کوہ نورہیرا کسی بادشاہ یا شہزادے کو راس نہیں آتا

رواں ہفتے کے آغاز میں برطانوی شاہی محل کی جانب سے شاہ چارلس سوم میں کینسر کی تشخیص کا اعلان کیا گیا تو تاج میں جَڑے ہوئے کوہ نور کے حوالے سے افسانوی کہانی ایک بار پھر گردش کرنے لگی کہ یہ ہیرا کسی بادشاہ یا شہزادے کو راس نہیں آتا۔

کوہ نور کا شمار دنیا کے متنازع ترین ہیروں میں ہوتا ہے۔ یہ ہیرا کئی صدیوں تک معرکہ آرائیوں اور سازشوں کا موضوع بنا رہا ہے اور مغل شہزادوں، ایرانی جنگجوؤں، افغان حکمرانوں، پنجابی مہاراجوں اور برطانوی بادشاہوں کے قبضے میں رہا ہے۔

105.6 قیراط وزنی یہ قیمتی پتھر 19 صدی کے وسط میں برطانویوں کے ہاتھ آیا تھا۔

کوہ نور سے متعلق مشہور ہے کہ یہ ہیرا ایک ایسا پتھر ہے جس بادشاہ یا شہزادے کے پاس بھی رہا وہ برباد ہوا۔

کوہ نور سب سے پہلے مغل بادشاہ کو 1628 میں ملا تو انہوں نے اسے یاقوت اور زمرد کے ساتھ اپنے تاج میں نصب کرنے کا حکم دیا۔ ان کی تخت نشینی میں 7 برس لگ گئے تھے۔

1739 میں جب نادر شاہ اسے اپنے ساتھ لے گئے تو کچھ ہی سالوں بعد ان کا قتل ہو گیا۔ وہاں سے یہ ہیرا افغانستان کے راجہ احمد شاہ ابدالی کے قبضے میں آیا بعد ازاں یہ ہیرا مختلف معرکوں میں راجاؤں کے ہاتھ لگتا گیا یک بعد دیگر سلطنت ختم ہوتی گئیں اور بالآخر کوہ نور دوبارہ بھارت پہنچ گیا۔

پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ مختلف تہواروں کے موقعوں پر اسے اپنے بازو پر باندھتے تھے۔ ان کی موت کے بعد انگریز جب سکھوں پر غالب آئے تو گلاب سنگھ نے کوہ نور ہیرا دلیپ سنگھ سے لے کر سر ہنری لارنس کو دیا۔ پھر1850 میں لارڈ ڈلہوزی نے ملکہ وکٹوریہ کی خدمت میں پیش کیا تب سے آج تک یہ قیمتی ہیرا برطانیہ کے قبضے میں ہے۔ برطانوی قبضے میں آنے کے بعد 1857 میں بغاوت چھڑگئی اور ایسٹ انڈیا کمپنی تباہ ہوگئی۔

تاریخ میں یہ ہیرا صرف ملکہ کو ہی راس آیا ہے، ملکہ وکٹوریہ اسے شاز و نادر اپنے بروچ میں پہنتی تھیں بعدازاں 1937 میں پہلی بار ملکہ الیگزینڈرا نے اسے اپنے تاج میں جڑوایا تھا۔

ا953 میں ملکہ الزبتھ دوم کی تاج پوشی کے وقت یہ ہیرا ان کے تاج میں نصب تھا جن کی وفات 2022 میں ہوئی۔

ان کی وفات کے بعد کوہ نور شاہ چارلس سوم اور ملکہ کیملا کے تاج کا حصہ ہے۔

اگرچہ 756 قیراط کے اس ہیرے کی گاہے بہ گاہے تراش کے بعد اب یہ صرف 105.6 قیراط کا رہ گیا ہے۔ تاہم ہاؤس آف ونڈسر میں تاج برطانیہ میں مزین یہ ہیرا اب بھی دنیا کا بیش قیمتی ہیرا کہلاتا ہے۔