پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
ملتان اور سیاسی قحط الرجال …(2)
راوی نہایت ہی معتبر ہے تاہم بات کیونکہ اس عاجز تک اس راوی کے بیاں کے ذریعے پہنچی ہے لہٰذا اسے ازروئے قاعدہ مبینہ لکھ رہا ہوں۔ جب چیئرمین فوڈ کی دست درازیاں بہت بڑھ گئیں اور وہ معاملات جو پہلے درونِ خانہ تک محدود تھے ان کی بازگشت سارے شہر میں پھیلنے کے بعد خبروں تک پہنچ گئی تو موصوف کوکنٹرول کرنے کی غرض سے لاہور میں بیٹھے ہوئے محکمہ فوڈ کے ایک بڑے انتظامی افسر نے خانوادۂ قریشی کی فرمائش پر لگایا ہوا محکمے کا ضلعی افسر تبدیل کیا تو برخوردار نے رو دھو کر ابا جی سے کہہ کہلوا کر اس افسر کو دوبارہ تبدیل ہونے سے بچا لیا۔ بعد میں جب ملبہ پڑنے لگا تو برخوردار نے ایک بہت اہم شخص کو بڑے شد و مد سے یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ محکمہ فوڈ کے اس کرپٹ ضلعی افسر کا تبادلہ تو اس نے خود کروایا تھا البتہ بزرگوار نے یہ تبادلہ رکوایا تھا۔ یعنی نوجوان نے اس قضیے اور بدنامی بھرے معاملے کا سارا ملبہ بزرگوار پر ڈال دیا۔ قحط الرجال کا یہ عالم ہے کہ سابقہ ویلڈر بذریعہ فوڈ ڈیپارٹمنٹ کی چیئرمینی‘ اب نامور سیاسی لیڈر ہے اور اس کی پریس کانفرنس کی کوریج کیلئے زمانہ موجود تھا اور اس کے سیاسی مستقبل کے بارے میں بھاشن سن رہا تھا۔
ادھر ملتان کے ایک اخبار کے بیک پیج پر گزشتہ کئی ہفتوں سے بلاناغہ دو کالمی خبر دکھائی دیتی ہے اور یہ خبر پاکستان تحریک انصاف حقیقی نامی کسی سیاسی جماعت کے قومی چیئرمین کی جانب سے ہوتی ہے۔ موصوف اخبارات میں ان روزانہ والی خبروں کے علاوہ شہر بھر میں مختلف جگہوں پر لگے ہوئے پینا فلیکسز پر بھی مسکراتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ میں صبح خبر پڑھ کر اور سارا دن شہر کے مختلف چوکوں اور سڑکوں پر لگے ہوئے راؤ محمد یاسر کے رنگین پینا فلیکس دیکھ کر سوچتا ہوں کہ ہم ملتان والوں کا مقدر بھی کس قدر خراب ہے کہ ہم راہ چلتے ہوئے بھی ان لوگوں کی تصویروں کے سائے تلے سے گزرنے پر مجبور ہیں جن پر زمینوں پر قبضہ کرنے کی درجن سے زائد ایف آئی آر درج ہوئی تھیں اور تب حوالات سے جلد واپسی بھی اس لئے ہو گئی تھی کہ حکومت پی ٹی آئی کی تھی اور موصوف تب پی ٹی آئی کے ضلعی یوتھ ونگ کا صدر تھا۔اگر میں بھول نہیں رہا تو موصوف پر زمینوں پر قبضے کرنے کے غالباً سترہ پرچے ہوئے تھے اور اسے حوالات کی ہوا بھی کھانا پڑی تھی؛ تاہم موصوف کے پراپرٹی کے کاروبار میں مبینہ انویسٹر جاوید وڑائچ جو پی ٹی آئی کا ضلعی صدر ہے اس کی پشت پر تھا اور اس کی پشت پر ہمارے پیارے شاہ محمود قریشی کا ہاتھ ہے۔ قارئین! یہ محض اتفاق ہے کہ اس دوسری شخصیت کے پیچھے بلاواسطہ نہ سہی بالواسطہ ہی سہی‘ خانوادۂ قریشیاں کی پشت پناہی نکل آئی ہے۔ موصوف کے بارے میں سارے شہر کو علم ہے کہ یہ شخص شاہ محمود قریشی کے خرچے والے معاملات کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ اس سے خدانخواستہ میری یہ مراد ہرگز نہیں کہ شاہ محمود قریشی کے مالی معاملات گڑ بڑ ہیں بلکہ موصوف ان کے لیے خیر مقدمی بینرز‘ تہنیتی اشتہارات‘ الیکشن کے پوسٹرز اور چھوٹے موٹے اجتماعات پر اپنی مالی خدمات پیش کر دیتا ہے۔ مجھے خوش گمانی ہے کہ وہ یہ کام ضرور شاہ محمود قریشی کے کہے بغیر کرتا رہتا ہے تاہم ہر طرف مشہوری یہی ہے۔
پی ٹی آئی یوتھ ونگ کے (سابقہ) صدر کا پراپرٹی کا بزنس ہے۔ میں نے پی ٹی آئی یوتھ ونگ کے صدر کو سابقہ اس لئے لکھا ہے کہ وہ نو مئی کے واقعات کی پرزور مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے مقابل بنائی گئی اپنی ذاتی سیاسی پارٹی پاکستان تحریک انصاف حقیقی کا قومی صدر ہے۔ ہاں البتہ اس کا پراپرٹی کے کاروبار میں مبینہ انویسٹر خالد جاوید وڑائچ جو 2018ء میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر صوبائی حلقہ پی پی 211ملتان۔I سے امیدوار تھا اور اسے یہ ٹکٹ شاہ محمود قریشی نے بہت زور لگا کر دلوائی تھی۔ پی پی 211ملتان کے دیہاتی علاقے پر مشتمل صوبائی حلقہ ہے اور اس حلقے میں ذات برادری اور مقامی ہونے کی بڑی اہمیت ہے جبکہ موصوف کا اس حلقے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا مگر محض شاہ محمود قریشی کے زور پر اس حلقے سے ٹکٹ حاصل کر لیا۔ وہ اس نشست پر سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے سید علی حیدر سے بارہ ہزار ووٹوں کے مارجن سے ہار گیا۔ 2018 کے الیکشن میں ملتان کے تیرہ صوبائی حلقوں میں سے پی ٹی آئی دس حلقوں میں جیتی تھی اور صرف تین حلقوں میں ہاری تھی جن میں ایک یہ حلقہ پی پی 211 بھی شامل تھا۔
اب خدا جانے کیا بنتا ہے اور آئندہ الیکشن میں ٹکٹوں کی کیا صورت حال بنتی ہے کیونکہ ابھی پریس کانفرنسیں جاری ہیں اور گرفتاریوں کا موسم بھی ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ اوپر سے لوگوں کے کاروبار اور ذرائع آمدنی کے پیچ کسے جا رہے ہیں اس لئے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ ہولڈر کون ہوگا اور کون نہیں۔ ابھی چند روز قبل لودھراں سے پی ٹی آئی کے سابقہ ایم این اے میاں شفیق آرائیں اور اس کے بھائی کا پٹرول پمپ سیل کر دیا گیا ہے اور صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ ہولڈر میجر (ر) عزت جاوید کا پولٹری فارم نقشہ منظور نہ ہونے کے جرم میں سیل کر دیا گیا ہے؛ تاہم 9مئی والے واقعہ سے پہلے پنجاب اسمبلی کے متوقع انتخابات کیلئے جو ٹکٹ اناؤنس ہوئے تھے ان میں ملتان کے حلقہ پی پی 211کا ٹکٹ پھر خالد جاوید وڑائچ کو دیا گیا تھا۔ اب فی الحال صورتحال یہ ہے کہ مبینہ انویسٹر پی ٹی آئی کا ضلعی صدر ہے اور کارندہ تحریک انصاف حقیقی کا چیئرمین ہے۔ اس متحارب سیاسی صورتحال میں پی ٹی آئی کے نام کو اپنے مذموم مقاصد میں استعمال کرنے والا شخص کسی بھی ایسے بندے کیلئے قابلِ قبول نہیں ہو سکتا جو ابھی تک تحریک انصاف کے ساتھ کھڑا ہوا ہے لیکن مزے کی بات ہے کہ دو مختلف سیاسی انتہاؤں پر کھڑے ہوئے ”لیڈر‘‘ قوم کو بیوقوف بناتے ہوئے اپنی پارٹنر شب خوب نبھا رہے ہیں۔
عزت جاوید کے نقشہ پاس نہ کروانے کی پاداش میں سیل ہو جانے والے پولٹری فارم سے یاد آیا کہ ملتان میں بننے والے آدھے پلازے اور اَسی فیصد دکانیں کسی منظوری کے بغیر یا پاس شدہ نقشے سے ہٹ کر بنی ہوئی ہیں مگر کسی محکمے کو شہر میں ہونے والی بے ہنگم تعمیرات کی رَتی برابر فکر نہیں اور کھیتوں میں بنے ہوئے پولٹری فارم کے نقشے کی فکر لگی ہوئی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ سیاسی میدان میں سے ایک منصوبے کے تحت پی ٹی آئی کے اخراج سے جو جگہ خالی ہو رہی ہے اسے بھرنے کیلئے جس قسم کے لوگ بھیس تبدیل کر کے آ رہے ہیں ان کو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ گڑھے سے مٹی نکال کر اسے کوڑا کرکٹ سے بھرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پریس کانفرنسوں کے طفیل پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو پُر کرنے کیلئے جس قسم کا متبادل مال مارکیٹ میں آ رہا ہے اسے دیکھ کر قحط الرجال کا خیال آتا ہے۔ جن لوگوں کی لوٹ مار کے قصے شہر بھر کی محفلوں میں چسکے لے کر سنائے جاتے تھے وہ حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی پارٹی بدل کر نئی شناخت کے ساتھ قوم پر مسلط ہونے کے لیے منتظر ہیں۔ ویسے تو اب ایک عرصے سے ہر جگہ اور ہر شعبے میں ناقص مال آ رہا ہے‘ کیا بیورو کریسی اور کیا استاد‘ کیا ڈاکٹر اور کیا قانون دان۔ سب جگہ Brain Drain نے بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے مگر اس ملک کے سیاسی اُفق پر جو نئے ستارے چمکنے کے امیدوار ہیں ان کو دیکھ کر دکھ بھی ہوتا ہے اور خوف بھی آتا ہے۔ اللہ جانے ہماری آزمائش کب ختم ہوگی اور اس قوم کو اس قحط الرجال سے نجات ملے گی۔ ہم شاید کسی رجلِ رشید کی امید میں ہی اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔(ختم )