کچھ دیر کتابوں کے درمیان

کتاب سے محبت میرے لاشعور میں رچ بس چکی ہے اور میں خواہ کتاب نہ بھی پڑھوں اسے دیکھ کر، اسے چھو کر، حتیٰ کہ اسے محسوس کر کے بھی مجھے جو خوشی اور اطمینان سا حاصل ہوتا ہے اس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہی نہیں شاید ناممکن ہے۔ یہ بچپن کا عشق ہے۔ اباجی مرحوم ایمرسن کالج ملتان میں لائبریرین تھے اور کتابیں گھر کا لازمی حصہ تھیں۔ ابا جی کے کمرے میں باہر گلی کی طرف کھلنے والی کھڑکی‘ جو ہمیشہ بند رہتی تھی‘ کے اندر والی طرف بڑھی ہوئی ایک فٹ چوڑی اور لگ بھگ چھ سات فٹ لمبی جگہ سدا کتابوں سے بھری نظر آتی۔ ان کے پلنگ (تب اسے بیڈ نہیں کہا جاتا تھا) کی پاٹنتی والی طرف بائیں ہاتھ پر ایک الماری تھی جوکتابوں سے بھری ہوئی تھی۔ اسی طرح ہماری بیٹھک (تب اسے ڈرائنگ روم کہنے کا رواج نہیں تھا) میں تین الماریاں تھیں جن میں کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ اس کے علاوہ لائبریری سے دوسرے چوتھے دن آنے والی ایسی کتابیں جو چار‘ چھ دن بعد واپس چلی جاتی تھیں اور ان کی جگہ اور کتابیں آ جاتی تھیں۔
لائبریرین کا بیٹا ہونے پر مجھے ہمیشہ فخر رہا ہے اور یہ فخر خالی خولی نہیں ہے اس میں کتابوں سے آشنائی، محبت اور پھر ملکیت کا جذبہ ایسا ہے کہ میں خود ایک چھوٹی سی ذاتی لائبریری کا مالک ہوں۔ یہ لائبریری مجھے اس چیز کی یاد دلاتی رہتی ہے کہ اسے ترتیب دینے میں ابا جی نے میری رہنمائی کی تھی۔ میں نے لائبریری میں انسائیکلوپیڈیا برٹینکا کے سیٹ کے اوپر ابا جی کی تصویر رکھی ہوئی ہے۔ اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اباجی اس لائبریری میں کسی نہ کسی صورت موجود ہیں اور یہ لائبریری ان کے دم سے آباد سی ہے۔
شکاگو کے نواحی شہر سکوکی (Skokie) میں جہاں ٹھہرا ہوا تھا اس اپارٹمنٹ کی عمارت کے خارجی دروازے کے عین سامنے سڑک کے پار ہلکے نسواری رنگ کی دیوارپر سکوکی پبلک لائبریری لکھا ہوا تھا۔ اب اسے پڑھ کر دل بے چین ہو جائے تو بھلا اس میں میرا کیا قصور ہے؟ تب میں کسی جگہ دوستوں کی محفل میں جا رہا تھا لیکن اسی وقت تہیہ کر لیا کہ کل صبح اُٹھ کر ناشتے کے بعد پہلا کام یہ کرنا ہے کہ اس لائبریری میں جانا ہے۔ صرف سڑک پار کی دوری پر لائبریری کی موجودگی کے حسین اتفاق سے فائدہ نہ اٹھایا جاتا تو بھلا مجھ سا بدقسمت اور کون ہوتا؟ اگلے روز صبح ناشتہ کرنے کے بعد کافی کا ڈسپوزایبل کپ ہاتھ میں پکڑا اور لائبریری کی طرف چل پڑا۔ ہفتے کا دن تھا اور امریکی رواج کے مطابق صبح سڑک پر ٹریفک بہت ہی کم تھی۔ سڑک پار کی، پارکنگ لاٹ کو عبور کیا اور لائبریری پہنچ گیا۔ دروازے پر آمد سے متعلق تہنیتی جملے تھے اور سب سے حیران کن اور خوش کن بات یہ تھی کہ چھبیس مختلف زبانوں میں لکھے ہوئے ان استقبالیہ جملوں میں سب سے اوپر اردومیں ”خوش آمدید‘‘ لکھا ہوا تھا۔ ان میں سے چند تحریروں کی زبان کا تو اندازہ تھا مگر کئی زبانوں‘ خاص طور پر ان کے متعلق جن کا رسم الخط انگریزی جیسا تھا‘ کا معلوم نہ ہو سکا۔ عربی، ہندی، بنگالی، گورمکھی، عبرانی، روسی، چینی، تھائی اور جاپانی کے علاوہ دیگر زبانوں کے بارے میں اندازہ لگایا کہ یہ فرنچ، جرمن، ہسپانوی اور دیگر یورپی زبانیں ہوں گی۔ لائبریری کی پارکنگ لاٹ میں ہفتے کے دن صبح صبح تیس چالیس گاڑیاں کھڑی تھیں۔ میں نے دروازہ کھولا اور لائبریری میں داخل ہو گیا۔
