مرض اور مریض!

سبحان تیری قدرت کیسے کیسے انسان اور کیسی کیسی بیماریاں پیدا کی ہیں یعنی ہم جیسے انسان اور ’’چک‘‘جیسی بیماریاں تخلیق فرمائی ہیں ۔مجھے علم نہیں اردو میں ’’چک‘‘ کو کیا کہتے ہیں مگر یہ چیز عجیب وغریب ہے ،انسان کسی چیز کے حصول کے لئے جھکتا ہے اور جب انہی لمحوں میں سےکسی ایک لمحےمیں جب اسے چک پڑتی ہے اور پھر وہ واپس سیدھا کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہےتو کھڑا نہیں ہوپاتا چنانچہ جب تک ’’چک‘‘ نکل نہ جائے وہ کورنش بجا لانے کے آسن ہی میں دکھائی دیتا ہے ۔بہت عرصہ قبل مجھے بھی ’’چک‘‘ پڑی تھی اور ان دنوں مجید نظامی مرحوم نے مجھے ایک چھوٹی کار خرید کر د ی تھی تا کہ آئندہ میں موٹر سائیکل کے جھٹکوں سے محفوظ رہوں ،اس تجربے سے گزرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ ’’چک‘‘ کا شمار امراضِ خبیثہ میں ہونا چاہیے ۔ اس مرض کا شمار امراض ِخبیثہ میں اس لئے بھی ہونا چاہئے کہ اس کا کوئی شریفانہ علاج نہیں ہے، نہ دائیں مڑا جاتا ہے نہ بائیں مڑا جاتا ہے اور نہ سیدھا کھڑا ہوا جاتا ہے لیکن اس کا ’’پہلوانی ‘‘ علاج یہ ہے کہ کوئی ہٹا کٹا آدمی کمر کے عین درد والے حصہ پر ضربیں لگائیں مثلاً وہ مریض کو کمر پر لاد کر شدید قسم کے جھٹکے دے تا آنکہ کمر میں سے چٹاخ کی آواز آئے، اس سگنل کا مطلب یہ ہے کہ چک نکل گئی ہے مگر یہ آواز کس ظالم کو سنائی دے گی ،یہ بیچاری تو مریض کی آہ وبکاہی میں دب کر رہ جائےگی ۔دوسرا نسخہ بھی کچھ اس قسم کا ہے یعنی ماہرین چک مریض کو کسی تختے پر الٹا بچھا کر اس کی کمر پر اچھلتے کودتے ہیں تاکہ تخت یا تختہ قسم کا کوئی فیصلہ ہو سکے ۔ایک علاج یہ بھی ہے کہ چک نکالنے والا پہلوان مریض کو چند قدم چلنے کے لئے کہتا ہے جس پر یہ بچارا کبڑا عاشق تعمیلِ ارشاد میں چند قدم اٹھاتا ہے اور اس دوران پہلوان ہوری مریض کی بے خبری میں پیچھے سے اس کی کمر پر ایک زور دار لات رسید کرتے ہیں ،تاہم مجھے ان میں سے کسی ایک طریق علاج کو بھی آزمانے کا موقع نہیں مل سکا یہ سب سنی سنائی باتیں ہیں جو غالبًا مجھے DEMORALLSEکرنے کے لئے مبالغہ آمیزی کے ساتھ بتائی گئی تھیں اور شاید یہ اس دہشت ہی کا اثر تھا کہ میں نے چک نکلوانے کیلئے کسی پہلوان کےآگےزانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا بلکہ اس کی بجائے ایک حکیم صاحب کے پاس گیا حکیم صاحب اس وقت ایک لاغر مریض کو لبوب کبیر دے رہے تھے جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے ان سے حال دل کہا اور پوچھا کہ چک کا کوئی علاج ہے انہوں نے کہا ’’کیوں نہیں ‘‘ اور پھر اپنے شاگرد کو آواز دے کر کہا اوئے چھوٹے ذرا دوڑ کر جائو اور بشیر پہلوان برف والے کو بلا لائو ‘‘

ان طریقہ ہائے علاج کے علاوہ اس دوران مجھے کچھ اور ٹوٹکے بھی بتائے گئے مثلاً ایک یہ کہ جو بچہ الٹا پیدا ہوا ہو اس سے لتاڑا کروائو، ایک بہی خواہ نے بتایا کہ دو جڑواں بہنیں جو شادی شدہ ہوں اگر کسی چک والے مریض کو لتاڑیں تو چک فوراً نکل جاتی ہے میں نے پوچھا اس کیلئے شادی شدہ والی شرط ضروری ہے ؟جس پر اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس طرح کے کچھ ٹوٹکے اور بھی بتائے گئے مگر میں بوجوہ ان میں سے کسی پر صاد نہ کر سکا اور بالآخر صحت یابی ہوئی تو ایک سفید ریش ہومیو پیتھ معالج کے دست شفا سے جو اپنے مطب میں بیٹھے انتظامی کمیٹی مسجد غوثیہ سمن آباد کے نام کی رسید کاٹ رہے تھے انہوں نے لات ماری نہ گھونسے رسید کئے بس چار سفید رنگ کی پڑیاں دیں، اللہ اللہ خیر سلا۔

اس مرض کو میں نے امراض خبیثہ میں اس لئے بھی شمار کیا تھا کہ یہ مردوئی لحاظ ملاحظے کی قائل ہی نہیں نہ سوشلسٹ دیکھتی ہے نہ غیر سوشلسٹ بس جب اور جسے پڑنا ہو اسے پڑ جاتی ہے۔ یہ مرض اس لئے بھی خبیث ہے کہ اس کا نشانہ زیادہ تر شاعرہ،ادیب اور دانشور بنتے ہیں ابھی چند برس پیشتر ایک ادیب دوست انڈیا تشریف لے گئے تو ایک دوست کے مطابق انہیں وہاں چک پڑ گئی جس کے نتیجے میں وہ انڈیا میں قیام کے دوران قیام کی بجائے رکوع کی حالت میں رہے ،تاہم واپس پاکستان پہنچتے ہی وہ ٹھیک ہو گئے اور الحمدللہ وہ یہاں بالکل سیدھے ہو کر چلتے ہیں اس دوست کو تو خیر واقعی چک پڑی ہو گی جس کی وجہ سے انہیں اس تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ۔البتہ ہمارے کچھ ادیبوں کا معاملہ قدرے مختلف ہے انہیں چک پڑے یا نہ پڑے جب کبھی ہندوستان یاترا پر جاتے مسلسل رکوع کی حالت میں ہی قیام کرتے، اسی طرح کے کچھ نام نہاد ترقی پسند اور اسلام پسند دانشور بھی ہیں جنہیںہر دور حکومت میں چک پڑ جاتی ہے اور یوں ان کی ساری زندگی گردن جھکائے گزر جاتی ہے، میرے نزدیک اس طرح کے مریض لاعلاج ہیں انہیں تو کسی بشیرے پہلوان کے سپرد ہی کر دینا چاہئے کیونکہ کچھ مرض ہی نہیں بذات خود کچھ مریض بھی امراض خبیثہ ہی میں شمار کئے جانے کے قابل ہوتے ہیں چنانچہ ’’چک ‘‘کے یہ دائمی مریض گزشتہ بتیس برس سے پاکستانی قوم کو امراض ِخبیثہ ہی کی طرح چمٹے ہوئے ہیں !