زندگی موت اللّٰہ کے ہاتھ میں!

میں بچپن سے ایک محاورہ ’’ہر فن مولا‘‘ سنتا آیا ہوں بلکہ میں نے اس عنوان سے ایک ڈرامہ سیریل بھی لکھی تھی، جس میں سہیل احمد (عزیزی) نے مرکزی کردار ادا کیا تھا، وہ اپنے آپ کو ہر فن مولا سمجھتا تھا چنانچہ مختلف قسم کے کاروبار بہت دھوم دھام سے شروع کرتا تھا اور کچھ ہی عرصے بعد اس کا یہ کاروبار زمین بوس ہو جاتا تھا اور یوں میں نے اس ڈرامہ سیریل میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ جو ہر فن مولا ہوتے ہیں ان کا ہر فن ادھورا ہوتا ہے۔

تاہم میں نے ہر فن مولا والی بات کو متعدد مواقع پر درست بھی پایا ہے، میرا ایک ڈرائیور بہادر نام کا ہوتا تھا وہ بائیس سال میرے ساتھ رہا، چار سال پہلے فوت ہوگیا ہے۔ وہ چٹا ان پڑھ تھا، الف، بے پڑھنا بھی نہیں جانتا تھا، مگر وہ میرے ساتھ ناروے گیا تو نارویجن زبان تو میرے پلے بھی نہیں پڑتی تھی، مگر اس نے بہت جلد اس کے موٹے موٹے لفظ سیکھ لیے، مجھے فارن آفس لے جانا ہوتا تو پہلے کسی مقامی شخص کے ساتھ جائے وقوعہ کی ’’ریکی‘‘ کرتا اور پھر سفیر کا جو پروٹوکول ہوتا اس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے وہاں پہنچا دیتا۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ ناروے،تھائی لینڈ اور پھر پاکستان میں بھی خودبخود میرا پی اے بھی بن گیا۔ اس نے تمام اہم لوگوں کے نمبر اپنے فون میں فیڈ کئے ہوئے تھے، ان کے نام سے نہیں کہ وہ تو لکھنا جانتا ہی نہیں تھا بلکہ اس نے ان کے نمبر زبانی رکھے ہوئے تھے۔ ایک وقت آیا کہ لوگ مجھے فون کرنے کی بجائے اس کے نمبر پر فون کرتے، پھر اس کی مرضی ہوتی کہ کسی سے میری بات وہ کرانی ہے کہ نہیں۔ جب میں پاکستان واپس آیا تو ظاہر ہے وہ بھی میرے ساتھ تھا۔ یہاں بھی اس نے بطور میرے پرائیویٹ سیکرٹری از خود اپنی ذمہ داری سنبھال لی۔ وہ سب دوستوں کو ان کے مقام اور مرتبے کے مطابق جو اس نے خود متعین کر رکھا تھا، پروٹوکول دیتا۔ چنانچہ پاکستان آ کر بھی میری حیثیت ثانوی ہو کر ہی رہ گئی تھی، اب وہ دنیا میں نہیں ہے، ممکن ہے اس نے منکر نکیر کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے قبر میں بھی کسی ہمسائے مردے سے عربی میں مدد لے لی ہو، بلکہ منکر نکیر جو سوالات پوچھتے ہیں ان کے جواب بھی اپنے ’’ذرائع‘‘ سے معلوم کرلیے ہوں۔

