ٹی ٹی پی کی واپسی، ذمہ دار کون؟

سوال یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کو دوبارہ عروج کیسے حاصل ہوا ؟میرے نزدیک پہلی وجہ اس کی یہ ہے کہ جب افغانستان میں ان کے بڑے یعنی افغان طالبان نیٹو فورسز کو شکست دے کر فاتح بن کر ابھرے تو پاکستانی طالبان کا مورال بھی بلند ہوا اور ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ ہم اگر امریکہ اور نیٹو کو شکست دے سکتے ہیں تو پاکستانی فورسز سے لڑنا کون سی بڑی بات ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے چار پانچ ہزار لوگ پہلے سے افغانستان میں تھے۔ چار پانچ ہزار افغان حکومت کی جیلوں میں تھے اور جب طالبان نے جیلیں تڑوادیں تو ان سے کم و بیش اتنی ہی تعداد میں ٹی ٹی پی کے لوگ بھی رہا ہوئے جن میں مولوی فقیر محمد جیسے اہم لوگ بھی شامل تھے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر سلیپر سیلز کی صورت میں انفرادی یا گروپوں کی شکل میں ٹی ٹی پی کے جو لوگ خاموش بیٹھے تھے وہ بھی افغانستان جاکر ٹی ٹی پی سے جا ملے بلکہ مذہبی رجحان رکھنے والے ہزاروں مزید نوجوان بھی وہاں چلے گئے۔

چوتھی وجہ یہ ہے کہ پہلے ٹی ٹی پی کئی دھڑوں میں بٹ چکی تھی لیکن مفتی نور ولی کی قیادت میں وہ اکٹھی ہوگئی ۔ ایک مفتی اور پڑھا لکھا شخص ہونے کے ناطے مفتی نور ولی میں قیادت کی صلاحیت زیادہ ہے جب کہ محسود ہونے کے ساتھ ساتھ افغان طالبان سے بھی ان کی بہت قربت ہے۔

پانچویں وجہ یہ ہے کہ پہلے ٹی ٹی پی کے لوگ ڈرون وغیرہ کی وجہ سے افغانستان کے پہاڑوں میں چھپے تھے کیونکہ مولوی نیک محمد، بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، قاری حسین، مولانا فضل اللہ اور اسی طرح کے دیگر اہم کمانڈرز کسی ملٹری آپریشن نہیں بلکہ امریکی ڈرونز ہی نے مارے تھے

۔ڈرون کی وجہ سے ان کا آپس میں مل بیٹھنا اور رابطہ کرنا مشکل تھا لیکن امریکی افواج کے نکلنے کے بعد ڈرون حملوں اور گرفتاری کا خطرہ ٹل گیا اور وہ افغانستان کے شہروں میں آکر آزادانہ پھرنے اور اجلاس منعقد کرنے لگے۔

چھٹی وجہ یہ تھی کہ جہاں جہاں ٹی ٹی پی کے لوگ تھے، وہاں وہاں کا مال غنیمت افغان طالبان نے انہیں دے دیا ۔ یوں نیٹو کے چھوڑے ہوئے جدید ترین ہتھیار بھی ان کے ہاتھ آگئے جب کہ مالی وسائل بھی بہت بڑھ گئے ۔

اب سوال یہ ہے کہ ٹی ٹی پی، سوات، وزیرستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں کیسے واپس آئی اور پھر معاملات بگڑے کیوں؟اس کا جواب یہ ہے کہ ہم جیسے طالب علم التجائیں کرتے رہے کہ اب چونکہ افغان طالبان ایک تنظیم نہیں بلکہ حکومت بن گئے ہیں اور چونکہ ٹی ٹی پی ان کے تابع ہے اس لئے ٹی ٹی پی کے ساتھ جو بھی بات ہو، وہ افغان امارات اسلامی کے ذریعے کی جائے۔

افغانستان کے لئے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق کا بھی یہی مؤقف تھا، اس لئے وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے کسی عمل میں نظر نہ آئے۔

لیکن ایسا کرنے کی بجائے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو براہ راست ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی اجازت یا ہدایت دی ۔ان کی طرف سے افغان طالبان سے کہا گیا کہ وہ ٹی ٹی پی کو ہمارے ساتھ مذاکرات کے لئے بٹھائیں۔ چنانچہ عمران خان کی حکومت میں ٹی ٹی پی کی قیادت اور پاکستانی حکام آمنے سامنے ایک ٹیبل پر بیٹھ گئے۔

