سیلاب سے ملک بھرمیں 7 لاکھ سے زائد مویشی ہلاک

لاہور: ملک بھر سیلاب اوربارشوں سے ابتک سات لاکھ 28 ہزار سے زائد مویشی ہلاک ہوچکے ہیں اوراس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔

بلوچستان میں سب سے زیادہ 5 لاکھ ، پنجاب میں 2 لاکھ، خیبرپختونخواہ میں 9 ہزارکے قریب جبکہ سندھ میں 15 ہزارسے زائد مویشی ہلاک ہوئے ہیں، پراگریسوفارمز کے مطابق مویشیوں کی ہلاکت سے ملک میں گوشت ،دودھ، دہی اوردودھ سے تیارہونیوالی مصنوعات کی قلت پیداہوتی جارہی ہے۔

ملک بھرمیں جہاں ایک طرف لمپی سکن کی وبا سے لاکھوں مویشی ہلاک ہوچکے ہیں وہیں اب سیلاب اوربارشوں سے بڑے پیمانے پرمویشیوں کی اموات ہوئی ہیں۔

نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے ) کے مطابق 14 جون سے 28 اگست تک ملک بھر کی ڈسٹرکٹ انتظامیہ کی طرف سے موصول ہونیوالے اعداد وشمار کے مطابق ابتک 7 لاکھ 27 ہزار144 مویشی ہلاک ہوچکے ہیں۔ بلوچستان میں 5 لاکھ سے زائد، خیبرپختونخواہ میں 8 ہزار 771، پنجاب میں دولاکھ تین ہزار اورسندھ میں 15 ہزارسے زائد مویشی ہلاک ہوئے ہیں۔

پنجاب لائیوسٹاک کے ترجمان ڈاکٹرآصف رفیق نے بتایا کہ پنجاب میں سب سے زیادہ راجن پور میں دولاکھ 667 مویشی ہلاک ہوئے ہیں، ڈیرہ غازیخان میں ایک ہزار784، میانوالی میں 331 جبکہ لیہ میں 5 مویشیوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ امدادی اداروں کی معاونت سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے ابتک 7 ہزار 759 جانوروں کو ریسکیوکیاگیا ہے ،ڈھائی سوکے قریب جانور خیموں میں مقیم خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ اسی طرح ایک لاکھ 87 ہزار سے زائد چھوٹے ، بڑے مویشیوں کی ویکسی نیشن کی جاچکی ہے۔

لائیوسٹاک حکام کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مویشیوں کے اندرمنہ ،کھر اورپیٹ کی بیماریاں پھیل سکتی ہیں تاہم لائیوسٹاک کا عملہ اس حوالے سے موبائل ڈسپنسریوں کے ساتھ متاثرہ علاقوں میں موجود ہے

مالی سال 2021-22 کے اقتصادی سروے کے مطابق لائیو سٹاک کا شعبہ پاکستان کی زرعی ویلیو ایڈڈ مصنوعات کا 61 فیصد حصہ ہیں جبکہ پاکستان کے مجموعی جی ڈی پی میں لائی سٹاک کا حصہ 14 فیصد ہے۔ پاکستانی کی دیہی آبادی کے 80 لاکھ خاندان مویشی پالتے ہیں۔ ان کی آمدن کا 35 سے 40 فیصد حصہ مال مویشی سے حاصل ہونے والی آمدن سے حاصل ہوتا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران اگرچہ لائیو سٹاک کے شعبہ میں تین فیصد تک بہتری آئی تھی اور مختلف صوبائی حکومتوں کی جانب سے اس شعبہ کے فروغ کے لیے اقدامات بھی کیے جا رہے تھے۔

پراگریسوفارمرعامرحیات بھنڈارانے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا سیلاب اوربارشوں سے مویشیوں کی ہلاکت حکومتی اداروں کے اعدادوشمارسے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ مویشی کی ہلاکت اورسیلانی پانی میں بہہ جانے کے کئی واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوپاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مویشیوں کی ہلاکت اورفصلوں کی تباہی سے ایسے خاندان جن کی زندگی کا گزربسرصرف مویشیوں کے دودھ اورگوشت سے حاصل ہونیوالی آمدنی پر ہے ان کی معاشی حالت مزید ابترہوجائیگی بلکہ اس سے ملکی معیشت کو بھی دھچکا لگے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک بھرمیں گوشت ،دودھ ، دہی اوردودھ سے بنی مصنوعات کی قلت پیداہونا شروع ہوگئی ہے۔ انہوں نے امدادی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ جہاں انسانوں کی خوراک کے لئے راشن مہیا کررہے ہیں وہیں مویشیوں کے چارے کا بھی انتظام کیا جائے۔

ڈیری اینڈ کیٹلز فارمنگ ایسوسی ایشی کے مطابق اس وقت پاکستان میں آٹھ کڑور سے زائد گائیں بھینسیں جن کی مالیت 16000 ارب سے زائد بنتی ہے اور یہ ملک کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ان سے روزانہ پاکستان کو 13 کڑور لیٹر دودھ فراہم ہوتا ہے جس کی مالیت 13 ارب یومیہ جبکہ 4745 ارب سالانہ بنتی ہے۔ حکومتی تخمینوں کے مطابق ملک کے مجموعی لائیو سٹاک کا 70 فیصد حصہ پنجاب سے ہے اور جانور پالنے والوں کا 85 فیصد چھوٹے فارمرز جن کے پاس دو سے 10 تک مویشی ہیں