کرپشن کیسز دوبارہ کھولنے کا فیصلہ نیب نہیں متعلقہ عدالتیں کریں گی

پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے نیب قانون میں ترمیم کے بعد جن مقدمات کا فیصلہ ہو گیا تھا یا انہیں واپس کر دیا گیا تھا؛ انہیں دوبارہ کھولنے کا فیصلہ متعلقہ عدالتیں کریں گی۔

نیب کے باخبر ذرائع نے دی نیوز کو جمعرات کے روز بتایا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کے ذریعے نیب قانون میں ترمیم کے بعد جن کیسز کا فیصلہ کر دیا گیا تھا یا جو کیسز عدالتوں نے واپس بھیج دیے تھے وہ تمام کیسز اب نیب نے واپس متعلقہ عدالتوں کو بھیج دیے ہیں۔

ذریعے نے واضح کیا کہ متعلقہ عدالتیں سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلے کی روشنی میں اب ان مقدمات کا فیصلہ کریں گی۔

سپریم کورٹ نے نیب کے ترمیم شدہ قانون میں ان بند کیے گئے یا طے شدہ کیسز کے حوالے سے کئی حصے ختم کر دیے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ طے کیے گئے مقدمات یا واپس کیے گئے مقدمات کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ نیب کا نہیں ہے۔

نیب صرف اُن انکوائریز اور انوسٹی گیشنز کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کر سکتا ہے جو 2022ء میں نیب ترمیم کے بعد بند کی گئی تھیں۔ بند انکوائریوں اور تحقیقات کی صورت میں بھی صرف وہی انکوائریز اور انوسٹی گیشنز دوبارہ کھولی جائیں گی جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے دائرے میں آتی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ نے تمام ترامیم کو ختم نہیں کیا، لہٰذا، بیورو کو ان انکوائریز اور انوسٹی گیشنز کی نشاندہی کرنے کیلئے سخت محنت کرنا ہوگی جو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں دوبارہ کھل گئی ہیں۔

اس مشق کو مکمل کرنے میں چند ماہ لگ سکتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نیب تمام مقدمات کا ریکارڈ متعلقہ عدالت میں جمع کرا رہا ہے۔ اگرچہ میڈیا کا دعویٰ ہے کہ سیکڑوں کیسز دوبارہ کھولے گئے ہیں اور ان میں آصف علی زرداری، میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، سینیٹر یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، شاہد خاقان عباسی، اسحاق ڈار، سابق وزیر اعظم نواز شریف، سندھ اور پنجاب کے وزیراعلیٰ، درجنوں سابق وفاقی اور صوبائی وزراء دیگر کیخلاف ہائی پروفائل کیسز شامل ہیں۔

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف پی ٹی آئی چیئرمین کی درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے 10 میں سے 9 ترامیم کو کالعدم قرار دیا۔ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کر دیے گئے ہیں۔

پبلک آفس ہولڈرز کے ریفرنس ختم کرنے سے متعلق نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور نیب ترامیم کے سیکشن 10 اور سیکشن 14 میں پہلی ترمیم بھی کالعدم قرار دے دی گئی۔

سپریم کورٹ نے ایک کے مقابلے میں دو کی اکثریت سے پچاس کروڑ روپے سے کم مالیت کے تمام بدعنوانی کے مقدمات کو دوبارہ کھولنے کا حکم دیا ہے جو پہلے مختلف جماعتوں کے سیاسی رہنماؤں اور عوامی عہدے داروں کے خلاف بند کر دیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ، سپریم کورٹ نے نیب کو ہدایت کی کہ وہ سات دن میں تمام مقدمات کا ریکارڈ متعلقہ عدالتوں کو واپس کرے۔

عدالت نے ترمیم شدہ قوانین کی بنیاد پر احتساب عدالتوں کے جاری کیے گئے فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’’تمام انکوائریاں، تحقیقات، اور ریفرنسز جو کہ کالعدم قرار دی گئی شقوں کی بنیاد پر نمٹائے گئے تھے، انہیں اُسی حالت میں بحال کیا گیا ہے جس حالت میں یہ ترامیم سے قبل میں تھے، اب یہ کیسز متعلقہ عدالتوں میں زیر التوا تصور کیے جائیں گے۔‘‘

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو بڑی جماعتوں بالخصوص نون لیگ اور پی پی پی کی قیادت کیلئے ایک دھچکا سمجھا جا رہا ہے کیونکہ ان کے مقدمات دوبارہ بحال ہو جائیں گے۔