اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی

عام انسانوں کی طرح مجھ میں بھی بہت سی خرابیاں ہیں اور ان میں سے ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ میں کافی پینے کا شوقین ہوں۔ میں شوقین ضرور ہوں مگر بہرحال عادی ہرگز نہیں۔ اس کا اندازہ آپ یوں لگا لیں کہ اس کے بغیر کئی دن بڑے مزے سے گزار لیتا ہوں اور کبھی کبھار تو بالکل بلاوجہ دوچار دن کیلئے کافی پینا ترک کر دیتا ہوں۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ میں ”کیفین‘‘ کا بہرحال Addict نہیں ہوں۔ اسے آپ چسکا سمجھ لیں‘ عیاشی کہہ لیں یا تفریح قرار دیں مجھے ان ساری باتوں سے اتفاق ہوگا۔ دن کو دوستوں کے ساتھ کافی پینا میرے نزدیک چسکا لینے اور رات کو کافی پینا عیاشی کے زمرے میں آتا ہے۔
میرے دو عدد دوست ہیں جو گالف کھیلنے کے بڑے شوقین ہیں اور گالف کلب کے ممبر ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ مجھے گالف میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں‘ ایک دن مجھ سے کہنے لگے کہ آپ گالف کلب کے ممبر بن جائیں۔ میں نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے مجھے گھیرنے کیلئے نہایت ہی شاطرانہ چال چلی اور کہنے لگے وہاں کافی بڑی مزیدار ملتی ہے اور دوستوں کے ساتھ شام کو کافی پینے کا اپنا ہی مزہ ہے اوپر سے ماحول بڑا شاندار ہوتا ہے۔ ان کا داؤ کاری ثابت ہوا اور میں نے گالف کلب کی ممبر شپ کیلئے اپلائی کر دیا۔
چند روز کے بعد دو سفید کپڑوں میں ملبوس افراد مجھے ملنے دفتر پہنچ گئے۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ گالف کلب میں میری درخواست کے سلسلے میں پوچھ تاچھ کیلئے آئے ہیں۔ دوچار ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد پوچھنے لگے کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ میں نے بتایا کہ میں کالم لکھتا ہوں۔ پوچھا کہ کس قسم کے کالم لکھتے ہیں ؟ میں نے کہا: ہر قسم کے موضوع پر لکھتا ہوں۔ سیاست‘ ماحولیات‘ تعلیم‘ کتاب‘سیر و سفر اور معاشرتی مسائل پر لکھتا ہوں۔ اگلا سوال کیاکہ آپ سیاست میں کس پارٹی کے حامی ہیں؟ میں نے کہا: میں کالم نگار ہوں کوئی سیاسی کارکن نہیں کہ کسی پارٹی کا نمائندہ بن جاؤں۔ میں اس ملک میں جمہوریت کا حامی ہوں۔ ایسی جمہوریت جو اس ملک میں عوام کی حقیقی نمائندگی کی بنیاد پر آئے اور آئین و قانون کی پاسداری کرے۔ دونوں اصحاب کا رنگ تھوڑا سا تبدیل ہو گیا۔ انہوں نے تین چار مزید سوال کئے مگروہ سوالات نہایت ہی بے دلی سے کیے گئے اور جلد ہی وہاں سے رخصت ہو گئے۔ کافی دن گزر گئے مگر مجھے گالف کلب کی جانب سے کوئی اطلاع نہ آئی۔ حالانکہ مجھے اپنی ممبر شپ کے مستقبل کے بارے میں اندازہ ہو چکا تھا؛ تاہم میں اس نتیجے کے سرکاری اعلان کا منتظر تھا۔ کافی دنوں کے بعد ان دوستوں سے ملاقات ہوئی اور میں نے اپنی ممبر شپ کا پوچھا تو ایک دوست مجھ سے نظریں چراتے ہوئے کہنے لگا: میں دراصل شرمندگی کے مارے آپ کو بتا نہیں رہا تھا۔ مجھے دو ہفتے قبل ہی پتا چل گیا تھا کہ آپ کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔ میں نے وجہ دریافت کی تو وہ کہنے لگا کہ انہوں نے رپورٹ کی ہے کہ آپ کو ممبر شپ دینا سکیورٹی رسک ہے۔ اس لئے آپ کی درخواست رَد کر دی گئی ہے۔
اب بندہ کہاں جائے؟ ملتان شاید پاکستان کا واحد بڑا شہر ہے جس میں عام آدمی کیلئے کوئی معقول کلب نہیں جہاں بندہ کوئی چھوٹی موٹی سپورٹس ایکٹوٹی‘ دوستوں سے گپ شپ اور شام کو کافی کی چسکیاں لے سکے۔ یادش بخیر ایک تھکا ٹوٹا شیش محل کلب تھا جو کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ کی توسیع کی نذر ہو گیا۔ ایک چناب کلب ہے جو تاش کے چند شوقین حضرات نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ بیس پچیس لاکھ کی آبادی کے شہر میں ایک بھی مناسب جگہ نہیں جہاں سپورٹس کی سہولتیں اور بیٹھنے کا ماحول ہو۔