لائبریری کیا تھی، حیرت کا جہان تھا۔ خاموشی اور سکوت ایسا تھا کہ ملتان قلعہ کہنہ قاسم باغ میں واقع پبلک لائبریری یاد آ گئی۔ وہاں بھی اتنی ہی خاموشی اور سکون ہوتا ہے لیکن وہاں خاموشی کسی قاری کی عدم موجودگی اور ویرانی کے باعث ہوتی ہے جبکہ یہاں ہر طرف ہر عمر کے مرد و خواتین حتیٰ کہ بچے بھی چلتے پھرتے دکھائی دے رہے تھے مگر اتنی خاموشی اور سکون کے ساتھ کہ محسوس ہوتا تھا کہ یہاں کوئی ذی روح نہیں پایا جاتا۔ میں نے پہلے کائونٹر پر موجود لائبریری اٹینڈنٹ سے پوچھا کہ کیا یہاں اردو کی کتابیں ہیں؟ اس نے سامنے رکھے ہوئے کمپیوٹر پر چار انگلیاں ماریں اور کہنے لگی کہ عالمی زبانوں کا سیکشن دوسری منزل پر ہے۔ امریکہ میں اور ہمارے ہاں مستعمل منزلوں کی ترتیب تھوڑی مختلف ہے۔ ہمارے ہاں زمینی منزل گرائونڈ فلور کہلاتی ہے اور اوپری منزل فرسٹ فلور کہلاتی ہے جبکہ امریکہ میں گرائونڈ فلور فرسٹ فلور اور پہلی منزل سیکنڈ فلور یا دوسری منزل کہلاتی ہے۔ میں نے دوسری منزل کا سن کر اپنے دائیں گھٹنے کو پردیس میں نامناسب حرکات کرنے پر دوچار سنائی ہی تھیں کہ خاتون نے خود ہی اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ سیڑھیاں اس طرف ہیں اور ایلی ویٹر اس طرف ہے۔ تب مجھے یاد آیا کہ یہ محض ایک منزل کی بات ہے سو میں نے سیڑھیوں کا راستہ استعمال کیا۔ پہلی منزل پر سیڑھیاں چڑھتے ہی سامنے والے کائونٹر پر بیٹھی خاتون سے اردو سیکشن کا پوچھا تو وہ محض بتانے کے بجائے اٹھ کر ساتھ چل پڑی۔ بین الاقوامی زبانوں کا سیکشن حروف تہجی کے حساب سے ترتیب دیا گیا تھا۔ انگریزی حرف U کی وجہ سے اردو سیکشن آخری کونے میں تھا اور اس کے بعد صرف ویتنامی زبان کا سیکشن تھا؛ تاہم وہ اردو کے مقابلے میں بہت چھوٹا تھا۔ اردو کی کتابیں چھ عدد شیلفوں میں تھیں اور یہ شیلف خاصے لمبے تھے۔ یہاں اردو کی سولہ سو سے زائد کتب موجود تھیں۔ میری سب سے پہلی نظر اتفاقاً بانو قدسیہ کے ناول ”راجہ گدھ‘‘ پر پڑی تو میں نے وہ نکال لیا۔ اردو ناول اور نثر کی بہت اچھی کلیکشن تھی؛ تاہم شاعری کی کتابیں نسبتاً بہت کم تھیں۔ اشفاق احمد، بانو قدسیہ، عمیرہ احمد اور نمرہ احمد کی کتابوں کی خاصی تعداد وہاں موجود تھی۔ وہیں اگلے خانے میں حقی حق کی مشہور تحقیقی کتاب ”ہوئے تم دوست جس کے‘‘ بھی موجود تھی۔ سپین سے مسلمانوں کے مرحلہ وار اخراج اور نسل کشی اور امریکہ میں ریڈ انڈینز کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم، ان کی زمینوں اور وسائل پر قبضے، ان کی آبائی زمینوں سے بے دخلی اور ان کی منظم نسل کشی پر اس سے بہتر کتاب اردو میں ملنا ممکن نہیں۔ یہ کتاب بھی اس امریکی لائبریری میں موجود تھی۔
سکوکی ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ شکاگو ڈائون ٹائون سے محض بیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع 1880ء میں آباد ہونے والے اس قصبے کی آبادی صرف 67824نفوس پر مشتمل ہے لیکن اس کی لائبریری میں چھپے ہوئے میٹریل پر مشتمل ذخیرے کی تعداد 269402 ہے یعنی اس لائبریری میں دو لاکھ ستر ہزار کے قریب کتابیں، رسائل اور جرائد موجود ہیں جبکہ آڈیو ویژول کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ صوبہ پنجاب کی سب سے بڑی پبلک لائبریری لاہور میں واقع پنجاب پبلک لائبریری ہے جس میں تین لاکھ پچھتر ہزار کے لگ بھگ کتابیں ہیں۔ سابقہ جمخانہ کلب لاہور میں قائم ہونے والی قائداعظم لائبریری میں ایک لاکھ پچیس ہزار کتابیں ہیں۔ ادھر یہ عالم ہے کہ اڑسٹھ ہزار کی آبادی والے قصبے کی ایک پبلک لائبریری میں دو لاکھ ستر ہزار کتابیں اور ایک لاکھ وڈیوز ہیں جبکہ اس قصبے میں مزید دو عدد لائبریریاں اور بھی ہیں۔ اور اُدھر یہ عالم ہے کہ بیس لاکھ سے زائد آبادی والے شہر ملتان میں جھونگے میں تین عدد پبلک لائبریریاں ہیں اور ان تینوں کی کتابوں کو جمع کر لیں تو بھی سکوکی کی اس پبلک لائبریری میں موجود کتابوں کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔ قاسم باغ والی پبلک لائبریری ایسے برے حالوں میں ہے کہ دیکھ کر دکھ، ترس اور ملال کی ملی جلی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ سکوکی کی لائبریری کی منظر کشی کیا کروں؟ پاکستان کی سب سے بہترین اور جدید لائبریری بھی صفائی، ڈیزائننگ، ماحول اور سہولتوں میں اس کے پاسنگ نہیں۔ لائبریری کے اندر تو وقت خوب گزرا مگر جب سے باہر آیا ہوں باقاعدہ صدمے کی حالت میں ہوں۔ ایسے حالات دیکھ کر گو کہ کافی سخت جان ہو چکا ہوں مگر پھر بھی ہوں تو انسان ہی۔