جون کا مہینہ‘ ملتان میں میچ اور پرانا جھگڑا

چند روز قبل شاہ جی کا فون آیا کہ ملتان کی ساری سڑکیں کھل گئی ہیں۔ میں نے خوش ہو کر پوچھا کہ کیا وہ عرصہ ایک سال سے سیوریج کی پائپ لائن بچھانے کی زد میں آئی ہوئی نواب پور روڈ کی بات کررہے ہیں؟ شاہ جی نے جواباً ہاں یا ناں میں دینے کے بجائے میری لاعلمی پر تبرا کیا اور مجھے کہنے لگے کہ بندہ اس قدر بے اوقات نہ ہو جائے کہ اسے اپنے ہی شہر کی خبر نہ ہو اور وہ چار دن کیلئے امریکہ جا کر پاجامے سے باہر ہو جائے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے شاہ جی سے اس قدر شدید ردعمل کی نہ تو کوئی توقع تھی اور نہ ہی مجھے گرمی کھانے کی ہی کوئی سمجھ آئی۔ میں نے شاہ جی سے پھر عرض کی کہ قبلہ! مجھے بالکل اندازہ نہیں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اور مجھ غریب پر کس لیے تاؤ کھا رہے ہیں۔ اگر کوئی غلطی ہوگئی ہے تو درگزر کریں‘ اللہ معاف کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔ میرے علم کے مطابق نواب پور روڈ ہی ہے جو گزشتہ ایک سال سے سیوریج کی پائپ لائن بچھانے کے چکر میں بند ہے اور مخلوقِ خدا کیلئے باعثِ آزار بنی ہوئی ہے۔ عمرہ پر روانگی سے قبل ملتان کے ڈپٹی کمشنر کو مل کر اس سڑک کے اردگرد کے رہائشیوں کی حالتِ زار بیان کی اور اسے جلد از جلد مکمل کرنے کی درخواست کی۔ بات سننے میں مستعد اور کام کرنے میں چست ڈپٹی کمشنر نے اس سڑک کو جلد از جلد مکمل کرنے اور فوری طور پر کم از کم اسے ٹریفک کے قابل بنانے کا وعدہ کر لیا۔
اس وعدے کے بعد مجھے یقین تھا کہ کام واقعتاً جلد مکمل ہو جائے گا لیکن سعودی عرب پہنچے ابھی دو دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ ایک دوست نے میسج بھیجا کہ ڈپٹی کمشنرملتان عامر کریم خان کا ٹرانسفر ہو گیا ہے۔ نئی حکومت کے آنے کے بعد حسبِ روایت امید تو یہی تھی کہ اب ایک بار پھر تبادلوں کا سیلاب آئے گا۔ گزشتہ ساڑھے تین سال بھی ٹرانسفروں کے ”ہَڑ‘‘ میں گزر گئے تھے۔ وہ والی ساری ٹرانسفریں تو ”ٹی کے‘‘ اور بعد ازاں ملنے والی اطلاعات کے مطابق گوجرانوالہ کے ایک خاندان کے باہمی تعاون سے ہوئی تھیں۔ ان ٹرانسفرز اور پوسٹنگز پر ملکی تاریخ میں پہلی بار ڈپٹی کمشنر تک کے عہدے پر تعیناتیاں پیسے پکڑ کر کرنے کی اطلاعات پھیلیں۔ اس سے قبل اس قسم کی خبریں صرف پٹواریوں‘ تحصیلداروں اور ایس ایچ او ٹائپ عہدوں کے بارے میں سننے کو ملتی تھیں۔ ٹی کے‘ گجر فیملی اور سردار عثمان بزدار کی ٹرائیکا نے اس رسم کو اَپ گریڈ کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او تک پہنچا دیا بلکہ اس واردات سے ایک دو کمشنرز اور آر پی اوز تک نے بھی فائدہ اٹھایا۔
خیر سے اب والی ٹرانسفرز یعنی حکومت کی تبدیلی کے بعد والی ٹرانسفرز گو کہ نہایت فضول رسم ہے مگر کیاکریں؟ ہمارے ہاں یہ روٹین کی بات ہے اور اب اس پر نہ تو حیرانی ہوتی ہے اور نہ ہی تعجب۔ اس بار یہ ٹرانسفرز ہماری توقع سے زیادہ تاخیر سے ہوئے تھے؛ تاہم اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ اب اللہ جانے نواب پور روڈ کے مکینوں کو کب گھروں تک پہنچنے میں آسانی میسر آئے گی۔ اسی لیے جیسے ہی شاہ جی نے خبر سنائی کہ ملتان کی ساری سڑکیں کھل گئی ہیں میری طبیعت بھی کھل اٹھی مگر شاہ جی نے جواباً میری طبیعت صاف کرنے پر زور لگا دیا۔ میں نے پھر شاہ جی سے اپنی غلطی اور غلط فہمی پر معذرت کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ آخر آپ کی سڑکیں کھل جانے سے کیا مراد ہے اور آپ میری کس لاعلمی کی بنیاد پر مجھے اس طرح لتاڑ رہے ہیں؟ شاہ جی کہنے لگے تمہیں اس کا پتا ہی نہیں کہ ملتان میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران تین عدد ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میچ کھیلے گئے ہیں؟
