پنجاب کے خوش قسمت حاکم

مجھے آسٹرولوجی سے دلچسپی ہے۔ پڑھتا رہتا ہوں۔ اس سے لوگوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور سب سے بڑھ کر میری اپنی کونسلنگ ہوتی رہتی ہے۔ میں اپنے سٹار کی کمزوریاں پڑھ کر خود کو درست کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ آسٹرولوجی کے ذریعے آپ کسی انسان کو سمجھنا چاہیں تو آپ کو بتایا جائے گا کہ جس لمحے‘ جس دن‘ جس جگہ‘ سال یا علاقے میں پیدا ہوتے ہیں اس وقت آپ کی ساری عمر کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ آپ کی قسمت لکھ دی جاتی ہے۔ قدیم یونانیوں کا بھی یہ یقین تھا کہ انسان اپنی قسمت یا تقدیر کے لکھے سے نہیں بچ سکتا چاہے وہ کتنی ہی کوشش کیوں نہ کرلے۔ آج بھی انسان اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر زندگی کے تلخ حقائق تسلیم کرتا ہے۔ اگرچہ قرآن پاک کے مطابق خدا انسان کو اتنا کچھ دیتا ہے جتنی کہ وہ کوشش کرتا ہے۔ خدا کی رضا کے علاوہ کوشش پر زور دیا گیا ہے‘لوگ پھر بھی کہتے ہیں کہ محنت یا کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ گھر بیٹھ کر دولت شہرت اور ترقی کا انتظار کیا جائے۔ سب کچھ جھولی میں گرے گا۔مگرایسا نہیں ہوتا۔ جو لوگ لکی پیدا ہوتے ہیں انہیں تقدیر یا ان کی قسمت گھر سے اٹھائے گی اور حالات پیدا کرکے ان سے سخت محنت کرائے گی‘ انہیں آگے لے جائے گی۔ خوش نصیب وہی ہوتے ہیں جنہیں تقدیر مواقع فراہم کرے گی اور وہ ان مواقع کو ضائع نہیں ہونے دیں گے۔جو ساری عمر گھر بیٹھے رہیں گے اس کا مطلب ہے کہ ان کی قسمت میں نہ تھا کہ وہ زندگی میں آگے بڑھتے۔
ذرا قسمت ملاحظہ فرمائیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک شہباز شریف اور حمزہ شہبازشریف نیب کی قید میں تھے‘ دونوں پر اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے الزامات تھے۔ مقصود چپڑاسی اور دیگر گھریلو ملازمین کے ذریعے سولہ ارب ادھر ادھر کئے گئے۔مگر کل کے نیب قیدی آج پاکستان کے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ہیں۔اب پنجاب کے دو اور خوش نصیب حاکموں کی کہانی سنیں۔چوہدری پرویز الٰہی اور عثمان بزدار۔ جب پنجاب میں ضمنی الیکشن ہورہے ہیں اور اس میں تخت یا تختے کا فیصلہ ہونا ہے اس وقت عثمان بزدار آپ کو منظر پر نظر نہیں آرہے جن کو عمران خان نے پنجاب سے جیت کر ساڑھے تین سال سے زائد وزیراعلیٰ بنائے رکھا۔ یاد آیا خان صاحب نے سو دن کے اندر جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا تھا اس کا ذکر بھی کہیں نہیں ہے۔ نہ عمران خان اپنی تقریروں میں ذکر کررہے ہیں نہ جنوب کے عوام پوچھ رہے ہیں کہ ہمارے صوبے کا کیا بنا۔
مزے کی بات ہے کہ اب عمران خان نے جس پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانا ہے وہ بھی ان جلسے جلوسوں میں کہیں نظر نہیں آئے۔ جسے ساڑھے تین سال وزیراعلیٰ بنائے رکھا وہ بھی غائب اور جس نے بننا ہے وہ بھی غائب۔
اب قسمت کا کھیل دیکھیں کہ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنانے کیلئے بائیس برس عمران خان نے محنت کی۔ عثمان بزدار کا نام تک پاکستانیوں نے نہیں سنا تھا۔ انہیں اقتدار میں لانے کیلئے ساری کوشش اور محنت عمران خان سے کرائی گئی۔ عمران خان نے کرکٹ کھیلی‘ ہسپتال بنائے‘ یونیورسٹی بنائی اور بائیس برس سیاست میں دھکے کھائے‘ صرف اس دن کیلئے۔ تحریک انصاف کے اپنے پارٹی کے لوگ منہ دیکھتے رہ گئے‘ جنہوں نے دن رات خان صاحب کے ساتھ محنت کی تھی‘ اپنے اپنے حلقوں میں پیسہ لگایا‘ الیکشن جیتے لیکن ان کے مقدر میں لکھا تھا کہ وہ سب مل کر بزدار کو وزیراعلیٰ بنوائیں گے ۔ یوں بزدار کی احسن جمیل گجر خاندان سے یاری دوستی نے پورے پنجاب کا رخ بدل دیا۔ تحریک انصاف کی پارٹی نے بھی پہلی دفعہ عثمان بزدار کو اس دن دیکھا جس دن ان کا نام وزیراعلیٰ کیلئے سامنے آیا۔ جہانگیر ترین جیسا ارب پتی بھی اربوں کماتا رہا‘دس بارہ برس پی ٹی آئی کیلئے کام کرتا رہا‘ جہاز تک خریدا کہ ایک دن وہ بھی ایک نامعلوم بزدار کیلئے آزاد جیتنے والے ایم پی ایز ڈھو کر اسے وزیراعلیٰ بنوائے گا۔