چند روز قبل روزنامہ دنیا کے کالم نگار اور ہمارے مہربان رسول بخش رئیس نے مورخہ آٹھ نومبر 1893ء کے سول اینڈ ملٹری گزٹ کا ایک صفحہ واٹس ایپ کیا ہے جس میں ملتان میں جمخانہ کلب کا ذکر ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ اہالیانِ ملتان انگریزوں کے دور میں قائم شدہ 1893ء کے جمخانہ کلب کے ایک سو تیس سال بعد 2023ء میں بھی جمخانہ کلب کے منتظر ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اس کا فی الحال دور دور تک کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ لاہور میں کم از کم چھ سات کلب ایسے ہیں جہاں شرفاکیلئے مختلف گیمز‘ ورزش اور کھانے کے علاوہ رہائش کی سہولیات موجود ہیں۔ اسی طرح فیصل آباد کے چناب کلب سے شہر بھر کے سینکڑوں ممبران اور ان کے اہل ِخانہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سرگودھا میں بھی جمخانہ کلب ہے جو تقریباً ساری ان سہولیات سے مزین ہے جو کسی کلب میں ہو سکتی ہیں۔ یہ کلب تب کے سرگودھا کے ڈپٹی کمشنر لیاقت چٹھہ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے پہلا جمخانہ کلب گجرات میں بنایا‘ دوسرا سرگودھا میں۔ میرا سرگودھا جمخانہ کلب سے تعارف سرگودھا کے ایک دوست نے کروایا۔ سرگودھا کا چھوٹا سا سول کلب جو ویرانی کی عملی تصویرتھا آج سپورٹس‘ کلچر اور لٹریچر کے حوالے سے شہر میں ایک مرکز کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ گجرات اور سرگودھا کے بعد چٹھہ صاحب نے جنوبی پنجاب کے پسماندہ شہر ڈیرہ غازی خان میں جمخانہ کلب بنا دیا۔ کسی دوست نے بتایا کہ آج کل وہ راولپنڈی میں اپنے اسی کام میں مشغول ہیں اور عنقریب راولپنڈی میں بھی ایک جمخانہ کلب فعال ہو جائے گا۔
لیاقت علی چٹھہ کے ساتھ ایک ضلع میں اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر کام کرنے والے عرفان علی کاٹھیا نے اسی ماڈل کو آگے چلایا اور بہاولپور اور وہاڑی میں بھی جمخانہ کلب کی بنیاد رکھ دی۔ یہ دونوں کلب اب شہر کے معززین کیلئے مل بیٹھنے کی جگہ ہیں۔ میں نے ملتان میں ایسے کسی کلب کی کمی کا ذکر کیا تو اس دوست نے بھی عام پاکستانی سوچ کے مطابق اسے امیروں کے چونچلے اور اونچے طبقے کی عیاشی قرار دے دیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اگر خوشحال طبقہ اپنے ہی شہر میں کسی معقول جگہ پر بیٹھ کر گپ شپ کر لے‘ چائے کافی پی لے اور ٹینس وغیرہ کھیل لے تو اس میں عیاشی کیا ہے؟ اگروہ یہ نہ کرے تو بھی غریب کی حالت پر کیا فرق پڑ جائے گا؟ آپ اسے اس کے شہر میں سہولت نہیں دیں گے تو وہ لاہور چلا جائے گا۔ یورپ جا جا کر پیسہ خرچ کرے گا۔ اگر اس کے شہر میں کوئی ایسی ترقی ہو جاتی ہے جس میں وہ حصہ دار بن جاتا ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ کلب بنے گا تو اس میں آٹھ دس لوگ انتظامی عہدوں پر ملازم ہو جائیں گے۔ بیس تیس لوگ اس کے ریسٹورنٹ سے وابستہ ہو کر روزگار حاصل کر لیں گے۔ رہائشی کمروں کی دیکھ بھال کیلئے چار چھ لوگوں کو نوکری مل جائے گی۔ کھیل وغیرہ کے سلسلے میں دو چار دکانداروں کی روزی کا بندوبست ہو جائے گا۔ شہر میں تفریحی سرگرمیوں اور ادب کی ترویج کے سلسلے میں تھوڑی ہلچل ہو جائے گی۔ اس سے سو ڈیڑھ سو لوگوں کا بلاواسطہ یا بالواسطہ روزگار وابستہ ہو جائے گا۔ اس سرگرمی سے پیسہ امیر طبقے سے ضرورت مندوں کی طرف جائے گا۔ اس کاروباری و معاشی سرگرمی سے بے روزگاری میں اگر تھوڑی بہت کمی ہی آ جائے تو کیا حرج ہے ؟
آپ یقین کریں یہ میرے ایک دوست کا ہی نہیں‘ پاکستانیوں کی اکثریت کا مسئلہ ہے کہ بہتری کو منفی زاویہ سے دیکھتے ہوئے تنقید کے تیر چلانے ہیں۔ کسی کو خوش اور لطف اندوز ہوتے دیکھنا ہم سے برداشت ہی نہیں ہوتا۔ کوئی چیز فارغ پڑی برباد ہوتی رہے کسی کو کوئی فکر نہیں۔ جونہی آپ اس کو ہاتھ لگا کر بہتر کرنے کی کوشش کریں ہاہاکار مچ جائے گی۔ پانچ ہزار سال سے زائد عرصے سے آباد شہر کے مکین کسی نظر ِکرم کے منتظر ہیں۔ بقول میر؎
گل پھینکے ہے غیروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو اِدھر بھی