میں نے کہا: شاہ جی میں گو کہ میں ملتان میں نہیں اور آپ کو اس بات کا بھی بخوبی علم ہے کہ مجھے کرکٹ نامی کھیل سے کچھ خاص لینا دینا نہیں؛ تاہم اتنا تو مجھے علم ہے ہی کہ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ہونے والے تین عدد ون ڈے میچ ملتان میں شفٹ کر دیے گئے تھے اور وہ وہیں کھیلے بھی گئے اور پاکستان نے تینوں ون ڈے جیت بھی لیے۔ اب اور بتائیں مجھ سے کیا پوچھنا ہے؟ شاہ جی کہنے لگے تم تو ملتان سے چلے گئے تھے اور تمہیں کیا پتا کہ اہلِ ملتان نے یہ دن کیسے گزارے ہیں۔ میں نے پوچھا: خیر ہے شاہ جی! خدانخواستہ میرے بعد ملتان والوں کو کیا مسئلہ آن پڑا تھا؟ شاہ جی کہنے لگے: بندۂ خدا! تمہیں تو علم ہی ہے کہ جس شہر میں بین الاقوامی کرکٹ میچ آن پڑیں وہاں کے لوگوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ہمارے ہاں مکمل امن و امان ہے اور ہر طرف سکون و شانتی ہے‘ جس ہوٹل میں ہماری اپنی اور غیر ملکی ٹیم ٹھہری ہو اس کے اطراف کی ساری سڑکیں ہم بند کر دیتے ہیں۔ اس ہوٹل سے لے کر کرکٹ سٹیڈیم تک جانے والا روٹ بند کردیا جاتا ہے۔ مخلوقِ خدا جس طرح یہ دن گزارتی ہے اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس کا گھر ان علاقوں میں ہوتا ہے۔ سات جون سے تیرہ جون تک ملتان کی کئی سڑکیں کئی کئی گھنٹے اور کچھ سڑکیں مستقلاً بند رہیں۔ اہلِ ملتان نے یہ دن جس پریشانی میں گزارے تمہیں اس کا بھلاکیا اندازہ ہو سکتا ہے؟ آج جا کر کہیں ساری سڑکیں کھلی ہیں اور شہر کے لوگوں کی نقل و حرکت میں آسانی پیدا ہوئی ہے۔ میں ان سڑکوں کے کھلنے کا ذکر کررہا ہوں۔
میں نے جواباً ہنس کر کہا: شاہ جی! اگر اہلِ ملتان تنگ رہے ہیں تو آپ کا کیا خیال ہے ویسٹ انڈیز کی ٹیم مزے میں رہی ہوگی؟ جون کے مہینے میں ملتان میں کسی ٹیم کو میچ کھلوانا ایسے ہی ہے جیسے اس سے کوئی پرانا بدلہ لیا جائے۔ چند دن پہلے مجھے ایک دوست نے ملتان سے فون کر کے بتایا تھا کہ پہلے ون ڈے کے دوران گرمی کی شدت سے امپائر علیم ڈار کی طبیعت ناساز ہو گئی تھی اور وہ میچ درمیان میں چھوڑ کر بقیہ میچ کسی دوسرے امپائر کے ذمے لگا کر چلے گئے تھے۔ شاہ جی! آپ خود ایمانداری سے بتائیں کہ بھلا جون میں کسی غیرملکی ٹیم کو ملتان لا کر میچ کھلانا کسی دہشت گردی سے کم ہے؟ میرا ذاتی خیال ہے کہ رمیز راجہ نے موقع ملنے پر ویسٹ انڈیز سے اپنا کوئی بہت پرانا سابقہ بدلہ برابر کیا ہے۔ جیسے مجھے شیخ رشید اپنے والد والا واقعہ سناتا تھا۔
شاہ جی کے کان ایک دم کھڑے ہو گئے اور وہ پوچھنے لگے کہ شیخ رشید کے والد والا کیا معاملہ ہے؟ میں نے کہا: شاہ جی آپ کو شاید نام کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوئی ہے۔ یہ فرزندِ پنڈی والے شیخ رشید نہیں‘ میرے یونیورسٹی فیلو شیخ رشید کے والد کا قصہ ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ 1971ء کی جنگ کا زمانہ تھا‘ ان کا ہمسایہ کریم بخش ان کے والد سے کہنے لگا کہ شیخ صاحب! برا نہ منائیں لیکن جب سے آپ پناہ گیر ادھر پاکستان آئے ہیں تبھی سے ہمارا کراڑوں سے جھگڑا چل رہا ہے (ملتان والے مہاجروں کو پناہ گیر اور ہندوؤں کو عموماً کراڑ کہتے ہیں) تقسیم سے پہلے میری اور رام لال کراڑ کی بڑی دوستی تھی۔ میرے والد کی رام لال کراڑ کے والد سے بڑی دوستی تھی‘ ہمارا ان سے کبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوا تھا۔ لیکن جب سے آپ پناہ گیر پاکستان آئے ہیں جھگڑے شروع ہو گئے ہیں۔ 1965ء میں جنگ ہوئی اور اب 1971ء میں پھر جنگ ہو رہی ہے‘ لگتا ہے آپ کا کوئی پرانا حساب کتاب اور لین دین کا جھگڑا ہے جو آپ چکتا کر کے نہیں آئے اور اب لڑائیاں ہو رہی ہیں؟ شاہ جی! میرا خیال ہے اپنے رمیز راجہ کا بھی ویسٹ انڈیز سے کوئی پرانا جھگڑا تھا جس کا بدلہ انہوں نے اب آ کر لیا ہے۔