The Leadership

اب تو کوئی بات نئی نہیں لگتی۔
ہاں‘ یہ نئی بات ہے کہ ملک بڑی تیزی سے انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ انارکی سے بھی بڑی انارکی یہ ہے کہ اس وقت دور دور تک کوئی ایسا لیڈر یا بندہ آپ کو نظر نہیں آرہا جو ان حالات میں ملک کو خطرات سے نکال سکے۔
آج کل ہنری کسنجر کی نئی کتاب The Leadershipپڑھ رہا ہوں۔ اس میں انہوں نے چھ ایسے ورلڈ لیڈرز کے بارے لکھا ہے جنہوں نے اپنے ممالک کو مشکلات سے نکال کر بہتر حالات کی طرف دھکیلا۔ لیڈر شپ کا تصور ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ مشکلات میں گھرے معاشرے اور لوگوں کو بہتر مستقبل کی طرف لے کر جائے۔ میرا ماننا ہے کہ خدا ہر معاشرے میں چند ایسے لوگ ضرور بھیجتا ہے جنہیں آپ limited edition کہہ سکتے ہیں۔ یہ غیرمعمولی صلاحیتوں کے لوگ پورے معاشرے کو اوپر لے جاتے ہیں بلکہ ان کی ذہانت پوری دنیا کے کام آتی ہے۔ دنیا کے حصے میں کئی ایسے لیڈرز آئے ہیں لیکن ہمارے حصے میں ایک بھی نہیں۔
لیڈر کی اہمیت کا اندازہ اسی وقت ہوتا ہے جب وہ بے پناہ مسائل کے سامنے ڈٹ جاتا ہے۔ ماؤزے تنگ نے کہا تھا کہ کوئی بھی بڑا بحران اپنے ساتھ بہتری کا موقع بھی لاتا ہے۔ بڑا عرصہ اس گہری بات کو نہ سمجھ سکا بلکہ حیران ہوا کہ بحران توملک یا معاشرے کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے‘ وہ بھلا کیسے بہتری کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔ پھر عمر بڑھنے کے ساتھ سمجھ آئی کہ دراصل بحران کے وقت لوگ ادھر ادھر گھبرا کر دیکھتے ہیں کہ کوئی انہیں اس مصیبت سے نکالے۔ حالانکہ اُن کے لیے یہی موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنی قابلیت سے اس بحران کو ہینڈل کریں‘ مشکلات کا حل تلاش کرکے لوگوں کے لیڈرز بن جائیں۔
مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے لیڈرشپ کے ایشو پر کوئی کتاب پڑھی ہو اور اس میں فرانس کے لیڈر ڈیگال کا ذکر نہ ہو۔ ڈیگال نے جس طرح صرف دس برسوں میں جدید فرانس کی بنیاد رکھی اس سے ان کی صفات کا پتہ چلتا ہے۔ اگرچہ امریکہ کے متنازعہ صدر نکسن کو بھی ہنری کسنجر اس فہرست میں رکھتا ہے‘ چلیں ہم اسے شک کا فائدہ دے سکتے ہیں کہ ہنری کسنجر خود نکسن کا وزیر خارجہ تھا اور وہ نکسن کو پسند کرتا تھا۔ اس طرح مارگریٹ تھیچر کا نام بھی اس غیرمعمولی فہرست میں شامل ہے۔ مصر کے انور سادات کا نام بھی اس فہرست میں آپ کو ملتا ہے۔ سنگاپور کا وزیراعظم اور ایک جرمن چانسلر بھی اس میں شامل ہیں۔ میں نے غور کیا کہ ان سب کو ہنری کسنجر نے کن وجوہات کی بنیاد پر اپنی کتاب میں جگہ دی ہے؟
اب تک دو تین چیپڑز پڑھنے کے بعد جو بات مجھے سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ لیڈرز اس وجہ سے بنے کہ ان میں مشکل فیصلے کرنے کی صلاحیت تھی۔ وہ گھبرائے نہیں کہ ان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔ انہوں نے وہی کچھ کیا جو اپنے زمانے میں وقتی طور پر عوام اور ان کے ناقدین کو غلط لگ رہا تھا لیکن وہ ڈٹے رہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے محسوس ہورہا ہے کہ وہی بڑا لیڈر بنے گا جو مشکل اور اَن پاپولر فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوگا۔ جسے اپنے ووٹوں اور امیج یا پاپولرٹی سے زیادہ اپنے ملک اور لوگوں کی فکر ہوگی۔
آپ امریکہ کے مقبول صدر جان ایف کینیڈی کی کتاب Profiles in Courage پڑھیں تو انہوں نے بھی امریکن تاریخ سے چند ایسے کردار تلاش کر کے ان پر لکھا جنہوں نے اپنے اپنے ادوار میں ایسے ایسے فیصلے کیے یا اسٹینڈ لیے جو اس وقت بہت برے سمجھے گئے۔ جو بہت اَن پاپولر تھے۔ ان کے وہ فیصلے عوام کی رائے کے برعکس تھے۔ انہیں شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ سیاسی کیرئیر تباہ ہوئے۔ بعض سینیٹرز کو دوبارہ الیکٹ ہونا نصیب نہ ہوا کیونکہ لوگ ان کے سٹینڈ یا اپروچ سے ناراض تھے۔ لیکن وہ اپنے سٹینڈ سے پیچھے نہ ہٹے کیونکہ ان کا ماننا تھا وہ جو کچھ کررہے تھے وہ امریکہ اور انہی امریکن لوگوں کے حق میں بہتر تھا۔ یہ لوگ ابھی نہیں سمجھیں گے لیکن کبھی کوئی مستقبل میں یہ بات سمجھ لے گا کہ انہوں نے اپنے کیرئیر اس ملک اور عوام کی محبت میں تباہ کیے تھے‘ ورنہ وہ بھی عوام کو بیوقوف بناتے ہوئے نعرے مار سکتے تھے۔ تالیاں بجوانا کون سا مشکل کام ہے۔اور آخر وہی ہوا کہ بڑے عرصے بعد جان ایف کینیڈی جیسے بڑے آدمی نے ان امریکن کی کہانیاں اکٹھی کیں اور اُن پر لکھا۔ ان کی بہادری سامنے لائے اور یہ بات ثابت کی کہ بہادری یہ نہیں ہوتی کہ آپ عوام سے تالیاں بجوانے کے لیے وہی بات کریں جو عوام سننا چاہتے ہیں تاکہ آپ کا سیاسی مستقبل بچا رہے۔ لیڈرشپ کچھ اور چیز ہوتی ہے جو قربانی مانگتی ہے۔ کسنجر کی اس غیرمعمولی کتاب میں پاکستان اور بھارت کے کسی سیاستدان‘ حکمران یا لیڈر کا نام شامل نہیں ہے۔ اسے ہمارے خطے میں کوئی بھی متاثر کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ہوسکتا ہے ہم اسے امریکن تعصب کا نام دے دیں لیکن شاید جس قابلیت یا امتحان سے لیڈرشپ کو گزرنا پڑتا ہے وہ ہمارے لیڈروں کے اندر نہ تھی۔ مشکل حالات میں جن بہادرانہ فیصلوں کی توقع کسنجر جیسا بندہ رکھتا ہو اس پر وہ پورے نہ اترتے ہوں۔ حالانکہ دیکھا جائے تو بھارت اور پاکستان جہاں ڈیڑھ ارب انسان رہتے ہیں‘ وہاں اتنے مسائل تھے کہ جنہیں حل کرنے کے لیے بڑے فیصلوں کی ضرورت تھی۔ لیکن ان دونوں ملکوں کی قیادت وہ بڑے اور اَن پاپولر فیصلے نہ کر سکی کہ کہیں الیکشن میں ووٹ نہ کھو بیٹھیں یا عوام یہ نہ سمجھیں کہ ان کے لیڈروں نے ان کا سودا کر دیا تھا۔
یوں بڑے اور مشکل فیصلوں سے بچتے بچتے پاکستان آج ڈیفالٹ کی سرحد پر پہنچ چکا ہے۔ ہندوستان چھوڑ دیں‘ پاکستان کو دیکھ لیں۔ کیا ہمارے ہاں آج کوئی ایسا لیڈر ہے جو مشکل فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ سب پہلے عوام کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہاں سے کیا ردعمل آئے گا۔ یوں کوئی بھی فیصلہ نہیں کر پایا۔ اس ڈر نے ہمارے اندر لیڈرشپ خوبیاں پیدا ہی نہیں ہونے دیں۔ ایک عام سے سیاستدان بن کر رہ گئے جن کا مقصد ملک و قوم کی ترقی نہیں بلکہ ووٹ بٹورنا تھا۔ عمران خان بھی سخت فیصلوں سے گبھرا گئے کہ ان کی پبلک ریٹنگز کم ہوں گی۔اس طرح شہباز شریف وزیراعظم بننے کے کئی دن تک اس گومگو کی حالت میں رہے کہ آیا انہیں مشکل فیصلے لینے چاہئیں‘ جس سے ان کا ووٹ بینک خراب ہوگا یا پھر سیدھے الیکشن کی طرف جائیں۔ تقریباً دو ماہ تک وہ یہی سوچتے رہے جس سے غیریقینی صورت حال پیدا ہوئی۔ ایک ہوتا ہے فیصلہ کرنا اور اس کے اثرات کا سامنا کرنا۔ دوسرا ہوتا ہے بالکل کوئی فیصلہ نہ کرنا اور غیریقینی سے ہی ملک اور عوام کو نقصان پہنچانا۔ اسے گناہ بے لذت کہا جاتا ہے۔
ہمارے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے۔ جب عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی تھیں تو ہم اس پر سبسڈی دے رہے تھے بلکہ بقول شیخ رشید ہم آنے والے حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھا رہے تھے تاکہ ہمارے بعد وہ مشکل فیصلے خود کریں۔ اور شیخ رشید یا عمران خان کی توقع پوری ہوئی جب شہباز شریف کو وہ فیصلے کرنا پڑے اور عوام میں ان کا گراف نیچے گرا اور وہ ضمنی الیکشن پنجاب میں ہارے۔ لیکن ذہن میں رکھیں جن عالمی لیڈروں نے مشکل وقت میں مشکل فیصلے کرکے قوم کو مشکل صورت حال سے نکالا ان میں سے کوئی مفرور ملزم نہ تھا نہ انہوں نے منی لانڈرنگ کی تھی۔ نہ ان کی جائیدادیں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی تھیں۔ جن لیڈروں نے ملک اور قوم کو سامنے رکھ کر اپنی قربانی دی وہ قومیں انہیں آج بھی یاد رکھتی ہیں۔ انہیں اپنا ہیرو مانتی ہیں جنہوں نے اپنا آج اپنی نسلوں کے کل کے لیے قربان کیا۔ ہمارے ہاں کوئی ہے جس نے اپنا آج قربان کرنے کی کوشش کی ہو‘ الٹا سب اپنے ایک ایک پائو گوشت کے لیے پورا اونٹ ذبح کررہے ہیں۔