خان اور شریف کا شکریہ

لگتا ہے ہم سب کو جلدی ہے اس ملک کو ڈبونے کی۔ پوری مسلم لیگ (ن) کو ایک بندہ بھی ایسا نہ ملا جس پر مقدمے نہ ہوں‘ جس پر انگلی نہ اٹھائی جا سکے۔ محمد خان جونیجو جیسا بندہ بھی نہ ملا جو ڈٹ گیا تھا‘ ضیا الحق جیسے سخت گیر آمر سے بھی نہ ڈرا۔ وہی ضیاجس نے کچھ برس پہلے بھٹو کو پھانسی دی تھی۔ میں نے ایک دفعہ سابق سیکرٹری انفارمیشن انور محمود صاحب سے پوچھا کہ انہوں نے کئی وزرائے اعظم کے ساتھ کام کیا‘ کبھی پریس سیکرٹری رہے اورکبھی پی آئی او‘ کبھی وزیراعظم ہاؤس میں میڈیا سنبھالا تو کبھی وزارتِ اطلاعات میں رہے‘ کہ کون وزیراعظم آپ کوبہتر لگا ؟ ان کا جواب تھا‘ محمد خان جونیجو۔ اندازہ کریں ان برسوں میں کتنے وزرائے اعظم گزرے لیکن کوئی ایسا نہیں جس بارے کہا جاسکتا کہ وہ جونیجو سے بہتر تھا۔ ضیا الحق جب 1985ء میں شہروں سے تاجر کلاس کو سامنے لائے تو اس کے بعد سیاست اور حکمرانی نفع نقصان پر چلنے لگی۔میں پچھلے ہفتے ایک میڈیا کانفرنس میں مسقط آیا تو یہی سوال یہاں بھی ہوا۔ عمان حکومت کے اہم اور ذمہ دار عہدیدار امیر حمزہ نے یہاں پاکستانیوں سے ایک ملاقات کا بندوبست کررکھا تھا۔ سلجھے ہوئے لوگوں سے گفتگو ہوئی۔میں باہر جانے سے اکثر کتراتا ہوں۔ بیرونِ ملک ترقی دیکھ کر اور پاکستان کا سوچ کر دل کڑھتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں۔ پاکستان واپسی پر کئی دن آپ کو اپنے ملک میں ایڈجسٹ ہونے میں لگتے ہیں‘لہٰذا بہتر ہے کہ کنویں کا مینڈک بن کر رہا جائے۔ نہ باہر کی دنیا کا علم ہو نہ ہی آپ کو تکلیف سے دوچار ہونا پڑے۔ زیادہ ایکسپوژر بھی تکلیف دہ ہے‘ اس لیے کبھی کبھار مجھے اپنے آبائو اجداد پر رشک آتا ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا میں زندہ تھے جہاں نہ ٹی وی تھا‘ نہ ٹویٹر نہ فیس بک نہ انسٹا گرام‘ نہ موبائل فونز تھے۔ ایک دو کلومیٹر پر محیط دیہاتی لائف جہاں کے اپنے مسائل تھے لیکن کم از کم ان کے کندھوں پر پوری دنیا کا بوجھ تو نہ تھا۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ کون حکمران ہے‘ وہ کیسا ہے‘ اچھا ہے یا برا ہے۔ انہوں نے خود کھیتوں میں دن رات کام کر کے اپنا رزق کمانا تھا۔اب تو دنیا ایسی بن چکی ہے کہ جہاں کا ایک لمحہ بھی آپ کا نہیں رہا۔ آپ پوری دنیا کے ساتھ جڑے ہیں۔ آپ بھی پوری دنیا کی طرح اپنا ملک بنانا چاہتے ہیں‘ وہی نظام چاہتے ہیں اور اس بات کو ہمارے حکمرانوں نے Exploit کیا ہے۔ عوام کو وہی خواب دکھائے ہیں جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک کامیاب فراڈی کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ عوام کو وہی کچھ بیچے جو وہ سوچتے ہیں‘ لیکن اسے حاصل نہیں کرسکتے۔ شہباز شریف نے کبھی نعرہ مارا تھا کہ وہ لاہور کو پیرس بنا دیں گے‘ عمران خان نے بھی وہی روٹ لیا اور مختلف ممالک کی خوبیاں بتانا شروع کیں‘ انہیں بھی لگا کہ عوام یورپی ملکوں کی مثالیں سن کر خود کو یورپین سمجھنے لگ جاتے ہیں‘ لہٰذا انہوں نے رج کے ہمیں یورپ کی مثالیں دیں کہ یورپ میں یہ ہوتا ہے‘ یورپ میں وہ ہوتا ہے۔ جو پاکستان میں ہوا وہ اگر یورپ میں ہوتا تو قیامت مچ جاتی‘مگر جب خود وزیراعظم بنے تو مجال ہے کہ کوئی ایک بات یورپ والی کی ہو۔
دوسری طرف شہبازشریف پچھلے دنوں ترکی گئے ہوئے تھے‘ ساتھ جہاز بھر کر لوگ لے گئے۔ اب تصویریں سامنے آئی ہیں کہ لندن سے سلمان شہباز بھی باپ سے ملنے ترکی پہنچے ہوئے تھے۔ سلمان شہباز اس وقت مفرور ہیں۔ وہ شہباز شریف کی اس ملاقات میں موجود ہیں جو طیب اردوان کے ساتھ ہوئی۔ اب آپ بتائیں مان لیا کہ وہ آپ کا بیٹا ہے لیکن پاکستانی قانون کی رو سے مفرور ہے۔ کیا تُک ہے کہ وہ سربراہ حکومت سے ملاقات میں آپ کے ساتھ موجود ہو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی ایلیٹ بدلتے دور میں خود کو نہ بدل سکی۔ وہ آج بھی 1980ء اور 90ء کی دہائی میں زندہ ہے کہ ان کا کوئی کیا بگاڑلے گا۔ اسی سوچ کی وجہ سے عمران خان ابھرا۔ شریف خاندان نے ایک شاہی خاندان کی طرح حکومت کی جو کسی کو جواب دہ نہیں۔ وہ حکومت کو بھی اتفاق فائونڈری کی طرح چلا رہے تھے کہ آج کتنا منافع ہوا۔ گھاٹے کا سودا تو وہ کرتے ہی نہیں۔یوں عمران خان کا کام آسان ہوا لیکن شریفوں نے پروا نہیں کی اور ایک دن نواز شریف بیٹی سمیت جیل جا بیٹھے۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے بھی یہی سوچا کہ ہم کیوں پیچھے رہیں اور باپ بیٹا سو لہ ارب روپے منی لانڈرنگ میں جیل جا بیٹھے۔اس دوران عمران خان نے پوری ایمانداری سے وہی کام کیا کہ شریفوں کو اقتدار اسی طرح واپس کیا جائے جیسے انہوں نے ان کے حوالے کیا تھا۔ ادھار نہ رہنے دیا جائے۔ نعیم بخاری نے ایک دفعہ اچھی بات کی تھی کہ مقدمہ وکیل نہیں ہارتا‘ کلائنٹ ہارتا ہے۔ اس طرح کسی نے خوب بات کی تھی کہ اپوزیشن الیکشن نہیں جیتتی بلکہ حکومت ہارتی ہے۔ یہ عمران خان الیکشن نہیں جیتا تھا‘ نواز شریف الیکشن ہارا تھا وجوہات آپ لاکھ دیتے رہیں کہ آپ کے خلاف سازشیں ہوئیں۔ دنیا کے پانچ براعظموں میں آپ کی جائیدادیں نکل آئیں تو چپ رہا جائے ورنہ آپ سازش میں شریک تصور کیے جائیں گے۔ وہی نواز شریف چار سو دن تک پاکستان سے باہر دوروں پر رہے۔ سعودی عرب‘ دبئی اور قطر کے دوروں پر بے بہا تحائف ملے‘ سب کو قومی راز ڈکلیئر کر کے گھر لے گئے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ عمران خان ان سے کیا سبق لیتے وہ ان سے ایک قدم آگے بڑھ گئے اور تحائف بیچ کر ملک کا نام روشن کر آئے۔ پھر شریف خاندان کو جوش آیا کہ عمران خان کیوں تنگ ہورہا ہے حکومت میں۔ جب خان سے حکومت نہیں چل پارہی تھی اوروزیر ٹی وی چینلز پر جانے سے گھبرانے اور عوام سے ڈرنے لگے تھے اس وقت ہی انہیں ہٹانے کا شوق چڑھا کہ آگے نومبر آرہا تھا۔ یوں اب وہی خان صاحب جس بارے میری رائے ہے کہ پانچ سال پورے کرنے کے بعد وہ دس سیٹیں بھی نہ لے سکتے تھے‘ دوبارہ سر پر سوار ہوگئے ہیں۔ چلیں آپ نے ہٹا دیا لیکن اب تو ڈھنگ سے کام کر لیں۔ شہبازشریف سے اینکرز کی پہلی ملاقات میں میں نے یہی کہا کہ آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کا وزیراعظم بننے کا فیصلہ غلط تھا؟ باپ بیٹے منی لانڈرنگ مقدمات میں ضمانت پر ہیں‘ کل وزیراعظم پاکستان یا وزیراعلیٰ کی ضمانت کینسل ہوگئی تو ملک کی بدنامی نہ ہوگی؟لیکن کیا کریں شریف خاندان بانٹ کر کھانے پر یقین نہیں رکھتا۔
اس سوچ کا یہ نقصان ہوا کہ عمران خان پھر کھڑا ہوگیا ہے۔ ویسے تو عمران خان کی پارٹی کو بھی داد دیں کہ پنجاب کے سابق وزیرتعلیم مراد راس نے ٹویٹ کر کے ترکی کو خبردار کیا ہے کہ وہ پاکستان میں کوئی سرمایہ کاری نہ کریں ورنہ وہ ڈوب جائے گی جیسے ایک ماہ میں شہباز شریف نے پاکستان کو ڈبو دیا ہے۔یہ ہے آپ کی ملک اور عوام سے محبت کا اصلی نظارہ۔ پاکستان رہے گا تو ان سب کو ہم پر حکمرانی کا موقع ملتا رہے گا‘ لیکن وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اگر ان کی پاکستان میں حکومت نہیں تو پھر پاکستان بے شک ڈیفالٹ کر جائے‘ روزگار نہ ہو‘ لوگ سڑکوں پر ہنگامے کریں‘ تو انہیں خوشی ہوگی۔یہ تھی وہ پارٹی اور اس کے لیڈرجو پاکستان کے اکیلے ٹھیکیدار ہیں‘ اکیلے محب وطن ہیں۔ یہ ہے ان کی محبت اس ملک سے‘ یہ ہے پی ٹی آئی کی ایلیٹ کلاس کی سفاکی کہ ہمارے بعد قیامت آ جائے۔
ویسے شہباز شریف کو داد دیں کہ وہ عمران خان کیلئے وہی آسانیاں پیدا کر رہے ہیں جیسے ان کے بڑے بھائی نواز شریف نے پیدا کی تھیں اور جیل سے سیدھے لندن جا بیٹھے تھے۔عمران خان کو ہمیشہ شریف خاندان کا شکرگزار رہنا چاہئے کہ انہیں بار بار اقتدار کا موقع دے رہیں‘ حالانکہ سب کو پتا ہے کہ ملک چلانے کی صلاحیت ان میں نہیں ہے۔ کیا کریں مقابلہ کرپٹ اور نااہل میں ہے۔ ایک دفعہ کرپٹ جیت جاتے ہیں تو اگلی دفعہ نااہل جیت جاتا ہے۔ عوام ان دونوں میں بٹے اور اپنی اپنی مرضی کے لٹیرے لانے کیلئے گلے پھاڑ کر ہلکان ہورہے ہیں۔