کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گر…!

میں بہت کم کوئی خط اپنے کالم میں درج کرتا ہوں۔ کوئٹہ سے مگرصلاح الدین خلجی نے جو خط لکھا ہے اس سے بلوچستان کی محرومیوں کا ایک اور پہلو نمایاں ہوا ہے۔ خط ملاحظہ فرمائیں۔

محترم عطاء الحق قاسمی صاحب ، سلامتی اور خیریت ہو۔ پاکستان میں جس سائل کی کہیں نہ سنی جاتی ہو تو وہ پھر وفاقی محتسب آفس کا رخ کرتا ہے جہاں بغیر فیس کے شنوائی ہو جاتی ہےتو آپ کا کالم بھی سائلین کے لئے محتسب کا کام کرتا ہے۔ گزارش یہ ہے کہ پچھلے75برسوںسے بلوچستان کی پسماندگی اور غربت کا رونا رویا جاتا ہے اور اکثر اوقات صوبے کے دورے پر آئے حکمران ہمارے سروں پر ایسے ہاتھ پھیرتے ہیں جیسے کسی تازہ یتیم کے سر پر!۔لیکن مسئلے حل نہیں ہوتے اور نہ ہی کبھی حل کرنے کی کوئی حکمتِ عملی طے کی جاتی ہے۔شاید عجیب بات ہو اور باعثِ حیرت بھی کہ کوئٹہ کراچی شاہراہ جسے آر سی ڈی شاہراہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، دنیا کے چند خطرناک اور طویل ترین سنگل روٹوں میں شمار ہوتا ہے جو تقریباً آٹھ سو کلومیٹر طویل ہے اور سرحدی شہر چمن کواگر ملایا جائے تو ہزار کلو میٹر تک پہنچ جاتی ہے،یورپ میں اتنے فاصلے کے سفر میں شاید دس ممالک آپ کراس کرتے ہیں لیکن یہاں آپ کو امید بھی نہیں ہوتی کہ آپ خیریت سے گھر پہنچ بھی جائیں گے یا نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ کراچی شہر اور کراچی پورٹ سے لے کر افغانستان اور سنٹرل ایشیا کے ممالک تک درآمدی اور برآمدی سامان نیٹو اور اتحادی افواج کے بھاری بھر کم ہتھیاروں، ٹینکوں سے لے کر انسانی کوچوں اور سمگل شدہ آئل فیول سب اس خستہ حال روڈ کے محتاج اور مسافر ہیں۔ آئے روز حادثات ہوتے ہیں جن میں جاںبحق افراد کی تعداد ایک دو نہیں بلکہ درجنوں میں ہوتی ہے۔ ایک تو روڈ ناقابلِ استعمال اور اوپر سے ڈرائیورز اور مقامی انتظامیہ بشمول موٹر وے اتھارٹی کی غفلت جو نہ تو قانون کو بروئے کار لاتے ہیں اور نہ ہی انسانی المیوں سے سبق سیکھتے ہیں۔

ہر وفاقی اور صوبائی بجٹ میں خوشخبری دی جاتی ہے کہ اس طویل بین الاقوامی شاہراہ کو چمن سے کراچی تک دورویہ کیا جائے گا مگر نتیجہ صفر۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کا فخریہ منصوبہ سی پیک سارا کا سارا اسی روٹ پر منحصر ہے لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ جہاں پاکستان بھر میں سی پیک فنڈ سے عمارتیں، اورنج ٹرین ، آئی ٹی پارکس اور اکنامک زونز بن گئے وہیں پر یہ روڈ ویسے کا ویسا ہی رہا۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر بنایا جائے گا، لیکن مہینوں انتظار کے بعد بتایا جا تا ہے کہ اس روڈ سے مطلوبہ ٹول ٹیکس نہیں ملے گا۔ مطلب لوگوں کی جانیں ضائع ہوں وہ کوئی بات نہیں لیکن آمدنی اگر نہ ہو تو منصوبہ سرد خانے کی نذر!۔

پورے پاکستان میں جہاںگزشتہ حکومتوں نے موٹر ویز کا جال بچھا دیا ہے جس سے دنوں کا سفر گھنٹوں تک محدود ہو گیا ہے جہاں اسلام آباد کے باسی صرف چائے کا موڈ بنا کر گھنٹوںمیں شمالی علاقہ جات پہنچ جاتے ہیں، دوسری جانب ہمارے علاقے میں مریض گھر سے ہسپتال تک جاتے ہوئے رستے میں ہی جان گنوا دیتا ہے، وجہ ذرائع مواصلات کا نہ ہونا ہے۔ماضی میں اتحادی افواج نے کراچی سے قندھار تک اس شاہراہ کو استعمال کرنے کے عوض حکومتِ وقت کو اربوں ڈالر سپورٹ فنڈ کی مد میں دیئے اگر وہی فنڈ استعمال کئے جاتے تو یہ شاہراہ آج چار رویہ موٹر وے کی شکل میں ہوتی، لیکن ہوا اس کے برعکس ہی کہ ہیوی ٹرالروں کی آمد و رفت سے سڑک کی حالت پہلے سے بھی خراب ہو گئی۔

قاسمی صاحب ہمارے زخموں پر یہ کہہ کر نمک چھڑکا جاتا ہے کہ بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے لیکن یہ عجیب مستقبل ہے کہ جس کا اپنا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ریکوڈک اور سوئی کے قدرتی گیس سے لے کر خانو زئی کے کرومائٹ اور زیارت کی چیری تک سب وسائل ہونے کے باوجود ہم ہر طرح سے پسماندہ اور تنزلی کا شکار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایک عام شہری جب لاہور،پنڈی اور اسلام آباد کی ترقی اور روشنی دیکھتا ہے تو اس کے بھی وہی احساسات ہوتے ہیں جو ماضی میں مشرقی پاکستان کے شہریوں کے کراچی، لاہور، اسلام آباد آ کر ہوتے تھے اور ہم نے نتیجہ دیکھ اور بھگت لیا۔ اگرچہ کہنے کو یہ ایک شاہراہ کے بننے اور بہتر ہونے تک کی بات ہے لیکن انٹرنیٹ کے اس دور میں جو عناصر اس محرومی کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں وہ باآسانی نوجوانوں یہاں تک کے خواتین کوبھی برین واش کرکے استعمال کرلیتے ہیں۔ آپ محترم سے گزارش ہے کہ این ایچ اے حکام اور متعلقہ وزیر سے درخواست کریں کہ وہ ایک مرتبہ خود اپنے بال بچوں سمیت کسی بھی اچھی کوچ میں بیٹھ کر کوئٹہ سے کراچی تک کا سفر کریں تاکہ ان کو اندازہ ہو کہ اس صوبے کی آبادی کن مشکلات کا شکار ہے۔ امید ہے کہ چند سطور آپ کے کالم کے ذریعے دردمند حکمرانوں کی نظر تک پہنچ جائیں گی۔ شکریہ والسلام: صلاح الدین خلجی۔