پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
9 مئی اور نائن الیون، ایک موازنہ
بڑے بے وقوف ہیں وہ لوگ جو 9مئی کو صرف ایک سیاسی سرگرمی یا اندرونی سیاست کا ایک حادثہ سمجھتے ہیں۔ 9مئی پاکستان کیلئے نائن الیون ہی نہیں بلکہ کچھ حوالوں سے اس سے زیادہ تھا ۔ نائن الیون کو امریکہ کی طاقت اور یکجہتی کی دو علامتوں یعنی ٹوئن ٹاورز (معاشی طاقت کی علامت) اور پینٹاگان(عسکری طاقت کی علامت ) کو نشانہ بنایا گیا لیکن 9مئی کو پاکستان کی یکجہتی کی علامت اور دفاع کی ضامن افواجِ پاکستان کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ شہدا کی یادگاروں کی بھی بے توقیری کی گئی۔نائن الیون کو صرف امریکی افواج کے مرکز کو نشانہ بنایا گیا تھا اور نتیجتاً امریکی قوم اکٹھی اور اپنی فورسز کے ساتھ کھڑی ہوگئی لیکن تقسیم کا کوئی منصوبہ نہیں تھا جبکہ 9 مئی کے بارے میں پاکستانی خفیہ اداروں کے مطابق اصل منصوبہ پاکستانی فوج اور قوم کو تقسیم کرنا بھی تھا۔ ادھر پی ٹی آئی کے رہنما اور ورکرز جی ایچ کیو اور کورکمانڈر ہائوس پر حملہ آور ہوئے اور ادھر امریکہ سے زلمے خلیل زاد کی ٹویٹ آئی جس میں انہوں نے آرمی چیف جنرل حافظ عاصم منیر کے استعفے کا مطالبہ کردیا ۔ یہ کارروائی ایسے دن ہوئی جب آرمی چیف جنرل عاصم منیر ملک سے باہر تھے اور ان کے آنے تک ساری صورت حال ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم کی زیرقیادت چند افسران نے قابو کی۔ دوسری طرف یہ تیاری ہوئی تھی کہ ایک بندہ سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی تقرری کے خلاف رٹ دائر کردے گا۔ سانحہ 9مئی پاکستان کیلئے نائن الیون کے مقابلے میں اس لحاظ سے بھی زیادہ سنگین تھا کہ امریکہ کے خلاف کارروائی میں القاعدہ کے غیر امریکی افراد استعمال ہوئے تھے لیکن 9 مئی کو بدقسمتی سے سب کچھ پاکستان کی ایک قومی اور اس روز تک مقبول ترین پارٹی کے ذریعے کروایا گیا، جسے پاکستان دشمن بیرونی طاقتوں کی شہ حاصل تھی۔ ہاں ایک بات دونوں میں مشترک تھی کہ جس طرح نائن الیون جیسے سانحے کی توقع امریکی نہیں کررہے تھے ، اسی طرح سانحہ 9 مئی کا بھی پاکستانی سیکورٹی فورسز کو پہلے سے کوئی اندازہ نہیں تھا بلکہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پی ٹی آئی کے بلوائی آرمی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں کی طرف رخ کریں گے۔ اس روز قومی احتساب بیورو، جو قانونی طور پر حکومت کے ماتحت ہے اور نہ پہلے سے ارادوں کو بتانے کا پابند ہے، نے عمران خان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا جس کیلئے رینجرز کو استعمال کیا گیا ۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کی طرف سے پہلے سے منظم منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ ہر لیڈر اور ہر کارکن کو پہلے سے بتادیا گیا تھا کہ جب بھی عمران خان گرفتار ہوں تو وہ فوراً سڑکوں پر نکلیں۔ پھر ہر صوبے میں مخصوص مرد و خواتین ٹائیگرز کو یہ خفیہ طور پر سمجھایا گیا تھا کہ وہ جلوسوں کا رخ فلاں فلاں کور کمانڈر کے گھر، جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی کےفلاں فلاں مراکز کی طرف موڑ دیں۔ عام کارکن اور عام لیڈروں کو اصل سازش کا علم تھا اور نہ اندازہ ۔بلکہ بیرونی سپورٹ اور سازش سے تو صرف چند افراد آگاہ تھے۔ جی ایچ کیو کے علاوہ لاہور، گوجرانوالہ، پشاور اور کوئٹہ کے کورکمانڈرز کے گھروں اور دیگر فوجی تنصیبات کی پہلے سے نشاندہی کی گئی تھی۔ یہاں تک منصوبہ بندی ہوئی تھی کہ پہلے چند خواتین جائیں گی ۔ پھر خواتین کا ایک بڑا دستہ جائے گا اور اس کے بعد ٹائیگرز اور کارکنوں کا بڑا ہجوم حملہ آور ہوگا۔ کوئٹہ کے کورکمانڈر کے گھر میں پولیس اور فوج کی فائرنگ کی وجہ سے بلوائی اندر نہ جاسکے ۔ پشاور کے کور کمانڈر کے گھر جانے والوں کو سوری پل میں روکے رکھا گیا جس کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان کو جلایا ۔ جی ایچ کیو کے اندر انہیں گھسنے نہیں دیا گیا۔ پنڈی کے حمزہ کیمپ میں بھی انہیں اندر گھسنے نہیں دیا گیا۔ اسی طرح گوجرانوالہ میں بھی وہ کامیاب نہ ہوسکے لیکن غفلت یا سازش ہوئی تو صرف لاہور میں ہوئی اور چونکہ عسکری قیادت معاملے کی سنگینی سے واقف ہے اس لئے اگلے ہی دن لاہور کے کورکمانڈر کو فوج سے فارغ کردیا گیا۔ سانحہ 9مئی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی تنہا آرمی چیف اپنے حکم سے بھی کرسکتے تھے اور آرمی ایکٹ کے تحت انہیں یہ تمام اختیار ہے لیکن سازش اتنی گہری اور عالمی تھی کہ فیصلے کورکمانڈرز میٹنگ میں ہوئے۔ جو شواہد سامنے رکھے گئے اس کے بعد کوئی اختلافی نقطہ نظر سامنے نہیں آیا۔ اتنے سخت الفاظ کی آئی ایس پی آرکی پریس ریلیز بھی کبھی دیکھنے کو نہیں ملی۔ جس میں کہا گیا ہے کہ’’جو کام ملک کے ابدی دشمن 75 سال میں نہ کرسکے وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا ایک سیاسی لبادہ اوڑھے ہوئے گروہ نے کر دکھایا “۔ پی ٹی آئی کی قیادت لاکھ چاہے،اس کے نتائج بھگتنے سے نہیں بچ سکتی کیونکہ تمام کورکمانڈرز کے متفقہ فیصلے کے آگے کے الفاظ یوں ہیں کہ ”جو سہولت کار ، منصوبہ ساز اورسیاسی بلوائی ان کارروائیوں میں ملوث ہیں ان کی شناخت کر لی گئی ہے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی اور یہ تمام شرپسند عناصر اب نتائج کے خود ذمہ دار ہونگے‘ فوجی و ریاستی تنصیبات اور املاک پر کسی بھی مزید حملے کی صورت میں شدید ردعمل دیا جائے گا“۔ یعنی سزا صرف سیاسی بلوائیوں کو نہیں دی جائے گی بلکہ سہولت کاروں اور منصوبہ سازوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ زلفی بخاری جیسے لوگ ملک سے بھاگ گئے ۔ فواد چوہدری ، خسرو بختیار اور چوہدری وجاہت جیسے جو لوگ ان جملوں کے معانی اور نتائج کو جانتے ہیں،اس لئے انہوں نے پی ٹی آئی چھوڑنے میں دیر نہیں لگائی جبکہ جو سادہ لوح اسے صرف پاکستان کا اندرونی سیاسی کھیل یا ایک روز کا سیاسی حادثہ سمجھتے ہیں وہ ابھی تک جڑے ہوئے ہیں۔ یہ مقابلہ اب دو سیاسی قوتوں کا نہیں بلکہ ریاست پاکستان اور پی ٹی آئی کے مابین ہے کیونکہ کورکمانڈرز میٹنگ کے بعد وزیراعظم کی زیر صدارت کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں ایئرفورس اور نیوی کے سربراہان کے علاوہ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل ساحر شمشاد بھی موجود تھے ۔ پھر اس تجزیے اور فیصلے کی توثیق وفاقی کابینہ نے بھی کردی۔ اسلئے اس معاملے میں اب نہ مصالحت ہوسکتی ہے اور نہ ایک فرد یا چند افراد اسے ریورس کرسکتے ہیں ۔ اب یہ ریاست اور پی ٹی آئی کا براہ راست ٹکرائو ہے اور خود عمران خان نے بطور وزیراعظم ٹی ایل پی کے احتجاج کے وقت قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ خبردار ! ریاست سے مت ٹکرانا۔ دوسروں کو نصیحت کرتے ہوئے اب وہ خود بیرونی اشارے اور شہ پر ریاست سے ٹکرائے ہیں تو آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ ان کی پارٹی اور خود ان کا انجام کیا ہوگا؟۔ واضح رہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ نے مبینہ ذمہ داروں اور سہولت کاروں کیلئے ملٹری کورٹس (جس تک نہ میڈیاکی رسائی تھی اور نہ کسی عدالت میں ان کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی جا سکتی تھی) گوانتاموبے میں قائم کیں اور تفتیش کے دوران واٹربوٹنگ تک جیسے انسانیت سوز مظالم ڈھائے بلکہ افغانستان کو بھی تاراج کیا۔ یوں امریکہ کے پاس 9مئی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے خلاف ریاست پاکستان کی کارروائیوں کے بارے میں چیخ و پکار کا کوئی جواز ہے اور نہ اس پر ریاست پاکستان کوئی دھیان دے گی۔