معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
مریض اور ڈاکٹر
نشاط آپا اقبال ٹائون میں ہمارے ایک ہمسایہ بلاک میں رہتی تھیں شاندار کوٹھی،ہینڈسم میاں، خوبصورت دو بچے اور خود بھی ماہ پارہ ہی تھیں ،اپنی سنجیدہ اور رکھ رکھائو کی طبیعت کی وجہ سے وہ سب کی ’’نشاط آپا‘‘ تھیں، میں نے سنا ہے انہیں یونیورسٹی کے زمانے میں بھی سب ’’نشاط آپا‘‘ ہی کہتے تھے اور انہیں آپا کہلانا اچھا لگتا تھا۔
نشاط آپا بہت رقیق القلب تھیں شروع شروع میں تو کسی کا دکھ دیکھ یا سن کر آبدیدہ ہو جاتی تھیں مگر بعد میں انہوں نے دکھی قسم کے ڈرامے بھی دیکھنا شروع کر دیئے ان ڈراموں میں ہیرو ہیروئن اتنا نہیں روتے تھے جتنا نشاط آپا روتی تھیں۔ اب ان کے سرہانے دکھی پریم نگری کے افسانوی مجموعے بھی نظر آنا شروع ہو گئے، ان کے ذوق گریہ کو دیکھ کر ان کی ایک دوست نے مصورِ غم علامہ راشد الخیری کی کتابیں بھی تحفہ میں دے ڈالیں، ان کے شوہر کے ایک دوست نے جو ہر وقت خوف خدا سے لرزیدہ لرزیدہ رہتے تھے ’’موت کا منظر‘‘ اور ’’حسن پرستوں کا انجام ‘‘ ایسی لرزہ خیز کتابیں بھی انہیں پڑھنے کے لئے دیں یہ کتابیں نشاط آپا کے ذوق گریہ کو مہمیز دینے والی تھیں چنانچہ ان کا بہت سا وقت ان کتابوں کے مطالعہ اور آنسو بہانے میں گزرتا وہ کسی جاننے والی فیملی کے کسی فرد کی وفات کا سنتی تو سب کام چھوڑ کر تعزیت کے لئے انکے ہاں پہنچ جاتیں، لوگ آہ وزاری کرتے اہلخانہ کو دلاسا دینے کی کوشش کرتے اور اہلخانہ نشاط آپا کو صبر کی تلقین کرتے نظر آتے کئی دفعہ نشاط آپا سڑک پر سے گزرتے ہوئے پورچ میں ’’پھوڑی‘‘ بچھی دیکھتیں تو کار سڑک کے کونے میں کھڑی کرکے اہلخانہ سے تعزیت کے لئے ان کے ہاں چلی جاتیں ،جب جنازہ اٹھتا تو نشاط آپا کی آہ وبکا سن کر ناواقف لوگ سمجھتے کہ یہ خاتون شاید مرحوم یا مرحومہ کی کوئی قریبی عزیز ہے اس دوران نشاط آپا نے مجالس عزا میں بھی شرکت شروع کر دی۔ مصائب اہل بیت کے ذکر پر ان کے آنسوروکے نہیں رکتے تھے، اسی طرح پوری دنیا میں کہیں کوئی تباہی ہوتی کوئی وبا پھوٹتی لوگوں کے دکھوں کی کہانیاں عام ہوتیں ملبوں تلے میتوں کو نکالنے کا منظر ٹی وی پر دکھایا جاتا تو نشاط آپا کی آنکھوں میں آنسوئوں کا سیلاب آ جاتا دیکھتے دیکھتے ان کی اس انسان دوستی کی شہرت پورے شہر میں پھیل گئی چنانچہ اگر کوئی بے سہارا شہر میں فوت ہو جاتا اور اس کی میت پر کوئی رونے والا نہ ہوتا تو فلاحی تنظیمیں نشاط آپا کو گھر سے لے جاتیں او ریوں اس بے صدا گھر سے رونے کی آوازیں آنے لگتیں۔
جب یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا گیا اور ان کا گھر، گھر کی بجائے ماتم کدہ بنتا نظر آیا بچے نظر انداز ہونے لگے گھر کا سٹم اتھل پتھل ہو کر رہ گیا، نشاط آپا کا شوہر شادی شدہ ہونے کے باوجود خود کو رنڈوا محسوس کرنے لگا ،آپا کے والدین ،بہن بھائی دوسرے عزیز واقارب سے بھی نشاط آپا کا تعلق برائے نام رہ گیا تو سب کو اس صورتحال پر شدید تشویش ہوئی چنانچہ اس مسئلے پر اہل خاندان کی میٹنگ ہوئی جس میں طے پایا کہ نشاط آپا کا غم واندوہ اب نارمل نہیں لگ رہا بلکہ نفسیاتی مسئلہ بن گیا ہے چنانچہ کسی ماہر نفسیات سے مشورہ کیا جانا چاہئے۔ شہر کے ایک بہت بڑے ماہر نفسیات سےٹائم لیا گیا اور نشاط آپا کے شوہر اپنی زوجہ کو لیکر اس کے کلینک پر گئے پتہ چلا ڈاکٹرصاحب ایک جنازے میں شرکت کیلئے گئے ہوئے ہیں بس آنے ہی والے ہیں چنانچہ تھوڑی دیر بعد وہ آ گئے نشاط آپا کے شوہر نے انہیں بتایا کہ ان کی بیگم شروع سے رقیق القلب تھیں لوگوں کا دکھ محسوس کرتیں اور ان کے مداوا کیلئے سب کچھ کر گزرتی تھیں چنانچہ پورے خاندان ہی میں نہیں پورے علاقے میں لوگ ان کی بہت قدر اور عزت کرتے تھے مگر رفتہ رفتہ ان میں تبدیلی آنا شروع ہوئی اور پھر اس کے بعد آپا کے شوہر نے پورا مسئلہ بہت تفصیل سے بیان کیا۔
اس بیان کے دوران ڈاکٹر صاحب کی آنکھیں نم ہونا شروع ہوئیں اور پھر انہوں نے دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا، انہیں بہت مشکل سے چپ کرایا گیا جب نشاط آپا کے نفسیاتی پرابلم کے حوالے سے کچھ مزید باتیں بتائی گئیں تو ڈاکٹر صاحب نے ایک بار پھر رونا شروع کر دیا اور اس بار روتے روتے ان کی ہچکیاں بندھ گئیں ڈاکٹر صاحب کیلئے جب مریضہ کے دکھ دردکا بیان برداشت سے باہر ہو گیا تو انہوں نے آپا کے شوہر کو اشارے سے خاموش ہونے کیلئے کہا اس کے بعد انہوں نے باآواز بلند گریہ شروع کر دیا اس گریہ میں نشاط آپا کی آہ وزاری بھی شامل تھی دونوں کیلئےایک دوسرے کا دکھ برداشت سے باہر تھے اس دوران کلینک کےسامنے سے ایک جنازہ گزرا تو ڈاکٹر صاحب پر ایک بار پھر گریہ طاری ہو گیا۔