پیرزادہ عطاء الحق قاسمی

انسان کو کبھی کوئی معمولی سی بات غیر معمولی خوشی دیتی ہے اور کبھی کوئی غیر معمولی بات بھی بس ایسے ہی لگتی ہے، گزشتہ روز میرے فیورٹ رائٹر مبشر علی زیدی نے واشنگٹن سے مجھے میری ایک پرانی تحریر ارسال کی جو حنیف رامے کی زیر ادارت شائع ہونے والے ہفت روزہ نصرت میں شائع ہوئی تھی۔ اس تحریر میں میرے میٹرک اور ایف اے کی کلاس کا بیان تھا۔ تاہم مجھے اتنا یاد ہے کہ 1959ء میں، میں میٹرک کا طالب علم تھا اور 1962ء میں میرا داخلہ کالج میں ہوا تھا۔ اس وقت میری عمر 79+ ہے،گویا یہ تحریر کم و بیش ساٹھ سال پرانی ہے۔ اس تحریر کی سب سے مزے دار بات یہ ہے کہ اس پر مصنف کا نام پیرزادہ عطاء الحق قاسمی ہے، جبکہ اب صرف عطاء الحق قاسمی رہ گیا ہوں۔ واضح رہے میٹرک میں میں اپنا پورا نام ’’پیرزادہ محمد عطاء الحق قاسمی امرتسری‘‘لکھا کرتا تھا۔طبیعت میں چونکہ مغالطہ اور متبادلہ بہت ہے۔ چنانچہ ’’پیرزادہ عطاء الحق قاسمی‘‘ کے نام سے شائع شدہ ساٹھ برس پہلے کی یہ تحریر مبشر علی زیدی نے مجھے ارسال کی تو مجھے غیر معمولی خوشی ہوئی، اتنی ہی خوشی جتنی اس کی بے باکانہ تحریریں پڑھ کر محسوس ہوتی ہے۔ چلئے اب اس غیر ضروری تمہید کو چھوڑیئے اور مبشر کی ارسال کردہ تحریر پڑھیں۔ افسوس اس تحریر کا عنوان کوئی نہیں ہے، عنوا ن کی جگہ یا عنوان کے طور پر صرف ’’پیرزادہ عطاء الحق قاسمی‘‘ درج ہے۔ لہٰذا براہ کرم اسی عنوان پر گزارا کریں۔

تحریر درج ذیل ہے:

یہ دوسال پہلے کی ایک شام کا ذکر ہے میں اور سعید سیر کرتے ہوئے ’’چپ سٹور‘‘ کی طرف جا رہے تھے۔ کرکٹ ہمارا موضوع گفتگو تھاکیونکہ بغیر گفتگو کے سیر کا لطف ہی نہیں آتا۔ یہی مزا لینے کیلئے ہم اس کرکٹ پر بحث کر رہے تھے۔ چنانچہ اچھا خاصا ’’سماں‘‘ بندھا ہوا تھاکہ اچانک یہ سماں ٹوٹ گیا۔ ہماری گفتگو میں بریک سی لگ گئی۔ خوف سے ہمارے چہروں کا رنگ بدلنے لگا اور ہماری ٹانگیں لڑکھڑانے لگیں۔سامنے ہمارا مرحوم دوست حبیب چلا آ رہا تھا… ہاں مرحوم… جسے مرے ہوئے تین سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔

