کہا تم نے کہ مجھ کو عمر بھر اب تو،پس زنداں ہی رہنا ہے

مری باتیں نئی نسلوں کے ذہنوں میں

زہر اک گھولتی ہیں ،اور انہیں برباد کرتی ہیں

انہیں انکار کی جرأت بھی دیتی ہیں

اور اس سے بھی زیادہ،خوف سے آزاد کرتی ہیں

٭٭٭

تمہیں شاید گماں ہے کہ تمہارا حکم نامہ

صعوبت قید وبند کی اور تنہائی کا ڈر

ہمیں مجبور کردے گا،مری نسلوں کو بھی محکوم رکھے گا

ہمیں معذور کر دے گا

تمہیں شاید کسی نے یہ بتایا ہی نہیں

مری گردن کے نیچے ،مرے کندھوں کی ہڈیوں اور پھر

گھٹنوں کے گودوں میں ،مرے پیروں کے تلوئوں پر

اندھیری رات کے پچھلے پہر میں

بندھے ہاتھوں بندھے ٹخنوں پہ برسی لاٹھیاں

مرے اس ناتواں سے جسم کے اندر لگے گھائو

ابھی بھی درد کرتے ہیں ،مگر ان سے کہیں آگے

مری آنکھوں کی پھیلی پتلیوں سے جھانکتے بے گور لاشے

مرے پیاروں کے وہ بے جان چہرے

تمہارے ظلم و دہشت کے نشاں،اب بھی فروزاں ہیں

سو یہ گھائو تو سب اپنی جگہ ہیں ،مگر پھر بھی

مرے چہرے پہ عزم بے کراں ہے

کہ قیدوبند کا یہ حکمنامہ جو نیا ہے

تمہارے واسطے ہی امتحان ہے