’’صادق‘‘ و ”امین“ سے آئین شکنی تک کا سفر

عمران خان نے اس وقت اپنی ساری سیاست کی بنیاد اس سازشی تھیوری کی بنیاد پر رکھی ہے کہ ان کی حکومت کو امریکی سازش کے ایما پر ختم کیا گیا۔ ان کے دعوے کے مطابق ان کے مخالف سیاستدان اور میڈیا پرسنز امریکہ سے مل گئے اور انہوں نے عدم اعتماد کی تحریک پیش اور پاس کروا دی۔بدقسمتی سے پاکستان کے جذباتی عوام کا ایک بڑا طبقہ اس جھوٹ کو قبول کررہا ہے۔ تماشہ یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ و برطانیہ میں مقیم ان کے چاہنے والے بعض لوگ بھی اس چورن کو خرید رہے ہیں ۔ حالانکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ ججز (چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل) نے سوموٹو کیس کے تفصیلی فیصلے میں عمران خان کی اس تھیوری کو بے بنیاد قرار دیا ہے ۔ اب تماشہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی ان پانچ ججز میں سے تین (جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر) کی پنجاب حکومت کے بارے میں فیصلے کی تو تحسین کررہی ہے لیکن دوسری طرف اپنی ساری سیاست کی بنیاد اس وقت ایک ایسی سازشی تھیوری کو بنایا ہے جسے ان تین ججز سمیت پانچ ججز نے جھوٹ اور مفروضہ قرار دیا ہے ۔ گویا امریکی سازش کے حوالے سے عمران خان کا بیانیہ سپریم کورٹ آف پاکستان سے سرٹیفائیڈ جھوٹ ہے ۔مثلاً اس تفصیلی فیصلے میں پانچ ججز کے بنچ نے متفقہ فیصلے میں لکھا ہے کہ7مارچ 2022 کو امریکہ میں پاکستانی سفیر نے خفیہ مراسلہ بھیجا تھا لیکن 27مارچ تک عمران خان یا کسی اور حکومتی عہدیدار نے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ تفصیلی فیصلے کے صفحہ 9پر سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ عمران خان کے الزام کے ایک روز بعد یعنی 28مارچ کو قومی اسمبلی میں بحث کے دوران کسی حکومتی رکن نے سازشی مراسلے کا ذکر نہیں کیا اور نہ کسی حکومتی رکن نے اپوزیشن پر یہ الزام لگایا کہ وہ بیرونی سازش کے تحت وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد لارہی ہے ۔ پھر جب 31 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو اس میں بھی کسی حکومتی رکن نے خفیہ مراسلے یا غیرملکی سازش کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے میں صفحہ 12پر لکھا گیا ہے کہ دوسری طرف اسی روز جب عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا اور اس کے بارے میں وزیراعظم ہاوس کی طرف سے پریس ریلیز جاری ہوئی تو اس میں نہ تو کوئی ایسی بات کی گئی کہ عدم اعتماد کی تحریک بیرونی سازش کے تحت لائی گئی ہے اور نہ اس حوالے سے کسی انکوائری یا تحقیقات کرنے کا ذکر کیا گیا ہے کہ جو بیرونی سازش اور اس میں کسی پاکستانی کے ملوث ہونے کا تعین کرے ۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جب نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی طرف سے کسی ٹھوس اقدام کا فیصلہ نہیں ہوا تو یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شاید بیرونی سازش کے حوالے سے کافی شواہد موجود نہیں تھے ۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے فیصلے میں صفحہ32پر لکھا ہے کہ حکومتی وکیل کی جانب سے ڈپٹی سپیکر کے اقدام کے لئے دلیل کے طور پر اس کے بعض مندرجات عدالت کو بتائے گئے لیکن خفیہ مراسلہ عدالت کو نہیں دکھایاگیا۔صفحہ 36 پر ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے نہ توخفیہ مراسلہ دکھایا گیا اور نہ ایسے شواہد پیش کئے گئے جس سے یہ ثابت ہو کہ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی کارروائی غیرملکی سازش کے تحت ہوئی یا کسی سیاسی جماعت سے کہا گیا ہو کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک کو ووٹ دے ۔ڈپٹی اسپیکر نے غیرملکی سازش سے متعلق جو تفصیلی موقف عدالت میں دیا اس میں وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ جو مواد ان کو دکھایا گیا وہ نامکمل یا پھر جامع نہیں ہے ۔انہوں نے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے سے متعلق پیش رفت سے متعلق مختلف واقعات کی ترتیب تو بیان کی لیکن کسی پاکستانی کا نام پیش نہیں کرسکے جو غیرملکی سازش کا حصہ بنا ہو۔انہوں نے اس حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ تو کیا لیکن دوسری طرف حکومت نے7 مارچ کو موصول ہونے سے 28مارچ تک سازش اور خفیہ مراسلہ کے حوالے سے کوئی تحقیقات نہیں کیں ۔ اسی طرح اس عرصے کے دوران اپوزیشن ممبران پر یہ الزام بھی نہیں لگایا گیا کہ وہ غیرملکی سازش کا حصہ بن رہے ہیں ۔پھر جب تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کا وقت آیا تو صرف اس وقت2اپریل کو وزیراطلاعات نے یہ اعلان کیا کہ کابینہ نے خفیہ مراسلہ سے متعلق پاکستان انکوائری کمیشن ایکٹ 2017کے تحت تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا فیصلہ کیا ہے ۔ سپریم کورٹ کے مطابق حکومت کے اس رویے سےیہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بادی النظر میں حکومت کے پاس بیرونی سازش سے متعلق کافی شواہد موجود نہیں تھے ۔

