جھوٹ سے سچ تک کا سفر

فواد چوہدری صاحب سے پرانی دعا سلام ہے۔ وہ ایک ایسے ذہین انسان ہیں جو دن کو رات اور رات کو دن ثابت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اینکر بنے تو بھی کمال کے پروگرامز کیے۔ کھل کر بات کرتے ہیں۔ لگی لپٹی کے وہ ہرگز قائل نہیں۔ ایک ٹی وی پر میں نے پروگرام چھوڑا تو مالکان نے تجویز مانگی کہ آپ کی جگہ کس کو ہم اینکر لے لیں تو میں نے فواد چوہدری کا نام لیا۔ انہوں نے اگلے ہی روز فواد چوہدری کو اس پروگرام میں فائنل کر لیا اور بڑا عرصہ وہ شو کرتے رہے۔
جب وہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تو پانامہ کیس سماعت کے بعد میڈیا کو دی جانے والی بریفنگز میں اپنا نام بنایا۔ وہ تین‘ چار گھنٹوں کی طویل سماعت کو چند منٹ میں ایسے بیان کرتے کہ لگتا دریا کوزے میں بند ہوگیا۔ بہادر انسان ہیں اور بڑی حد تک لبرل اور ماڈریٹ بھی۔ ایک روز میں نے اپنے ٹی وی شو میں کہا: عمران خان کی تین سالہ حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ریاستِ مدینہ کا دفاع فواد چوہدری سے کرایا۔ فواد نے خود اس جملے کو خوب انجوائے کیا۔ اگرچہ ان کے وزیر بننے کے بعد ان سے رابطہ یا تعلق نہ رہا کیونکہ ہم دونوں کی پروفیشنل ضروریات کچھ مختلف تھیں۔ اگرچہ میڈیا کے حوالے سے ان کا رویہ بڑا سخت رہا‘ان کا ایک متنازع ٹویٹ بھی سامنے آیا جس میں انہوں نے 14صحافیوں اور اینکرز کے بارے کہا کہ وہ شہباز شریف حکومت کے پے رول پر ہیں؛تاہم جو صحافی یا اینکرز عمران خان دور میں براہ ِراست فوائد لے رہے تھے‘ ان کا ذکر نہیں کیا۔
ایک بات کی داد دیں کہ اب صحافی اور اینکرز نواز شریف اور عمران خان میں تقسیم ہیں۔ خوش قسمت ہیں دونوں سیاستدان جنہیں ہم صحافیوں کی سروسز مل گئی ہیں۔ اب ہم اینکرز اور صحافیوں اور سیاسی ورکرز میں کم ہی فرق رہ گیا ہے۔ خیر وہ سب صحافی اچھے ہیں جو عمران خان کی بولی بولتے ہیں‘ باقی لفافہ صحافی کہلاتے ہیں۔ فواد کا خیال ہے کہ اب مین سٹریم اینکرز ہوں یا صحافی‘ ان کی اوقات زیادہ نہیں رہ گئی۔ اب انہیں نہ کوئی سنتا ہے نہ ان کی ریٹنگز ہیں۔ یہ نئے میڈیا کا دور ہے اور اس میں اب یوٹیوبرز ہی کامیاب صحافی کہلاتے ہیں۔ لوگ انہیں دیکھتے ہیں۔
تحریک انصاف کو داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے سوشل میڈیا کو ہائی جیک کر لیا ہے۔ انہوں نے اپنا ایک ایسا بیانیہ بنایا ہے کہ جو صحافی ان کے گیت گاتا ہے‘ ان کی غلطیوں کا دفاع کرتا ہے اور سکینڈلز کو بھی اِگنور کرتا ہے وہی کامیاب رہ سکتا ہے۔ اس طرح عمران خان کا larger than lifeکا امیج بھی بنا دیا گیا ہے جو کوئی غلط کام نہیں کرسکتا۔ یوں شخصیت پسندی عروج پر ہے۔اب ہمارے اکثر اینکرز اور صحافی ریٹنگز کے لیے مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ عمران خان کی شان میں ٹویٹس اور شو کریں۔ یہ عمران خان کی یقینا بڑی کامیابی ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے مین سٹریم کے صحافیوں کو ان کی لائن لینے پر مجبور کر چکے ہیں۔ فواد چوہدری سے اگلے روز پروگرام میں بات ہورہی تھی کہ عمران خان کی دو تین روز پہلے ٹک ٹاکرز سے بنی گالا میں ایک ملاقات ہوئی تھی۔ اگر آپ کو یاد ہو تو عمران خان کے دور میں ہی ٹک ٹاکرز پر عریانی اور فحاشی پھیلانے کے الزامات پر ٹک ٹاک کو بین کر دیا گیا تھا۔ بعد میں عدالت کے حکم پر اسے بحال کیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ جس فورم کو عمران خان کی حکومت عریانی اور فحاشی کا ذریعہ سمجھ رہی تھی‘ اس کے بعد ان ٹک ٹاکرز کو بنی گالا بلا کر ملنا کافی دلچسپ لگتا ہے۔
