آرچرڈ ایریا کا حشر نشر

ساری عمر کسی کے گھٹنے نہ پکڑنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب اٹھتے بیٹھتے اپنے گھٹنوں کو پکڑ کر اٹھنا پڑ رہا ہے۔ بقول شاہ جی کے ہر شخص کی قسمت میں دیگر چیزوں کے علاوہ گھٹنے پکڑنے کی تعداد بھی لکھ دی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے مقدر میں لکھی تعداد کو کسی کے گھٹنے پکڑنے میں صرف کر دے تو اسے اپنے گھٹنے نہیں پکڑنے پڑتے جیسا کہ مجھے پکڑنے پڑ رہے ہیں۔ آرتھرائٹس کا معاملہ تھوڑا زیادہ بگڑ گیا ہے اور اس میں قصور میرا ہی ہے۔ پاکستان سے چلتے وقت ایک مہینہ پانچ دن کی دوائیں ساتھ رکھی تھیں۔ رہنا تو صرف ایک مہینہ تھا مگر احتیاطاً پانچ دن کی زائد دوائیں رکھ لیں لیکن طے شدہ شیڈول سے بھی مہینہ بھر زائد ٹھہرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ دوائیں ختم ہو گئیں۔ پرانے دھکے پر چار پانچ دن تو نکل گئے لیکن اس کے بعد راوی نے چین لکھنا بند کر دیا۔ ہفتہ تو کسی کو بتایا ہی نہیں کہ دوائیں ختم ہو گئی ہیں لیکن جب دائیں گھٹنے نے بالکل جواب دے دیا اور Knee Cap پہننے کے باوجود حالات قابو میں نہ آئے تو بیٹی نے پوچھا کہ درد کش دوا کی کتنی ڈوز لے رہا ہوں؟ اسے بتایا کہ یہ ڈوز آج کل صفر ہے کہ دوائیں ختم ہو چکی ہیں۔ خیر اس نے اب کیا کہنا تھا؟ فوراً خود ہی نسخہ لکھا اور فارمیسی سے دوائیں لا دیں۔ کچھ دوائیں تو وہ تھیں جو میں ایک عرصے سے امریکہ سے ہی لا رہا تھا؛ تاہم جوڑوں کے درد کے لیے ایک پاکستانی دوا بہت راس آ گئی تھی‘ اب اس کا متبادل ادھر نہیں مل رہا تھا۔ آرتھرائٹس کی لگی بندھی دوائیوں کے علاوہ کوئی درد کش دوا اس افتاد کا سدباب نہیں کر پائی۔ لیکن اس سب کے باوجود مقابلہ برابر رہا نہ گھٹنے کا درد قابو میں آیا اور نہ ہی میں نے اس کے آگے ہتھیار ڈالے سو درد اور آوارہ گردی دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہے۔
گزشتہ ماہ کے شروع میں ایک روز صبح گھر سے نکلا اور گھومتا گھامتا دور پرے کھیتوں کی طرف چلا گیا۔ دو چار کھیت آگے بڑی دھول اڑ رہی تھی‘ میں ادھرچلا گیا۔ دیکھا کہ گندم کی فصل کٹ رہی تھی‘ صرف کٹ نہیں رہی تھی بلکہ کمبائنڈ ہارویسٹر کے ذریعے کٹائی چھڑائی کے سارے مرحلے طے کر رہی تھی۔ یہ سردیوں کی گندم کی کٹائی ہو رہی تھی۔ امریکہ میں گندم کی بجائی کے دو موسم ہیں‘ سردی اور بہار۔ سردیوں کی گندم کی کٹائی کا اوہائیو میں سیزن یکم جولائی سے چار اگست ہوتا ہے۔ امریکہ میں گندم زیادہ ”مڈ ولسٹ‘‘ میں کاشت ہوتی ہے؛ تاہم شمال مغربی ریاستوں اور مشرقی ساحل کے ساتھ والی ریاستوں میں بھی کاشت ہوتی ہے۔ اوہائیو میں سردیوں کی گندم کاشت ہوتی ہے اور اس کی اوسط پیداوار ساٹھ من فی ایکڑ تک ہوتی ہے۔ گندم کا شمار امریکہ کی پہلی تین فصلوں میں نہیں ہوتا۔ امریکہ میں گندم تین کروڑ بہتر لاکھ ایکڑ کے لگ بھگ رقبے میں کاشت ہوتی ہے۔ امریکہ میں پہلے نمبر پر مکئی کاشت ہوتی ہے اور 392 ملین ٹن کی پیداوار کے ساتھ امریکہ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ 124 ملین ٹن کی سالانہ پیداوار کے ساتھ امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ سویا بین پیدا کرنے والا ملک ہے۔ جبکہ اکیاون ملین ٹن کے ساتھ امریکہ چین‘ بھارت اور روس کے بعد چوتھا بڑا گندم پیدا کرنے والا ملک ہے۔ امریکہ کو پاکستان کی طرح زرعی ملک ہونے کا دعویٰ نہیں لیکن اس کے باوجود اکتیس ملین ٹن گنے کے ساتھ دنیا میں دسویں نمبر پر‘ اکیس ملین ٹن آلو کی پیداوار کے ساتھ دنیا میں پانچویں نمبر پر اور تقریباً بارہ ملین ٹن کی کپاس کی پیداوار کے ساتھ دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔
بات کہیں سے کہیں چلی گئی۔ میں پیدل چلتا چلتا گندم کے اس کھیت تک پہنچ گیا جہاں کمبائنڈ ویسٹر گندم کاٹ رہا تھا۔ ساتھ آگے سویابین کاشت ہوئی تھی۔ معلوم کیا تو پتا چلا کہ ابھی یہ فصل صرف چھ ہفتوں کی ہے اور ”V‘‘ یعنی ویجی ٹے ٹیو سٹیج پانچ پر پہنچی ہے۔ دور تک یکساں اونچائی کے پودے (تیرہ‘ چودہ انچ لمبے) تھے اور پورے کھیت میں کہیں بھی خالی یا کمزور جگہ دکھائی نہیں دے رہی تھی۔سویا بین کے کھیت کے سامنے سڑک کی دوسری جانب مکئی لگی ہوئی تھی اور مکئی کے پودے دو‘ اڑھائی فٹ کی اونچائی تک پہنچ چکے تھے۔ سویا بین کی طرح مکئی کے کھیت میں فصل کی یکساں اونچائی اور ایک جیسے پودے اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ فصل کیلئے استعمال ہونے والا بیج کسی قسم کی ملاوٹ سے یکسر پاک تھا اور کھیت کے کنارے تک بھرپور فصل نظرآ رہی تھی حالانکہ عموماً کھیت کے کناروں پر فصل چھدری یا کمزور ہوتی ہے۔ سارے منظر نامے میں دور ایک شیڈ اور ایک کنکریٹ کا بنا ہوا ساٹیلوز تھا اور کہیں کوئی عمارت یا آبادی نہ تھی۔ امریکہ میں چھوٹے کاشتکار بھی ہیں اور بڑے بھی۔ بڑے تو اتنے بڑے کہ کوئی یقین ہی نہ کرے۔
کچھ عرصہ پہلے تک دنیا کے پہلے اور آج کل دوسرے نمبر کے امیر ترین شخص بل گیٹس کے پاس پونے تین لاکھ ایکڑ کے لگ بھگ زمین ہے۔ امریکہ میں زمین کی ملکیت کے حساب سے پہلے نمبر پر جان میلن ہے جس کے پاس بائیس لاکھ ایکڑ زمین ہے جبکہ دوسرے نمبر پر سی این این کے مالک ٹیڈ ٹرنر کے پاس بیس لاکھ ایکڑ کے لگ بھگ زمین ہے۔ اس کی زمین میں پچاس ہزار ارنا بھینسوں (Bisons) پر مشتمل ریوڑ دنیا میں کسی کی پرائیویٹ ملکیت میں سب سے بڑا ریوڑ ہے۔ بقول ٹیڈ ٹرنر اس کے پاس بچپن میں ایک کتاب تھی جس میں لکھا ہوا تھا کہ جب اس سرزمین پر پہلا سفید فام (کرسٹو فرکولمبس) آیا تب شمالی امریکہ کے میدانوں میں تین کروڑ کے لگ بھگ ارنا بھینسے گھوم پھر رہے تھے اور پھر یہ عالم تھا کہ دو سو سال بعد صرف 200ارنا بھینسے باقی بچے تھے۔ قریب تھا کہ یہ مکمل طور پر معدوم ہو جاتے۔ تب میں نے سوچا کہ یہ تو بہت ہی افسوسناک بات ہے کہ یہ دیکھنے میں اتنے خوبصورت دکھائی دیتے ہیں اور میں نے انہیں تصویروں کے علاوہ کبھی حقیقت میں دیکھا ہی نہیں! بل گیٹس کے پاس دو لاکھ ستر ہزار ایکڑ زمین ہے۔ ابھی حال میں اس نے شمالی ڈکوٹا میں اکیس سو ایکڑ زمین خریدی تھی اور اس خرید کیلئے اسے قانونی جنگ لڑنی پڑی تھی۔ امریکہ میں فارم لینڈ کے تحفظ کیلئے بنے ہوئے قانون‘ جس کے تحت کساد بازاری کے وقت میں کوئی کارپوریشن یا کمپنی کسانوں سے فارم لینڈ نہیں خرید سکتی‘ اس سلسلے میں نارتھ ڈکوٹا کے ایگری کلچر کمشنر نے کسانوں کی بے چینی اور ریاست میں اٹھنے والی مخالف آوازوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس خریداری کے خلاف عدالت سے رجوع کیا؛ تاہم اینٹی کارپوریٹ فارمنگ لاء ذاتی ٹرسٹ اور ذاتی حیثیت میں فارم لینڈ کی خریداری بشرطیکہ اس فارم لینڈ کو کسانوں کو ہی لیز پر دیا جائے یا اسے محض زرعی مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے‘ ایسی خرید سے نہیں روکتا۔ عدالت نے اس سلسلے میں اپنا پورا اطمینان کرنے کے بعد اسے یہ زمین خریدنے کی اجازت دے دی۔ آلوؤں کی کاشت کیلئے موزوں یہ زمین صرف اور صرف زرعی مقاصد کیلئے استعمال ہو گی اور اس کو کسی دوسرے تجارتی یا غیر تجارتی مقصد کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔
ادھر ہمارے ہاں گو کہ اس طرح کے جامع اور خصوصی قوانین موجود نہیں تاہم اکثر بڑے شہروں کا ماسٹر پلان بھی موجود تھا اور آرچرڈ ایریا کے نام سے رہائشی وکمرشل مقاصد سے پاک باغوں کا علاقہ مخصوص ہوتا تھا جسے کسی دوسرے مقصد کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مجھے دیگر شہروں کا تو زیادہ علم نہیں مگر ملتان کی حد تک مجھے علم ہے کہ ایم ڈی اے کے ماسٹر پلان میں یہ آرچرڈ ایریا مواضعات کے نام سے اور کھیوٹ نمبر کے حساب سے باقاعدہ محفوظ کیا گیا تھا لیکن اس کا کیا حشر ہوا‘ سب کے سامنے ہے۔ ملتان کے نواح میں کم از کم دس ہزار ایکڑ پر لگے ہوئے آم کے باغات کٹ گئے۔ رکاوٹ بننے والے ٹرانسفر ہو گئے اور معاونت کرنے والوں نے کروڑوں کا دھندا کر لیا۔ حتیٰ کہ اس سلسلے میں ایک نیک نام سابقہ وفاقی وزیر کے بیٹے سے بھی کئی کہانیاں وابستہ ہوئیں۔ واللہ اعلم کتنا سچ ہے مگر ایسی اجازتیں بہرحال مفت تو نہیں دی جاتیں۔