آپ سوچ رہے ہوں گے یہ حبیب کون ہے؟ لیجئے آپ کو اس کے متعلق مختصر طور پرکچھ بتاتا ہوں۔ جب میں سکول میں پڑھا کرتا تھا حبیب میرا کلاس فیلو ہونے کے علاوہ میرا بہترین دوست بھی تھا۔ پھر آہستہ آہستہ سعید کے ساتھ بھی اس کے دوستانہ تعلقات بڑھتے گئے، نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہم تینوں دوست ہر وقت اکٹھے رہتے۔ مگر شاید تقدیرکو ہمارا یوں اکٹھا رہنا پسند نہ آیا۔ اس نے حبیب کو ہم سے ہمیشہ کیلئےجدا کر دیا لیکن اس کی یاد ہمارے دل سے نہ جاسکی، آج جب ہم نے اسے دور سے دیکھا تو ہمارے ہاتھ پائوں پھول گئے اور یہ تھی بھی حیرت انگیز بات بھلا مردہ بھی کبھی زندہ ہوا ہے ؟ اسی خیال سے ہماری ٹانگیں کانپ رہی تھیں وہ ہمارے قریب آ رہا تھا یہاں تک کہ وہ ہمارے بالکل سامنے پہنچ گیا مگر وہ حبیب نہ تھا کوئی اور تھا حبیب جیسی چال ڈھال چہرے پر متانت اور سنجیدگی اور حبیب ہی کی طرح نظریں نیچی کرکے چلتے دیکھ کر ہم اسے ہی اپنا مرحوم دوست سمجھ بیٹھے تھے وہ ہمارے قریب سے گزر گیا لیکن ہمارے دل میں حبیب کی یاد پھر سے تازہ کر گیا۔ ہمارا جی بے اختیار اس سے باتیں کرنے کو چاہا اور اس سے دوستی کی خواہش ہمارے دل میں کروٹیں لینے لگی کیونکہ اس کی شکل بالکل ہمارے عزیز دوست جیسی تھی مگر نہ اس نے ہم سے بات کی اور نہ ہم نے اسے بلانے کی جرأت کی مگر ہم اس کے بارے میں سوچتے رہے اور اس کا کھوج لگانے کی فکر کرنے لگے ،کئی دن گزر گئے اس دوران ہم نے اس کے متعلق کافی معلومات حاصل کر لی تھیں یہی کہ اس کا نام بدر ہے وہ لاہور کے ایک مشہور سکول میں دسویں جماعت کا طالب علم ہے اور وہیں بورڈنگ ہائوس میں رہتا ہے، دو مہینے کی چھٹیاں گزارنے کیلئے ماں باپ کے پاس آیا ہوا ہے، وغیرہ وغیرہ۔اس واقعہ کے ایک سال بعد جب ہمارے کالج میں فرسٹ ایئر کیلئے داخلہ کھلا تو ہم نے نئے لڑکوں کو فرسٹ ایئر فول بنانا شروع کیا اور کسی نہ کسی داخلہ لینے والے نئے لڑکے کو اپنے مذاق کا نشانہ بناتے، کسی کو کہتے آئو تمہیں داخلے کے فارم دلائیں اور اسے ساتھ لے جا کر لیٹرین میں بند کر دیتے، کسی کو اپنی کلاس میں اسے گانا سنانے پر مجبور کرتے اگر وہ کہتا ’’گانا نہیں آتا ‘‘ تو اسے کہتے ’’چلو رو کر ہی دکھا دو ‘‘ اور اس بیچارے کو مجبوراً کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا۔اسی دوران میں ایک دن جب کالج آیا تو ایک جگہ لڑکوں کو اکٹھے دیکھا، میں سمجھ گیا کہ کوئی نیا ’’مرغا‘‘ پھنسا ہو گا چنانچہ میں بھی اس نئے ’’مرغے‘‘ کو تنگ کرنے کے لئے ہجوم میں گھس گیا لیکن جب میں نے اس مرغے کو دیکھا تو میرا اپنا دل ’’مرغا‘‘ بننے کو چاہا آپ حیران ہوں گے کہ میری حالت ایسی کیوں ہو گئی تھی ۔وہ بدر تھا جو ہمارے کالج میں داخل ہونے کیلئے آیا تھا او رشیطان کے چیلوں کے ہتھے چڑھ گیا تھا ۔میں بڑی شان سے اکڑتا ہوا آگے بڑھا، تنگ کرنے والے دوستوں سے کچھ کو اشارہ کیا اور پھر اتنی گرجدار آواز میں ان کو ڈانٹا کہ وہ سب وہاں سے بھاگ گئے۔ ان کا خیال تھا کہ میں کوئی گہری شرارت سوچ رہا ہوں اگر اس اشارے کے بغیر میں ایسی حرکت کرتا تو پھر شاید آج یہاں بیٹھ کر یہ داستان لکھنے کے بجائے میو ہسپتال کے کسی وارڈ میں پڑا ہوتا ۔بدر میرا بڑا ممنون تھا اور بار بار شکریہ ادا کر رہا تھا اس واقعہ کے بعد وہ مجھے روز کالج میں ملتا یہاں تک کہ ہم ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔

اب میں، سعید اور بدر روزانہ سیر کیلئے شام کو باہر نکلتے ہیں ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں برابر کے شریک ہیں یہ سب کچھ ایک چھوٹی سی نیکی کے سبب ہوا، کبھی کبھی میں بیٹھے بیٹھے اس انوکھے ’’ملاپ‘‘ کو یاد کرتا ہوں جس نے ہمیں حبیب جیسا ایک اور دوست دے کر ہماری زندگی کا خلا پورا کر دیا۔