ان دنوں میرا ڈرائیور خالد ہے، یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، یعنی پانچ جماعتیں پاس ہے اور کوشش کرکے انگریزی کے بورڈ بھی پڑھ لیتاہے۔ اس نے بھی آہستہ آہستہ میرا پرائیویٹ سیکرٹری بننے کی پریکٹس شروع کر دی ہے اور کافی حد تک کامیاب ہے۔ خالد میرا ڈرائیور اور ’’ادھ پچدا‘‘ پرائیویٹ سیکرٹری ہی نہیں بلکہ میرا کمپوڈر بھی ہے۔ وہ صبح شام میرا بلڈ پریشر چیک کرتاہے اور انگریزی میں مجھے بتاتا ہے ’’سر 129 بائی 77‘‘ ہے۔ صرف یہی نہیں وہ ڈاکٹر کے پاس میرے ساتھ جاتا ہے اور ڈاکٹر کے سارے سوالوں کا جواب بھی وہی دیتا ہے کہ سر ان دنوں کون کون سی میڈیسن لے رہے ہیں اور کون کون سی چھوڑ دی ہیں۔ یہ ان کی ساری رپورٹس ہیں جو آپ نے انہیں کروانے کے لیے کہا تھا۔ یہ ایکسرے ہے، یہ اینڈواسکوپی کی رپورٹ ہے، یہ الٹرا سائونڈ ہے، یہ ہارٹ کی رپورٹس ہیں۔میرے سٹی اسکین اور ایم آر آئی ٹیسٹ کی رپورٹس بھی ساتھ ہیں۔

یہ تو کچھ بھی نہیں، خالد صبح میرا بی پی لینے کے بعد میرے میڈیسن بکس میں سے چار ٹیبلٹ اور کیپسول نکالتا ہے اور میرے ہاتھ میں تھمانے سے پہلے پوچھ لیتا ہے کہ ’’سر آپ نے ناشتہ کرلیا ہے کہ نہیں‘‘ اثبات میں جواب ملنے پر وہ پانی کا گلاس اور ادویات مجھےتھما دیتا ہے۔ دوپہر اور رات کو بھی وہ اسی طرح کا عمل دہراتا ہے۔ یہ ادویات کھڑے ہونے پر چکر آنے، گھٹنوں کے درد، پروسٹیٹ کے مسائل جن کی وجہ سے مجھے رات کو آٹھ دس دفعہ اٹھنا پڑتا ہے، آئی ڈراپس، کانوں میں سائیں سائیں کی آواز کے لیے ایئر ڈراپس، سانس میں رکاوٹ دور کرنے کے لیے ان ہیلر، بند ناک کھولنے کااسپرے، علاوہ ازیں پرسکون نیند کے لیے جو پروسٹیٹ کی وجہ سے بہرحال نہیں آتی،گلے کی خرابی کے لیے سیرپ، پریشان خیالی کے علاج کے لیے سوتے وقت دو ٹیبلٹ، معدے کے لیے ٹیبلٹ، پیٹ کے پھولنے پر ایک کیپسول، بھوک نہ لگنے کی شکایت دور کرنے کے لیے ایک میڈیسن، گھٹنوں کی خرابی دورکرنے کے لیے ڈاکٹر سرجری ریکمنڈ کر چکے ہیں مگر میں اس طرف نہیں آتا، بس ایک کیپسول سے کام چلائے جا رہا ہوں۔ خالد کو ہر دوا کا نام، اس کا مقصد اور استعمال کا ٹائم یاد رہتا ہے اور یہ بھی کہ ان میں سے کوئی میڈیسن ختم ہونے والی ہے چنانچہ وہ ختم ہونے سے پہلے بازار سے خرید لاتا ہے۔

اور ہاں بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی دنیا میں ہر فن مولا واقعی موجود ہیں۔ بہادر اور خالد کا تو بتا چکا ہوں آپ مجھے دیکھیں الحمد للہ مزاح نگار ہوں، کالم نویس ہوں، شاعرہوں، ڈرامہ رائٹرہوں مگر یہ انکشاف میں آج کرنے جا رہا ہوں کہ ایک عرصے سے ڈاکٹروں کی صحبت میں رہتے اور خصوصاً ’’ڈاکٹر خالد ‘‘کی تربیت کے نتیجے میں میں خود بھی ڈاکٹر بن چکا ہوں اور ہر مرض کا شافی علاج میرے پاس ہے، میرے پاس شدت مرض سے مریض آتے ہیں میں انہیں تو دوا تجویز کرتا ہوں مگر اپنا علاج میں خود نہیں کرتا۔ الحمد للہ کئی مریض میرے ہاتھوں شفایاب ہو چکے ہیں، البتہ کچھ مریض دوسری دفعہ نہیں آتے، ان کے لواحقین آتے ہیں اور اول فول بک کر چلے جاتے ہیں، حالانکہ زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