پرانا کھیل‘ نئے کھلاڑی

میرا خیال تھا نئے لوگ کچھ بہتر نکلیں گے۔ شاید اپنے ماں باپ یا رشتہ داروں سے کچھ مختلف کریں گے۔ نئی نسل کچھ نیا نہیں کرے گی تو دنیا کیسے ترقی کرے گی؟ ارتقائی عمل رک جائے گا۔ لیکن مریم نواز کے پٹرول کی قیمتیں بڑھائے جانے پر کیے گئے ٹویٹ کو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ سیاستدانوں کی اگلی نسل بھی وہیں سے اپنا کاروبارِ سیاست شروع کررہی ہے جہاں بزرگوں نے چھوڑا تھا۔ اس ٹویٹ میں وہ فرماتی ہیں کہ نواز شریف تیل کی قیمت بڑھانے کے خلاف تھے اور احتجاجاً اجلاس سے آن لائن واک آؤٹ کرگئے۔ اس ٹویٹ سے مریم نواز نے چند باتیں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے‘ ایک تو وہی پراناکھیل‘ گڈ کاپ‘ جو نواز شریف اور شہباز شریف بڑے اچھے طریقے سے کھیلتے آئے ہیں۔ اب اس کھیل میں مریم نواز کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ مریم نواز اپنے چچا اور نواز شریف اپنے بھائی کی حکومت کے سپورٹر بھی ہیں اور خود اس کی بڑی اپوزیشن بھی۔ وہ دونوں اطراف سے کھیل رہے ہیں۔ اس ٹویٹ سے ایک اور بات بھی سامنے آتی ہے کہ مریم نواز کو بھی پاکستانی لوگوں کی ذہنیت اور انٹلیکچول اپروچ پر شک ہے کہ یہ سب بیوقوف لوگ ہیں‘ وہ اس بات پر فوراً یقین کر لیں گے کہ واقعی مریم نواز اور نواز شریف ان کیلئے اس اجلاس میں لڑے کہ پٹرول ڈیزل کی قیمتیں مت بڑھائیں‘ لیکن کیا کریں کہ چھوٹے بھائی اور چچا نے ان کی بات مسترد کر دی اور بے چارے باپ بیٹی ان کا منہ تکتے رہ گئے۔ لندن سے اجلاس میں شریک بے بس نواز شریف اور تو کچھ کر نہ سکے‘ احتجاجاً اس ظلمِ عظیم کے خلاف واک آؤٹ کر گئے اور ساتھ ہی مریم نواز کو بھی کہہ گئے کہ بیٹا تم ٹویٹ کردینا کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کے اس گناہ میں ہم باپ بیٹی شریک نہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز‘ دونوں کو یقین ہے کہ ان کی اس بات پر ان کے فالوَرز یقین کریں گے اور تنقید کا رخ شہباز شریف کی طرف ہو جائے گا اور مفتاح اسماعیل پر تبرا کیا جائے گا۔ مقصد نواز شریف اور مریم نواز کو عوام کا ہمدرد بنا کر پیش کرنا ہے جبکہ شہباز شریف اور مفتاح اسماعیل کو ظالم۔
اگر آپ کویہ بچکانہ سی بات لگتی ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔ پرانے کھلاڑی یہ کام بڑی مہارت سے کرتے آئے ہیں اور ہر دفعہ مطلوبہ نتائج حاصل کیے ہیں۔ مجھے یاد ہے لندن میں 2007ء میں بینظیر بھٹو اور نواز شریف میں میثاقِ جمہوریت سائن ہو چکا تھا‘ جس میں یہ طے پایا تھا کہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کیمپ کے لیڈر یا خود وہ دونوں اداروں یا پرویز مشرف سے خفیہ ملاقاتیں نہیں کریں گے اور اگر پاکستان لوٹ کر ان میں سے کسی کی حکومت آگئی تو وہ خفیہ ملاقاتوں میں ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کر کے حکومتیں نہیں گرائیں گے۔ لیکن اُنہی دنوں بینظیر بھٹو دبئی میں پرویز مشرف اور لندن میں جنرل کیانی سے خفیہ ملاقاتیں کررہی تھیں اور ان سب ملاقاتوں کا علم نواز شریف اور شہباز شریف کو تھا۔ ان دونوں کو ان خفیہ ملاقاتوں میں اپنا فائدہ نظر آرہا تھا کہ بینظیر این آر او لے کر پاکستان جائیں گی تو ان کا راستہ بھی کھلے گا۔ وہ اس وقت گڈ کاپ بنے ہوئے تھے کہ ہم مشرف کے خلاف ہیں۔ کوئی این آر او نہیں لیں گے۔ ساری بدنامی پی پی پی کے کھاتے میں جارہی تھی۔ نواز شریف نے کبھی بینظیر بھٹو اور پی پی پی سے احتجاج نہ کیا کہ آپ ہم سے معاہدے پر دستخط کر کے کیوں خفیہ ملاقاتیں کررہی ہیں‘ کیونکہ شریفوں کو پتا تھا کہ ان کی اپنی جمہوری گڈ وِل بن رہی تھی کہ دیکھا! وہ آمر کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں لیکن بینظیر ڈیل کررہی ہیں۔وہی ہوا جس کی کیلکولیشن شریف برادرز نے کی تھی۔ بینظیر بھٹو واپس آئیں جس پر انہوں نے سعودیوں کے ذریعے مشرف پر دبائو ڈلوایا اور نواز شریف بھی سعودیوں کے جہاز پر لاہور پہنچائے گئے اور ساتھ میں کروڑوں کی بلٹ پروف لگژری گاڑی بھی سعودیوں نے تحفے میں دی۔ بدنامی پی پی پی کے حصے میں آئی جبکہ لوٹ کر شہباز شریف دس سال کیلئے پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے اور نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم۔ بینظیر بھٹو ماری گئیں‘ جو یہ ڈیل سب کے لیے کررہی تھیں۔ مشرف اور بینظیر تاریخ میں گم ہوگئے جبکہ شریف خاندان آج بھی حکمرانی کررہا ہے۔
