انسان اور سانپ

مجھے سانپوں سے بہت ڈر لگتا ہے حالانکہ میں نے آستین میں بہت سے سانپ پال رکھے ہیں تاہم مجھے بہت شوق ہے کہ میں کوئی سانپ کسی سڑک پر یا کسی بھی جگہ صبح آزاد حالت میں دیکھوں۔ میری یہ خواہش صرف دو دفعہ پوری ہوئی اور دونوں دفعہ میں ماڈل ٹاؤن میں رہتا تھا۔ ایک دن صبح اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر برآمدے میں آیا تو ایک مردہ سانپ کو دیکھا، جو بہت زخمی حالت میں تھا۔ وہ میرے کمرے میں داخل ہونے کے بالکل قریب تھا جب اُس کے زخموں نے اُسے وہیں روک لیا اور وہ اندر نہ آ سکا۔ دوسری بار میں نے سانپ نہیں اژدھا دیکھا۔ میں اپنے گھر سے دلدار کے کھوکھے کی طرف سائیکل پر جا رہا تھا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی کی وسیع و عریض کوٹھی میں سے نکلتے ایک موٹے تازے اژدھے نے میرے دیکھتے ہی دیکھتے پوری سڑک گھیر لی۔ اِس کے باوجود اُس کی لمبائی ختم ہونے میں نہیں آرہی تھی حالانکہ اُس کا اگلا حصہ سڑک کی دوسری طرف والی کوٹھی میں داخل ہو چکا تھا۔ میںنے سوچا کہ سائیکل اُس پر سے گزار دوں گا مگر پھر خیال آیا کہ ’’سانپ دیوتا‘‘ کی سواری پورے تزک و احتشام سے گزرنے دی جائے تاکہ ہم دونوں کی ساکھ کو کوئی نقصان نہ پہنچے!

بس یہ دو سانپ تھے جو میں نے سرِعام دیکھے ورنہ آج تک ساری عمر مداریوں کے سانپ دیکھنے میں ہی گزری۔ وہ بڑے بڑے دعوے کرکے مجمع اکٹھا کرتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ اُن کی پٹاری میں جو سانپ ہے وہ اتنا زہریلا اور جی دار ہے کہ مقابلے پر آئے بڑے بڑوں کے منہ پھیر دیتا ہے۔ مداری کے گرد زیادہ جمگھٹا نئی نسل کے بچوں کا ہوتا ہے جو مداری کی باتیں بہت اشتیاق سے سنتے ہیں اور منتظر ہوتے ہیں کہ کب سانپوں کے بادشاہ کا دیدار ہوتا ہے۔ اس دوران مداری تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کہتا ہے ’’جیب پاکٹ سے ہوشیار‘‘، جس پر وہ لوگ اپنی اُس جیب پر ہاتھ ڈالتے ہیں جس میں کچھ رقم ہوتی ہے۔ مداری کے جیب کترے کارندے جان جاتے ہیں کہ پیسے کس جیب میں ہیں اور پھر مداری کی لچھے دار گفتگو میں مگن لوگوں کی جیبیں صاف ہو جاتی ہیں اور آخر میں مداری اپنی پٹاری کھولتا ہے تو اس میں سے ایک نیم مردہ سانپ برآمد ہوتا ہے۔ کھیل ختم پیسہ ہضم!

ویسے میں آپ کو ایک عجیب بات بتاؤں، ایک بار بس میں پشاور جاتے ہوئے بس نوشہرہ رکی اور میں بھی دوسرے مسافروں کے ساتھ چائے کے کھوکھے کی طرف گیا۔ اس بات کو کم و بیش پچاس برس گزر چکے ہیں مگر وہاں بیٹھے ایک شخص کی شکل مجھے آج تک نہیں بھولی۔ اُس کی آنکھیں سو فیصد سانپ جیسی تھیں اور وہ بغیر جھپکے میری طرف دیکھے چلا جا رہا تھا۔ میں چائے پیئے بغیر واپس بس میں آگیا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ سانپ تھا اور انسان کی جون میںآ گیا تھا۔ اُس دن سے مجھے یقین ہو گیا کہ ہمارے درمیان بہت سے سانپ انسان کے روپ میں موجود ہیں۔ اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی آج تک یہ انسان نما سانپ پاکستان کے مختلف حصوں میں کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں رہے ہیں۔

