جسٹس بمقابلہ جسٹس

(گزشتہ سے پیوستہ)

سپریم جوڈیشل کمیشن کے نام خط میں جسٹس قاضی محمد فائز عیسیٰ آگے لکھتے ہیں کہ

تاہم چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ انہوں نے عدالتِ عالیہ سندھ کے چیف جسٹس کو اپنی زیرِ غور فہرست سے خارج کیا۔ اس کا سبب چیف جسٹس نے یہ بتایا کہ انھوں نے انکار کیا تھا۔ ججوں سے یہ رائے طلب کرنا یا نہ کرنا کہ کیا ان کو عدالت عظمیٰ کا جج نامزد کیا جائے، یا بغیر طلب کیے ان کی جانب سے رائے کا ظاہر کیا جانا آرٹیکل ۲۰۶(۲) کی نفی ہے۔

چیف جسٹس نے عدالتِ عالیہ بلوچستان کے چیف جسٹس اور جج صاحبان اور عدالتِ عالیہ اسلام آباد کے چیف جسٹس اور جج صاحبان کو زیرِ غور فہرست میں شامل نہ کرکے مزید امتیازی رویہ برتا ہے۔ ان علاقوں میں سرِدست پائے جانے والے احساس محرومی میں اس اقدام سے مزید اضافہ ہو جائے گا۔اس حوالے سے چیف جسٹس یہ فرماتے ہیں کہ فلاں فلاں نے صرف دیوانی، فوجداری یا ٹیکس کے مقدمات کی سماعت کی اور اسی میں فیصلے کیے اور پھر مزید کہتے ہیں کہ وہ قانون کے دیگر شعبوں میں مطلوبہ تجربہ نہیں رکھتے ۔ جج خود اپنے تئیں اس کا تعین نہیں کرتے کہ وہ کس نوعیت کے مقدمات سنیں گے، لہٰذا اس بنیاد پر ان کو محروم کرنا نا انصافی اور ناجائز ہے ۔ تمام تعیناتیاں آئین کے مطابق پہلے سے طے شدہ غیر امتیازی معیار کے مطابق ہونا لازمی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ذاتی پسند ناپسند کا شائبہ بھی نہ ہو۔ آئین چیف جسٹس کو جیوڈیشل کمیشن کے دیگر ارکان سے زیادہ کسی قسم کے اضافی اختیارات نہیں دیتا ۔ چیف جسٹس کو صرف جیوڈیشل کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے ۔

جب موجودہ چیف جسٹس سینئر ترین جج کی حیثیت سے کام کر رہے تھے، تو انھیں پانچ رکنی کمیٹی کی سربراہی سونپی گئی تھی تاکہ وہ ججوں کی تقرری کیلئے واضح معیار طے کریں ، اگر چیف جسٹسز اور سینئر ترین ججوں کو نامزد نہ کرنا ہو۔ ان کو دیا گیا کام تاحال نامکمل ہے ۔ اس کمیٹی کا صرف ایک ہی اجلاس 9 مارچ 2022 کو بلایا گیا تھا جس کی کارروائی پر محترم جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ تحریر کرتے ہوئے دستخط کیے: ’’معزز چیئرمین نے قیمتی آرا اور تجاویز دینے پر تمام ارکان کا شکریہ ادا کیا اور توقع ظاہر کی کہ ٹھوس خیالات کو ضبط تحریر میں لانے کے بعد آگے بڑھنے کےلیے جلد اجلاس ہوگا‘‘ ۔ بعد ازاں کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوا، کوئی ‘ٹھوس خیالات تحریر’ نہیں کیے گئے، نہ ہی کمیٹی نے کوئی رپورٹ جیوڈیشل کمیشن کو جمع کرائی گئی۔ اس کے باوجود چیف جسٹس فرماتے ہیں کہ کمیٹی اپنا کام مکمل کر چکی ہے ۔ کمیٹی کے جن ارکان سے میری بات ہوئی ہے انہوں نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ کمیٹی کا صرف ایک ہی اجلاس ہوا تھا اور کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔بصد احترام، یہ جوڈیشل کمیشن کی تضحیک اور آئین کی خلاف ورزی ہے۔

آئین کی دفعہ 175اے اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے بارے میں بہت واضح ہے اور اس کی سختی سے تطبیق لازمی ہے۔ آئین جوڈیشل کمیشن کو یہ استحقاق دیتا ہے کہ وہ پارلیمانی کمیٹی کیلئے ججوں کو نامزد کرے۔ چیف جسٹس یک طرفہ طور پر فیصلہ نہیں کر سکتے ۔ اگر اپنا طریقِ کار طے کرنے کیلئے اولین جوڈیشل کمیشن کے بنائے ہوئے قواعد آئین سے متصادم ہوں، تو ان کو نظر انداز کرنا لازم ہے، نہ کہ آئین کو۔

