سائنسدانوں کی پہلی بار خلا سے شمسی توانائی کو زمین پر بھیجنے میں کامیابی

سائنسدانوں نے پہلی بار خلا سے شمسی توانائی کو زمین پر بھیجنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

اس مقصد کے لیے ایک نئی ٹیکنالوجی ڈیوائس اسپیس سولر پاور ڈیمونیسٹریٹر کو استعمال کرکے سورج کی توانائی کو زمین پر منتقل کیا گیا۔

یہ پروٹو ٹائپ ٹیکنالوجی ڈیوائس ہے جسے جنوری میں زمین کے مدار میں بھیجا گیا تھا اور گزشتہ دنوں اس کے ذریعے شمسی توانائی کو زمین پر منتقل کیا گیا۔

کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کال ٹیک) نے اس ٹیکنالوجی ڈیوائس کو تیار کیا جو دیکھنے میں سولر پینل سے ملتی جلتی ہے۔

کال ٹیک کے ماہرین نے بتایا کہ یہ تجربہ یونیورسٹی کے خلائی شمسی توانائی کے پراجیکٹ کا حصہ ہے۔

اہوں نے کہا کہ اب تک کیے جانے والے تجربات کے دوران ہم نے کامیابی سے خلا سے شمسی توانائی کو زمین پر منتقل کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس تجربے کے بعد ہمیں علم ہو چکا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی ڈیوائس خلا میں کام کر سکتی ہے۔

یہ ٹیکنالوجی کیسے کام کرتی ہے؟

شمسی توانائی کو خلا سے زمین پر منتقل کرنے میں کامیابی سے کم لاگت میں توانائی کی سپلائی بڑھانے میں مدد مل سکے گی۔

خلا میں سورج کی روشنی کی شدت زمین کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہوتی ہے اور اگر زمین کے مدار میں ٹرانسمیٹرز کو مناسب مقام پر پہنچا دیا جائے تو وہ سورج کی روشنی کو مسلسل جذب کر سکیں گے۔

اس کے بعد شمسی توانائی کو زمین پر موجود اسٹیشنز پر ضرورت کے وقت منتقل کرنا ممکن ہوگا۔

کال ٹیک کے ماہرین کا کہنا تھا کہ جس طرح انٹرنیٹ سے ہر ایک کو معلومات تک رسائی ملتی ہے، اسی طرح ہمیں توقع ہے کہ اس ٹیکنالوجی سے لوگوں کو توانائی تک رسائی مل سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے زمین پر کسی قسم کے ٹرانسمیشن انفرا اسٹرکچر کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی ہم اس توانائی کو زمین کے ہر حصے میں بھیج سکیں گے۔

مگر اس منصوبے کے لیے کم وزن والے ٹرانسمیٹرز کی ضرورت ہوگی تاکہ خلا میں بھیجتے وقت ایندھن کی مقدار میں کمی لائی جاسکے۔

اسی طرح ٹرانسمیٹرز کو اتنا لچکدار بنانا ہوگا کہ وہ ایک راکٹ میں رکھے جاسکیں۔

واضح رہے کہ دیگر ممالک کی جانب سے بھی اس طرح کے منصوبوں پر کام کیا جا رہا ہے۔

چین کی جانب سے 2028 تک خلا میں ایک سولر پاور پلانٹ لگانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

برطانوی کمپنی اسپیس سولر کی جانب سے خلا میں ایک سولر انرجی اسٹیشن کی تعمیر کا منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے جس کے لیے سعودی عرب کی جانب سے مالی معاونت فراہم کی جائے گی۔