صفحہ 38اور 39پر سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں مزید لکھتی ہے کہ بیرونی سازش کی تھیوری سے متعلق عدالت کے پاس جو مواد موجود ہے وہ صرف ڈپٹی اسپیکر کا دعویٰ ہے لیکن اپنے تفصیلی جواب یا رولنگ میں انہوں نے کوئی ذکر نہیں کیا کہ یہ مراسلہ اپوزیشن کے کسی ممبر کو دکھایا گیا جس کی وجہ سے عدالت ڈپٹی اسپیکر کے موقف کو قبول نہیں کرسکتی جبکہ دوسری طرف ڈپٹی ا سپیکر نے آئینی دفعات کا سہارا لے کر قومی سلامتی کا ایشو قرار دے کر عدالت کو ا سکروٹنی کا موقع نہیں دیا ۔ فیصلے کے صفحہ 39پر لکھا گیا ہے کہ اسپیکر کے پاس تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لئے سات دن تھے لیکن ان سات دنوں میں انہوں نے اپوزیشن یا عدم اعتماد کے محرکین کے سامنے یہ بات رکھی کہ ان کی تحریک آئین کے آرٹیکل5کے تحت مسترد ہونی چاہئے جبکہ اس حوالے سے اپوزیشن کو دفاع کا موقع بھی فراہم نہیں کیا گیا حالانکہ آرٹیکل 5کے تحت ان کی رولنگ کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپوزیشن ممبران کو غیرمحب وطن قرار دے رہے ہیں ۔ صفحہ40 پر لکھا گیا ہے کہ اصولی طور پر عدالت صرف دعووں کی بنیاد پر نہیں بلکہ شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے ۔حکومت نے 2اپریل کو انکوائری کمیشن کا اعلان کیا لیکن اس سے پہلے ایسی کوئی انکوائری نہیں ہوئی جس طرح کہ 2013 کے الیکشن سے متعلق مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ایک کمیشن کے ذریعے کروائی تھی۔

مکرر عرض ہے کہ جو کچھ اوپر عرض کیا گیا ہے وہ نہ تو کسی تجزیہ کار کا تجزیہ ہے، نہ کسی پی ٹی آئی مخالف سیاستدان کا دعویٰ اور نہ ہی یہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل کا اضافی نوٹ ہے ۔ یہ سب کچھ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بنچ کے متفقہ فیصلے میں لکھا گیا ہے ۔ اب جب کہ سپریم کورٹ نے بھی سچ سامنے رکھ دیا ہے، عمران خان پھر بھی جھوٹ بولنے پر مصر ہیں تو کس بنیاد پر وہ صادق اور امین برقرار رہ جاتے ہیں ۔؟