میں آپ کو عثمان بزدار کی خوش قسمتی گنوا رہا ہوں کہ کیسے عمران خان سے لے کر جہانگیر ترین تک سب ان کیلئے برسوں کوشاں رہے۔اب بھی اگر خان صاحب کا دوبارہ ہاتھ پڑا تو ان کی پہلی ترجیح عثمان بزدار ہی ہوں گے کیونکہ ان کو یقین دلایا گیا ہے کہ ان کے نام کے ساتھ برکت جڑی ہے۔قسمت کی بات صرف عثمان بزدار تک نہیں بلکہ عمران خان کی قسمت میں یہ بھی لکھا تھا کہ وہ بائیس سال تک جنہیں پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کہیں گے ایک دن انہی کو وزیراعلیٰ بنوانے کیلئے پورے پنجاب میں سردھڑ کی بازی لگا کر ان کیلئے ووٹ مانگیں گے۔ اس خوش قسمت کا نام چوہدری پرویز الٰہی ہے۔ عمران خان پرویز مشرف سے ناراض اس لیے ہوگئے تھے کہ انہوں نے خان صاحب کو وزیراعظم نہیں بنایا تھا۔ عمران خان نے مشرف کی تین سال حمایت کی‘ ان کی ریفرنڈم میں سپورٹ کی‘ اس امید پر کہ وہ انہیں وزیراعظم بنائیں گے لیکن مشرف نے تین سال عمران خان سے اپنے حق میں تقریریں کروانے کے بعد چوہدریوں کو گاڈ فادر بنا دیا اور خان کو کہا گیا کہ کچھ پانا ہے تو چوہدری شجاعت حسین کے ہاتھ پر بیعت کرلو۔ عمران خان کو لگا کہ ان کے ساتھ دھوکا کیا گیا‘تین سال تک انہیںاستعمال کرنے کے بعد پھینک دیا گیا۔ یوں 2002 ء کے الیکشن سے مشرف اورخان صاحب کے درمیان دوریاں شروع ہوئیں اور خان صاحب نے پرویز مشرف اور چوہدریوں کے خلاف تقریریں شروع کیں۔ وار آن ٹیرر کے ایک سال بعد اچانک عمران خان صاحب کو یاد آیا کہ پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دے کر غلطی کی تھی جبکہ تین سال بعد انہیں محسوس ہوا کہ چوہدری تو کرپٹ اور پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو تھے۔چوہدری پرویز الٰہی نے کئی دفعہ ٹی وی انٹرویوز میں کہا کہ ان کی پارٹی کے بندے توڑ کر عمران خان کی پارٹی میں شامل کرائے جاتے تھے۔
عمران خان نے ہمیشہ زرداری‘ شریف اور چوہدریوں کو کرپٹ سیاستدانوں کی ایک فہرست میں رکھا اور کسی سے رعایت نہ کی ‘تاہم چوہدری پرویز الٰہی کو ڈاکو کہنا اس وقت بند کیا جب2018 ء میں خود وزیراعظم بننے کیلئے پنجاب کے ”سب سے بڑے ڈاکوئوں‘‘ کے ووٹ کی ضرورت پڑی۔ پھر خان صاحب ان کے گھر بھی پہنچ گئے‘ سب چوہدریوں کو گلے بھی لگا لیا‘ ڈاکو ڈاکو نہ رہے‘ ساتھی بن گئے۔ مونس الٰہی کو بھی وزیر بنا دیا جس کی خان صاحب کو‘ بقول مونس کے‘ شکل تک پسند نہ تھی۔آج وہی چوہدری اپنے گھر بیٹھے سکون سے نتائج کا انتظار کررہے ہیں اور عمران خان کی جان پر بنی ہوئی ہے کہ کسی طرح وہ ضمنی الیکشن جیت جائیں تاکہ پرویز الٰہی کو دوسری دفعہ وزیراعلیٰ بنوا سکیں۔عمران خان کی چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ قبول کرنے کے پیچھے ایک مجبوری یہ بھی ہے کہ اگر وہ وزیراعلیٰ نہ بنے تو پنجاب میں گجر اور مانیکا خاندان اور سب سے بڑھ کر عثمان بزدار کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔ ان سب پر پہلے ہی نیب اور ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن پنجاب مقدمات قائم کر کے نوٹسز جاری کرچکے ہیں‘ لہٰذا اس وقت ان سب کا بچنا بڑا ضروری ہے۔ کوئی نہیں سوچ سکتا تھا کہ عمران خان کی ناک کے نیچے یہ پورا گینگ مل کر کرپشن کی نئی داستانیں رقم کرے گا۔ لوگ اب تک زرداری اور شریفوں کی کرپشن کی کہانیاں سنتے آئے تھے اور اب بھی بڑی تعداد میں لوگ یقین کرنے کو تیار نہیں کہ یہ پورا گینگ اتنی بڑی واردات ڈال سکتا ہے۔
ویسے تقدیر بھی انسانوں کے ساتھ کیا کیا بھیانک مذاق کرتی ہے کہ عمران خان برسوں جسے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے رہے آج اسے پنجاب کا وزیراعلیٰ بنوانے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگارہے ہیں اور گجرات کا وہ خوش نصیب چوہدری سکون سے بیٹھ کر خان کی تقریریں انجوائے کررہا ہے۔ یہی خان صاحب کی قسمت میں لکھا تھا۔یہی چوہدریوں کے مقدر میں تھا۔