زمینوں کی تقسیم در تقسیم اور آبادی

کسی نے اس عاجز کو سفر کی بدعا دی اور قبول ہو گئی۔ سو اب یہ مسافر ہمہ وقت بوریا بستر اٹھائے عازمِ سفر رہتا ہے۔ کبھی وقت تھا کہ یہ مسافر اس مسلسل مسافرت میں خوش رہتا تھا‘ اب محض دل لگانے کیلئے سفر کرتا ہے۔ اللہ بخشے ابا جی مرحوم کہا کرتے تھے کہ یہ آوارہ گرد گھر کے پچھواڑے کے اتنے چکر نہیں لگاتا جتنے چکر لاہور کے لگا لیتا ہے۔ ایمانداری کی بات ہے تب لاہور شہر ایسا ہی تھا کہ اس کے چکر لگائے جائیں۔ میں نے جو یہ جملہ لکھا ہے یہ دراصل ماضی پرستی کی ہی ایک قسم ہے‘ انگریزی میں اسے ناسٹلجیا کہتے ہیں۔ تب لاہور میں کیا نہیں ہوتا تھا؟ وحدت کالونی میں خالہ وزیر کا گھر تھا۔ ہماری اکلوتی خالہ جو ہمیں دیکھ کر کھِل جاتی تھیں۔ نانا جی وہیں‘ انہی کے پاس وحدت کالونی کے کوارٹر میں ہوتے تھے۔ اس اڑھائی کمروں والے کوارٹر کو تو اب دیکھے بھی پینتالیس سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے مگر اس کوارٹر کا نمبر (18/R) اب تک دل پر لکھا ہوا ہے۔ وحدت کالونی سے شروع ہونے والا سفر نیو مسلم ٹاو ٔن پہنچ کر ختم ہو گیا۔ پہلے نانا جی رخصت ہوئے‘ پھر خالہ چلی گئیں اور آخر میں ان کا اکلوتا بیٹا عامر‘جو میرا ہم عمر اور لنگوٹیا تھا‘ اپنے مالک کے ہاں چلا گیا۔ خدا جانے اب وہ گھر کس حال میں ہے اور اس کے مکین کون ہیں ؟
ان گھروں کے پاس لکھنے کی طاقت ہوتی تو خدا جانے کیا کیا لکھتے۔ دنیا کی بے ثباتی کے کیسے کیسے قصے رقم کرتے اور اپنے مکینوں کی کیا کیا کہانیاں بیان کرتے۔ لندن شہر کے درمیان میں سے گزرنے والے دریائے تھیمز کے کنارے گلیوں میں گھومتے ہوئے ایک پتھرسے تعمیر شدہ گھر پر نظر پڑی۔ وہاں ایک بورڈ نصب تھا جس پر لکھا ہوا تھا کہ اس گھر میں گزشتہ چار سو سال سے ایک ہی خاندان مسلسل رہائش پذیر ہے۔ پڑھ کر پہلے تو حسرت ہوئی کہ کیا خوش قسمت لوگ ہیں جو پچھلے چار سو سال سے اپنے پرکھوں کے اس گھر میں زندگی گزار رہے ہیں پھر اس حسرت پر حیرت بھی ہوئی کہ بھلا جب مکین نہیں رہے تو پھر ان چار سو سالہ قدیم در و دیوار سے کیا لینا ہے؟ مگر اسی لمحے خیال آیا کہ کیا یہ خوشی کم ہے کہ ان در و دیوار پر ان کے آباؤ اجداد کے ہاتھوں کا لمس ہوگا اور ان کمروں اور دالانوں میں ان کی آوازوں کی گونج ابھی تک سرگرداں ہو گی ا ور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس گھر کے مکینوں نے گزشتہ چار سو سال سے اس گھر کی وحدت اور ملکیت کو سنبھال رکھا ہے۔ اسے بیچا نہیں‘ اسے تقسیم نہیں کیا۔ اسے فروخت کر کے شہر سے باہر کوئی اسٹیٹ نہیں خریدی۔ خیال آیا کہ اس کے حصے بخرے تو شاید اس لیے نہ ہو سکے ہوں کہ برطانیہ کے قانون میں پراپرٹی کی تقسیم در تقسیم ممکن نہیں؛ تاہم وہ اسے بیچ کر پیسے تو کھرے کر سکتے تھے جو انہوںنے چار صدیوں سے نہیں کیے۔ کیا یہی کم ہے؟