ابھی گزشتہ روز سڑک پر سے گزرتے ہوئے میں نے لوگوں کا ایک ہجوم دیکھا جو ایک شخص کی چٹخارے دار باتوں اور بڑے بڑے دعوئوں میں مست نظر آ رہا تھا۔ اب بہت عرصہ سے یہ مداری سڑکوں پر نظر نہیں آتے مگر گزشتہ روز یہ تماشا ایک بار پھر نظر آیا تو میں گاڑی سے اُتر کر اس ہجوم میں شامل ہوگیا۔ یہ ایک مفلوک الحال مداری تھا۔ اس نے جیب پاکٹ سے ہوشیار کا آوازہ بھی نہ لگایا اور ایک نیم مردہ سانپ پٹاری سے نکال کر لوگوں سے داد و تحسین کی توقع کی مگر اب ایسے تماشوں سے ہم لوگوں کی تسلی نہیں1 ہوتی چنانچہ وہ بے چارہ اپنا سازو سامان سمیٹ کر مایوسی کے عالم میں وہاں سے رخصت ہو گیا تب میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ عام انسان تھا، اپنی روٹی روزی کمانے کے چکر میں تھا، اِسے کسی سانپ نما انسان کا کارندہ بننا ہوگا۔ یہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے آس پاس نظر آنے والی مخلوق کے ڈیروں پر جائے اور من کی مرادیں پائے یا میرے پاس آ جائے، اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میںخود بھی سانپ بن چکا ہوں۔

اور آخر میں یہ کہ ہمارے درمیان کچھ لوگ جعلی حریت پسند ہیں اور کچھ سچ کی خاطر اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیتے ہیں اگر آپ فواد حسن فواد کو جانتے ہیں تو ذیل میں ان کی تازہ نظم پڑھیے بلاشبہ فواد جیسے لوگ تاریخ کے اوراق میں زندہ رہتے ہیں۔

یہی وہ دن تھا ،جس دن محتسب نے جال پھینکا تھا، مری آنکھوں کے آگے لاکے،اک تحریر رکھی تھی، مجھے بس اتنا کہنا تھا،کہ جو کچھ بھی لکھا تھا، بس وہی سچ ہے، مرے کچھ چارہ گر سمجھا رہے تھے، اطاعت وقت کے حاکم کی واجب ہے، اگر میں نے نہ ان کی بات مانی تو،مرے ذمے بہت سے ان کئے اور ان سنے،جرموں کا کھاتا کھولنا ہو گا، مجھے یہ سوچنا ہو گا کہ جس تحریر پر میں، دستخط کرنے کی حامی بھر نہیں پایا،میں جس الزام کو، اک تیسرے کے نام آخر دھر نہیں پایا ، وہ میرا جرم ٹھہرے گا، فرشتے عرش سے اتریں گے، فرد جرم کے حق میں گواہی لے کے آئیں گے، تمہارے علم میں ہو گا، ہمارے شہر کا قانون ہر ایسی گواہی کو، بلا چون وچراں منظور کرتا ہے ، وہ اتنے معتبر ہیں کہ ، کوئی ان کی گواہی پر، جرح بھی کر نہیں سکتا،میں چاہے لاکھ جھٹلائوں، دلیلیں دوں، شواہد لے بھی آئوں، بس ان سب کا کہا ہر لفظ ہی، دستور ٹھہرے گا، مرے منصف کو بھائے گا، وہ منظور ٹھہرے گا، میں لمحہ بھر ٹھٹک کر رہ گیا تھا، مری آنکھوں کے آگے ، سبھی پیاروں کے چہرے آ گئے تھے، مگر پھر دور سے آواز اک آتی سنائی دی،یہی وہ کربلا ہے، جس کو تم مدت سے،تحریروں میں لکھتے آ رہے ہو،یہی وہ معرکہ حق و باطل ہے، یہی وہ اک گھڑی ،وہ ایک ساعت ہے ،جہاں انسان کی پہچان ہوتی ہے ،سو اب یہ فیصلے کی اک گھڑی، تم تک بھی آپہنچی، تو اب یہ فیصلہ تم نے ہی کرنا ہے، تمہیں اک عمر بھر آسودگی سے زندہ رہنا ہے یا پھر،امام کربلا کے قافلے کے ساتھ چلنا ہے، سو میں نے ایک لمحے میں ہی، اپنا فیصلہ ان کو سنا ڈالا، مجھے رب مکان و لامکاں نے، سچ کی حرمت کو بچانے کا، فریضہ سونپ رکھا ہے،میں ان کے جرم میں کوئی اعانت کر نہیں سکتا، مجھے تاریخ کے اوراق میں ہی، زندہ رہنا ہے، میں اپنے آپ کو برباد کرکے، مر نہیں سکتا۔