جب یہی سوال میں نے فواد چوہدری سے کیا کہ اب بات ٹک ٹاکرز تک آن پہنچی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ دراصل یہ سوشل میڈیا کی دنیا ہے۔ کہنے لگے: ابھی ان ٹک ٹاکرز ہی کو دیکھ لیں کہ ان کے لاکھوں فالورز ہیں اور لوگ انہیں دیکھتے ہیں لہٰذا اب ان سے ہی بات ہوگی۔ انہوں نے طنز کیا کہ اب آپ لوگوں کی کیا ریٹنگز ہیں۔ فواد کا مطلب تھا کہ اب وہی صحافی کہلائے گا جو پاپولر ہے جس کی لاکھوں میں فین فالونگ ہے۔ میں نے فواد سے پوچھا: مطلب اب سچ‘ جھوٹ اہم نہیں رہا‘ مطلب اب سب کچھ فالونگ پر چلے گا؟ جرنلزم سچ کے لیے کی جاتی ہے یا فالونگ کے لیے؟ کسی کے فالورز کو دیکھ کر اس کا اندازہ ہوگا کہ وہ صحافی کہلوا سکتا ہے یا نہیں؟ سچائی اور حقائق اب جرنلزم کی بنیاد نہیں رہے؟ اب وہی کچھ بولو جو لوگ سننا چاہتے ہیں اور فالورز بنا لو؟ بہت سے ایسے یوٹیوبرز ہیں جن کی وڈیوز لاکھوں میں دیکھی جاتی ہیں لیکن شاید آپ گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر نہ دیکھ پائیں۔ کیا فالونگ اس بات کا فیصلہ کر سکتی ہے کہ وہ بندہ سچ بول رہا ہے اور اسے فالو کرنا چاہیے اور اس کی بات کو ہی سنجیدگی سے لینا چاہیے یا کیا کسی صحافی کو وہی کچھ لکھنا چاہیے جو لوگ سننا اور پڑھنا چاہتے ہیں یا پھر اسے وہ لکھنا اور بولنا چاہیے جو حقائق پر مبنی ہو؟ صحافت تو نام ہی حقائق کو سامنے لانے کا ہے۔ جرنلزم میں کب یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون سی خبر یا سکینڈل سے ریٹنگز کم یا زیادہ ہو گی یا اس سے کون ناراض اور کون خوش ہوگا؟
انسانی تاریخ میں ایسے کئی کردار گزرے ہیں جو اپنے اپنے دور میں عوامی رائے کے مطابق جھوٹے تھے اور ان کی فالونگ نہ تھی۔ بہت سوں کو مار دیا گیا‘ جلایا گیا‘ جلاوطن کیا گیا‘آج انہیں وہی قومیں اپنا ہیرو مانتی ہیں۔ کئی ملکوں نے اب تو باقاعدہ معافی مانگی ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد غلط تھے۔ باقی چھوڑیں صرف سقراط کی مثال دیکھ لیں کہ پورا یونان اس بوڑھے فلاسفر کے خلاف ہوگیا تھا۔ عدالت میں مقدمہ تک چلا اور پاپولر عوامی رائے کے دبائو میں اسے موت کی سزا دی گئی۔ آج ہزاروں سال بعد اکیلا سقراط سچا نکلا اور پورا یونان جھوٹا۔ شاید اس دور میں سقراط کو بھی ریٹنگز اور کم فالورز ہونے کا طعنہ ملتا ہوگا۔اس طرح گلیلیو کا نام ہم سب نے سن رکھا ہے۔ اٹلی کے اس ذہین انسان کو جدید سائنس کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے خیالات اور فلاسفی کو بھی اس دور کے خلاف سمجھا گیا۔ اس کی ریٹنگز بھی نہ تھیں۔ اس پر بھی مقدمہ چلا اور اس سے پہلے کہ اسے بھی چرچ کے خلاف سٹینڈ لینے پر جلایا جاتا اس سمجھدار انسان نے سقراط کے برعکس فوری طور پر اپنے خیالات واپس لے کر معافی مانگ لی اور جان بچا لی۔ لیکن ابھی پچھلی صدی میں اسی چرچ نے دوبارہ انکوائری کرائی اور گلیلیو کے خیالات کو درست قرار دے کر اس کی صدیوں پہلے موت کے بعد اس سے معافی مانگی۔
ایسی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ جو اپنے دور کے بڑے مشہور اور فالونگ والے لوگ تھے وہ کیسے بعد میں جھوٹے نکلے اور جنہیں جھوٹا سمجھا گیا وقت نے انہیں سچا ثابت کیا۔ ہمارے آخری نبی حضرت محمدﷺ کے بعد نبوت کے کئی جھوٹے دعویدار بڑی فالونگ کی بنیاد پر ابھرے اورپھر ذلیل ہوئے۔ انسانی ارتقا اور ترقی کی بنیاد جھوٹ پر نہیں سچ پر ہوئی ہے۔ جھوٹ ہمیشہ وقتی طور پر معاشروں میں پھیل کر غالب آجاتا ہے لیکن آخری فتح ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے۔ لاکھوں کی فالونگ بھی کسی سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ میں نہیں بدل سکتی۔لاکھوں لوگ اگر ایک غلط بات کو درست سمجھ لیں تو بھی وہ غلط ہی رہے گی۔ صحافت سچ کیلئے کی جاتی ہے‘ ریٹنگز اور فالونگ لینے کے لیے نہیں۔ جو صحافت صرف فالونگ کے لیے کرتے ہیں وہ زیادہ دیر اس پروفیشن میں زندہ نہیں رہتے۔ شاید ہمارا دوست فواد سمجھدار تھا اس لیے صحافت چھوڑ کر سیاستدان بنا اور آج کل ہمیں دوستانہ طعنے مارنا نہیں بھولتا کہ آپ لوگوں کا دور ختم ہوا۔