ادھر یہ عالم ہے کہ ایسے ایسے گھر اس تقسیم کے چکر میں حویلیوں سے ڈربوں میں تبدیل ہو گئے۔ دور کیوں جاو ٔں‘ خود میرے دادا کا گھر اسی تقسیم کا شکار ہوا۔ دو وسیع دالان‘ چھ کمرے‘ دو عدد برآمدے‘ ایک ڈیوڑھی‘ ایک سٹور اور ایک کنویں والا چھوٹا برآمدہ۔ سامنے وسیع اور کھلا صحن جس کی جنوبی دیوار میں چھ سات کبوتروں کیلئے باقاعدہ گھونسلے بنے ہوئے تھے۔ یہ بڑے اہتمام اور خوبصورتی سے بنے ہوئے گھونسلے تھے۔ گھونسلے کے چھوٹے سے در کے اوپر اینٹوں سے حاشیہ لگا ہوا تھا اور باہر کی طرف دو اینٹوں کے برابر چھوٹا سا چھجا بڑھا ہوا تھا جن پر کبوتر اپنے گھونسلے سے باہر آ کر دھوپ سینکتے تھے اور گھوم گھوم کر غٹرغوں غٹرغوں کیا کرتے تھے۔ دادا جی فوت ہوئے تو یہ گھر تین حصوں میں بٹ گیا۔ بھلا یہ گھر اسی طرح تھوڑا ڈیزائن ہوا تھا کہ تین برابر حصوں میں تقسیم ہوتا تو ہر شے برابر تقسیم ہوتی۔ دو کمرے ایک دالان اور ایک برآمدہ ابا جی کے حصے میں آیا۔ ہمارا اپنا گھر ساتھ ہی تھا‘ لہٰذا یہ حصہ کرایے پر دے دیا گیا۔ اسی طرح ایک حصہ چچا رؤف کے حصے میں آیا تو دو کمرے ایک برآمدہ اور ڈیوڑھی ان کے حصے میں آ گئی۔ دو کمرے‘ ایک سٹور‘ کنواں اور اس کا چھوٹا برآمدہ مع صحن کے بیشتر حصے اور کبوتروں کے گھونسلے‘ تایا جی عبدالعزیز کے حصے میں آ گیا۔ تایا جی چلے گئے۔ اب تائی جی کو ملنے جب اس گھر جاتا ہوں تو کبوتروں کے گھونسلوں میں ویرانی ہے۔ اللہ جانے سارے کبوتر کہاں چلے گئے؟ شاید انہیں اس گھر کا نیا نقشہ پسند نہیں آیا۔ آزاد پنچھی تھے ماحول پسند نہ آیا تو اُڈاری مار گئے۔ ہمارے پاس تو اتنی آزادی بھی نہیں۔
عین ممکن ہے میرے بہت سے قارئین کو یہ کالم پڑھ کر لگے کہ میں کیا فضول اور متروک باتیں لکھ رہا ہوں مگر مجھے یہ بھی یقین ہے کہ میری عمر کے وہ قاری‘ جنہوں نے اپنے دادا کے گھر کو تقسیم ہوتے‘ زمینوں کا بٹوارہ ہوتے اور گھر کے پرانے برتنوں کو بازار میں پیتل تانبا خریدنے والوں کے ہاتھوں فروخت ہوتے دیکھا ہے‘ انہیں اس کالم میں اپنا ماضی نظر آتا ہوگا۔ اب بھلا اس عمر میں ماضی سے ناتا کیسے توڑا جا سکتا ہے؟ لے دے کر اب یہی یادِ ماضی ہی تو بچی ہوئی ہے اب اس سے بھی دستبردار ہو جائیں؟