ان مذاکرات میں ایک تو ایک ماہ کی جنگ بندی اس شرط کے ساتھ طے پائی کہ جواب میں پاکستان ان کے ایک سو دس افراد رہا کرے گا ،جن میں سوات کے مسلم خان اور محمود خان وغیرہ جیسے اہم لوگ بھی شامل تھے۔ مہینہ پورا ہوا لیکن ان کے لوگوں کی رہائی کا وعدہ پورا نہ کیا جاسکا۔

چنانچہ ٹی ٹی پی نے مذاکرات کا سلسلہ منقطع کردیا اور افغان طالبان بھی شکوہ کرنے لگے کہ آپ لوگوں نے ٹی ٹی پی سے تو جنگ بندی کروالی لیکن اپنا وعدہ پورا نہیں کیا ۔ لہٰذا دوبارہ مذاکرات کے آغاز کے لئے ٹی ٹی پی کے سو کے قریب افراد پی ٹی آئی حکومت نے رہا کئے۔ پھر جب حکومت تبدیل ہوئی تو اس معاملے کو وفاقی حکومت کے سپرد کرنے کی بجائے بعد مبںیہ مذاکرات کور کمانڈر پشاور یا پھر پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کرتی رہی ۔

بلاول بھٹو جو پاکستان کے وزیرخارجہ ہوکر بھی نہ آج تک افغانستان گئے ہیں اور نہ ان مذاکرات کا حصہ رہے۔ مذاکرات کے لئے پختونخوا سے سرکاری ملکانان کی ٹیم مراد سعید کے نامزد کردہ وزیراعلیٰ محمود خان کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کی قیادت میں جاتی رہی لیکن نہ جنگ بندی ہوئی اور نہ مسئلہ حل ہوا۔

اب ٹی ٹی پی کے جو لوگ پاکستان آئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں بلا کر ہمارے خلاف کارروائیاں کی جارہی ہیں جب کہ حکومت اور فوج کہتی ہے کہ ایک تو کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور جو لوگ آئے ہیں، وہ ٹی ٹی پی کے نہیں تھے بلکہ یہ ہجرت کرنے والے خاندان تھے جن کی آڑ میں ٹی ٹی پی والے بھی آگئے جب کہ انہیں پرامن رہنے کی شرط پر واپسی کی اجازت دی گئی تھی۔

اب نہ جنگ بندی ہے اور نہ علانیہ مذاکرات ہورہے ہیں چنانچہ وزیرستان اور سوات میں ایک بار پھر ٹی ٹی پی نے اپنی کارروائیاں شروع کردیں اور سیکورٹی فورسز نے ان کے خلاف۔

دوسری طرف چونکہ لوگوں نے ٹی ٹی پی کے رہنمائوں کے ساتھ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے جرگوں کے شرکا کی کابل کے ہوٹلوں میں سیلفیاں اور تصاویر دیکھیں اس لئے پختونخوا اوربالخصوص سوات کا عام آدمی یہ سازشی تھیوری پیش کررہا ہے کہ ان لوگوں کو ہماری اسٹیبلشمنٹ نے جان بوجھ کر واپس بلایا ہے جب کہ دوسری طرف کوئی دن ایسا نہیں گزرتاکہ جب سیکورٹی فورسز ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کررہی ہو ںیا

سیکورٹی فورسز کے خلاف ٹی ٹی پی کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہورہی ہو۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ، وزیر خارجہ اور وزیرداخلہ اس معاملے سے یکسر لاتعلق ہیں جب کہ دوسری طرف اب پی ٹی آئی کے رہنما اندرونی سیاست کی وجہ سے فوج پر الزام لگارہے ہیں کہ اس نے جان بوجھ کر طالبان کو بلایا۔ پی ٹی آئی فوج اور ایجنسیوں کے خلاف پی ٹی ایم کے مقابلے میں دس گنا زیادہ سازشی تھیوریاں عوام کے ذہنوں میں بٹھارہی ہے۔

دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ علاقے میں صرف ٹی ٹی پی نہیں بلکہ داعش بھی سرگرم عمل ہے جبکہ اس سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ سوات اور وزیرستان کے حالات کی فکر کرنے کی بجائے پختونخوا حکومت کے حکام عمران خان کے جلسوں یا پھر اسلام آباد مارچ کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔

مثلاً وزیراعلیٰ محمود خان کا ہیلی کاپٹر عمران خان تانگے کی طرح جلسوں کے لئے استعمال کررہے ہیں لیکن گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران اسی ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر وہ ایک مرتبہ بھی اپنے حلقے سوات نہیں گئے۔ ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہئے؟