جوڈیشل کمیشن کا اختیار ہے کہ وہ کسی خالی اسامی پر جج کا انتخاب کرے لیکن اس پر یہ پابندی نہیں کہ وہ صرف چیف جسٹس کے نامزد کردہ ججوں کو ہی منتخب یا مسترد کرے۔ آئین کی دفعہ اے یہ نہیں کہتی کہ اکیلے چیف جسٹس ہی کسی جج کو نامزد کریں۔ چیف جسٹس صاحب نے ایک سوالنامہ تشکیل دیا، اسے ارسال کیا اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات اور جمع شدہ دستاویزات اکٹھی کرکے 2347صفحات پر مشتمل پلندہ ہمارے غوروفکر کیلئے تیار کیا، لیکن اس کام کیلئے جوڈیشل کمیشن سے منظوری نہیں لی۔ جو کام کیا گیا اس پر یقیناً کئی مہینے لگے ہوں گے مگر چیف جسٹس نے ایک بار بھی اس کے بارے میں گفتگو نہیں کی، نہ ہی کبھی یہ بات ظاہر کی۔ آئین پاکستان چیف جسٹس کو اس طرح یک طرفہ کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا، نہ ہی اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ مفاد عامہ اور عدلیہ سے متعلق امور کو خفیہ اور صیغۂ راز میں رکھا جائے۔

فیصلہ تحریر کرنے میں تاخیر کا چیف جسٹس نے نا اہل قرار دیے جانے کے ایک سبب کے طور پر ذکر کیا ہے۔ عدالت ہائے عالیہ کے ججوں کو عدالتِ عظمیٰ کے ججوں کی نسبت کہیں زیادہ کام سونپا جاتا ہے ۔ اگر یہ ایک معیار ہے، اور اس میں کچھ غلط نہیں ہے، تو آئیے ہم خود بھی غور کریں اور خود احتسابی کریں ۔ چیف جسٹس کو چاہیے کہ وہ عدالتِ عظمیٰ کے ججوں کا ایک سروے کریں تاکہ معلوم ہو سکے کہ: 1) چیف جسٹس اور ہر جج ایک فیصلہ تحریر کرنے میں اوسطاً کتنا وقت لیتے ہیں؟ 2) ‘مختصر حکمناموں’ کے ذریعے کتنے مقدمات نمٹائے جاتے ہیں؟ 3) مختصر فیصلے کے بعد اس کی تفصیلی وجوہات ظاہر کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ اور 4) کتنے مختصر حکمناموں کی تفصیلی وجوہات کا اب بھی انتظار ہورہا ہے؟ میں کہہ سکتا ہوں کہ مختصر فیصلہ سنانا ایک نئی اختراع ہے؛ دفعہ 189عدالتِ عظمیٰ کے ’فیصلوں ‘ کا ذکر کرتی ہے، مختصر حکمنامے ایسی اختراع ہیں جس کی آئین اجازت نہیں دیتا۔

قرآن و حدیث کے حوالے دینے کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ لکھتے ہیں کہ:

چیف جسٹس انتہائی نازک معاملے کو جلد بازی میں سخت قابل اعتراض طریقے سے نمٹانا چاہتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایک ہفتے میں 2347صفحات پر مشتمل دستاویزات کی جانچ کی جائے جبکہ مجھے یہ دستاویزات فراہم تک نہیں کی گئیں ۔ اس کی بجائے واٹس ایپ پیغام کے ذریعے مجھ تک پہنچانے کی کوشش کی گئی لیکن میری رسائی اس میں سے صرف چودہ صفحات پر مشتمل پہلی دستاویز تک ہی ہو سکی ہے اور میں صرف وہی پڑھ سکا ۔ باقی سب کے لیے میرا فون’’اسٹوریج فل‘‘ کا اشارہ دیتا ہے ۔ میں اس کی اطلاع دے چکا ہوں مگر ابھی تک مجھے کوئی دستاویزات کوریئر کی گئیں، نہ ہی میڈرڈ میں موجود پاکستانی سفارت خانے کو دی گئیں تاکہ وہ مجھ تک پہنچاسکے۔ اگر کسی اور کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا اور معاملہ عدالت تک پہنچتا، تو عدالت اس قسم کی بے اصولی اور عجلت پر ناراض ہوتی کیونکہ اسے ناکافی اطلاع قرار دیا جاتا جس سے ’مناسب طریقے‘کے متعلق آئینی دفعات کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس مناسب طریقے اور ناکافی اطلاع کے قانون کو تاراج نہیں کر سکتے ۔

اس لیے میری گزارش ہے کہ جیوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس ملتوی کیا جائے ۔ اس کے بجائے پہلے ہمیں اس پر اجلاس کرنا چاہیے کہ اس معاملے میں آگے کس طرح بڑھنا ہے ، اور اگر عدالت ہائے عالیہ کے چیف جسٹسز اور ان کے بعد سینئر ترین ججوں کو نظر انداز کرنا ہے، تو پہلے یہ کرنا چاہیے کہ نامزد کردہ افراد کیلئے اہلیت کے معیار کو جیوڈیشل کمیشن کے سامنےغور کیلئے رکھا جائے کیونکہ اس وقت سینئر ترین جج وہ ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں جو انھیں سونپی گئی تھی۔

آپ کا مخلص

قاضی فائز عیسیٰ (سینئر ترین جج، عدالت عظمیٰ پاکستان)