ٹوبہ ٹیک سنگھ شہر کے ساتھ چک نمبر125ج ب (دُلم) میں ایک اسی طرح کا ہوا دار گھر تھا جو گرمیوں میں بھی بغیر پنکھے کے دکھن سے چلنے والی ہوا سے ٹھنڈا رہتا تھا۔ محض تین کمروں والے گھر میں جس کے سامنے ایک کھلا صحن تھا اتنی وسعت تھی کہ پانچ چھ مہمانوں کی آمد کا تو پتا ہی نہیں چلتا تھا۔ لگتا تھا کہ مہمانوں کی آمد کے ساتھ ہی گھرمیں مزید وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔ عشروں بعد اس گھر میں جانا ہوا تو دل کو ایک دھچکا سا لگا۔ دروازے سے اندر داخل ہوا تو سامنے کھلے صحن کے بجائے ایک تنگ سی گلی تھی جس میں دو علیحدہ علیحدہ دروازے دو چھوٹے چھوٹے صحنوں میں کھل رہے تھے۔ کچا مکان سیمنٹ اور ریت کے طفیل پختہ ہو چکا تھا مگر اس پر رشتوں کا کچا پن غالب آ چکا تھا۔ دل ایسا ملول ہوا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ملتان تک کا سفرکاٹنا مشکل اور گاڑی چلانا مشکل تر ہو گیا۔ عمر ساٹھ سال کے لگ بھگ ہو جائے تو دل یونہی ماضی کے رشتے اور یادیں کھنگالنے لگ جاتا ہے ‘یہ مسافر تو عمر کی یہ حد تین برس ہوئے عبور کر چکا ہے۔
گھروں اور زمینوں کی تقسیم در تقسیم نے جہاں رہنے کا ماحول اور معیار برباد کیا ہے وہیں دل بھی تنگ کر دیے ہیں۔ آبادی میں ایسا بے تحاشا اور ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے کہ آئندہ چند سال بعد رہنے کا ماحول اور زندگی گزارنے کا حالیہ معیار برقرار رکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔ ملکی وسائل‘ خوراک کی پیداوار اور فی کس آمدنی میں اضافے کے ممکنہ امکانات آبادی میں اضافے کے یقینی امکانات کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں اور آنے والے دنوں کے بارے میں چشم تصور سے اندازہ لگاؤ ں تو سوائے عسرت‘ غربت‘ معاشرتی تقسیم اور معاشی بربادی کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ زمینوں کی تقسیم در تقسیم سے پاکستان اور خاص طور پر وسطی پنجاب میں بے شمار قطعاتِ اراضی اس حد سے کم ہو چکے ہیں جو کسی فصل کو سارے لوازمات سمیت قابلِ کاشت بنا کر منافع فراہم کرنے کیلئے درکار ہیں۔ حکمران اپنی حکمرانی میں مست ہیں۔ اپوزیشن خواہ کوئی بھی ہو اس کا مطمح نظر صرف اور صرف حصولِ اقتدار ہے۔ عوام کو سیاست میں الجھ کر دست و گریبان ہونے اور بچے پیدا کرنے سے فرصت نہیں ہے۔ مستقبل کی کسی کو نہ تو فکر ہے اور نہ ہی پروا۔ آبادی کا بم پھٹنے کے قریب ہے اور یہ آپ کا سب کچھ لے دے جائے گا ‘مگر اس جانب تو کسی کی توجہ ہی نہیں۔ اللہ مجھے کفر کے فتووں سے محفوظ رکھے۔