اس طرح نواز شریف جب وطن لوٹے تو پی پی پی حکومت کے کچھ عرصہ بعد یہ خبریں سامنے آنے لگیں کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کی جرنیلوں سے ملاقاتیں ہورہی ہیں۔ یہ خفیہ ملاقاتیں اس چارٹر آف ڈیمو کریسی کے خلاف تھیں جو لندن میں سائن کیا گیا تھا۔ اس کا جواز یہ دیا گیا کہ ان کا چارٹر بینظیر بھٹو سے ہوا تھا‘ زرداری سے نہیں۔ پوچھا جا سکتا تھا کہ اگر زرداری سے نہیں تو پھر ان کے ساتھ مل کر حکومت کیوں بنا لی اور درجن بھر وزیر گیلانی صاحب کی حکومت میں کیوں شامل کروا لیے؟ اس طرح چشم فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا کہ جب نواز شریف اور شہباز شریف زرداری‘ گیلانی حکومت کے خلاف میمو گیٹ کے نام پر غداری کے مقدمے درج کرانے سپریم کورٹ پہنچ گئے اور کمیشن بنوا کر لوٹے۔ ایک دن جب یہی سوال نواز شریف سے کیا گیا کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار تو خفیہ ملاقاتیں کررہے ہیں تو وہ فوراً بھولے بن گئے اور کہا: ان کے نالج میں نہیں ہے اور اگر ملاقاتیں کی ہیں تو نہیں کرنی چاہئیں۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ نواز شریف پارٹی سربراہ ہیں اور انہیں یہ تک نہیں پتا کہ ان کی پارٹی کے دو اہم پلرز ان کے علم میں لائے بغیر ملاقاتیں کررہے تھے؟مجھے یاد ہے کہ میں نے اُس وقت بھی کالم لکھا تھا کہ اگر میاں صاحب کے علم میں لائے بغیر یہ ملاقاتیں کی گئیں تو وہ پارٹی چیئرمین کے طور پر شہباز شریف اور چوہدری نثار کو پارٹی سے برطرف کریں کہ ان کی جرأت کیسے ہوئی کہ پارٹی چیئرمین کو اندھیرے میں رکھ کر اتنے بڑے کام کریں۔ اور اگر انہیں واقعی نظر انداز کیا گیا تو نواز شریف صاحب کو خود پارٹی سے استعفیٰ دے دینا چاہیے کیونکہ پارٹی کے اہم لوگ ان سے پوچھے بغیر بڑے بڑے فیصلے کررہے ہیں جو ان کی پالیسی اور سوچ سے مختلف تھے۔ یہ تو پارٹی سے بغاوت تھی جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن میاں صاحب نے نہ چوہدری نثار اور شہباز شریف کو برطرف کیا نہ ہی خود احتجاجاً پارٹی قیادت سے استعفیٰ دیا۔
اس سیاسی کہانی سے آپ کو کیا اخلاقی سبق ملا؟ اس کہانی کا ایک ہی سبق ہے جو بار بار دہرایا جاتا ہے کہ یہ سب گڈ کاپ‘ بیڈ کاپ کا کھیل ہے۔ عوام کو اس کھیل کی جب تک سمجھ آتی ہے ان کی جیب کٹ چکی ہوتی ہے اور سیاسی جیب کترے نئی واردات ڈالنے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ بچے گھر سے سب کچھ سیکھتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک کاروباری دوست سے پوچھا کہ جب آپ ڈنر ٹیبل پر بیٹھتے ہیں تو کیا گفتگو کرتے ہیں؟ وہ ہنس کر بولا: بچوں سے پوچھتے ہیں آج کیا منافع کمایا اور جو سوچا تھا اس سے کتنا کم یا زیادہ کمایا؟ یوں بچوں کو گھر سے تربیت دی جاتی ہے کہ انہوں نے زندگی کیسے گزارنی ہے۔ اخلاقی بنیادوں پر زندگی کھڑی کرنی ہے یا مار دھاڑ کرنی ہے۔ اگر اب مریم نواز نے ڈنر ٹیبل پر اپنے باپ اور چچا سے گڈ کاپ اور بیڈ کاپ سیکھا ہے تو اس میں ان کا کیا قصور۔ انہوں نے جو کچھ سنا‘ دیکھا اور سمجھا وہی اب اپنی سیاسی زندگی میں اپلائی کررہی ہیں کہ سخت فیصلوں کی ذمہ داری خود نہیں لینی‘ ہر وقت ایک Punching Bag تیار رکھنا ہے‘ جب دل کیا اس کو مکا دے مارا۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے اس پرانے کھیل میں مریم نواز اور مفتاح اسماعیل کی نئی انٹری ہوئی ہے۔ مفتاح اسماعیل اس وقت نہ صرف نواز شریف‘ مریم نواز اور اسحاق ڈار کے لیے پنچنگ بیگ کا رول ادا کررہے ہیں بلکہ پوری پارٹی اس کام پر لگی ہوئی ہے۔ مفتاح اسماعیل کو کہتے ہیں: واردات ڈال دو‘ عوام کو کہتے ہیں: دیکھا ہم نے منع بھی کیا تھا‘وہ پھر بھی باز نہیں آیا۔