معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
نیا آرمی چیف، متنازعہ یا غیرمتنازعہ
میں 3 نومبر سے 3 دسمبر تک سالانہ چھٹی پر ہوں۔ ملک سے باہر اور اپنی نئی کتاب پر کام کررہا ہوں ۔ملکی سیاست سے اپنے آپ کو ممکن حد تک لاتعلق رکھا۔ اس دوران جیو کے پروگرام کئے اور نہ جنگ کیلئے کالم لکھے۔ اب بھی 3 نومبر تک یہی ارادہ ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ میں جس بھی ملک میں ہوتا، اس میں ملنے والے کا جس بھی طبقے سے تعلق ہوتا مجھ سے ایک ہی سوال کرتا کہ نیا آرمی چیف کون بن رہا ہے؟۔
عمران خان نے ماشا اللہ اس معاملے کو اتنا چھیڑا اور اور اس قدر پھیلا دیا ہے کہ اب انڈین، عرب اور سنٹرل ایشین صحافی بھی تبصرے کررہے ہیں کہ آرمی چیف کے فلاں امیدوار تو ایسے اور فلاں تو ایسے ہیں۔ اس لئے میں اپنی چھٹیوں میں سے چند گھنٹے کا وقفہ کرکے یو اے ای میں بیٹھ کر یہ سطور سپرد قلم کرنے پر مجبور ہوا ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک نیشنل سیکورٹی اسٹیٹ ہے۔ دیگر اداروں کی نسبت ہماری فوج نے اپنے آپ کو ایک ڈسپلنڈ اور مضبوط فوج بنا یا ہے۔ بار بار کے مارشل لائوں کی وجہ سے بھی فوج کا سیاست میں کردار نہایت بڑھ گیا ہے لیکن کسی جمہوری دور میں آرمی چیف کی شخصیت اور تقرری پر ایسی بحث پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی جو ان دنوں ہورہی ہے۔ اس غیرضروری بحث کا کریڈٹ ویسے تو سب سیاستدانوں کو جاتا ہے لیکن تاج بہ ہر حال عمران خان کے سر ہے۔
ویسے تو ہمارے بیشتر سیاستدان فوجی نرسریوں میں بڑے ہوئے ہیں لیکن عمران خان کیلئے پارٹی بھی فوج نے بنائی، پھر اس میں لوگ شامل کروائے پھر انہیں اقتدار دلوایا۔جب اپنی غیرقانونی اور غیرآئینی سپورٹ ختم کی تو دھڑام سے ان کی وفاقی حکومت گر گئی جبکہ صوبوں میں اب بھی ان کی جو حکومتیں قائم ہیں، وہ عوام کی منتخب کردہ نہیں بلکہ فوج کی عطا کردہ ہیں، اس لئے ان کیلئے سارا جہاں ایک طرف اور نیا آرمی چیف دوسری طرف، والا معاملہ ہے۔ان کے انٹرویوز، عدالتی چارہ جوئیوں، سوشل میڈیا مہمات اور لانگ مارچ وغیرہ الغرض سب سرگرمیوں کامحور و مرکز یہی ایک نکتہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں آرمی چیف کی تقرری جو ایک معمول کا عمل ہونا چاہئے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی پاکستان کا نمبرون ایشو بن گیا ہے ۔
جہاں تک عمران خان کی اس بات کا تعلق ہے کہ شہباز شریف کو نئے آرمی چیف کا اختیار نہیں ہونا چاہئے تو یہ مطالبہ آئین کے منافی ہے کیونکہ آئین پاکستان (جس میں عمران خان کی حکومت نے جنرل قمرجاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کے وقت سپریم کورٹ کی ہدایت پر من مانی ترمیم کی تھی) کی رو سے آرمی چیف کی تقرری وزیراعظم کا اختیار ہے۔
اگر شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ، عمران خان کی نظروں میں متنازعہ ہے تو عمران خان کی وزارت عظمیٰ بھی شہباز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان، سراج الحق، اسفندیارولی خان، اخترمینگل، محمود اچکزئی، ایم کیو ایم اور حتیٰ کہ مصطفیٰ کمال کی نظروں میں متنازعہ تھی۔ لیکن اگر انہیں آرمی چیف کی تقرری یا انہیں توسیع دینے کا اختیار تھا تو اب شہباز شریف سے یہ اختیار کوئی نہیں چھین سکتا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ شہباز شریف یہ کام سزا یافتہ نواز شریف کے مشورے سے کررہے ہیں تو اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ۔ کیونکہ آپ کیسے ثابت کریں گے کہ انہوں نے انتخاب نواز شریف کے مشورے سے کیا ہے۔
عملاً دنیا کا ہر سربراہِ حکومت کسی نہ کسی کے زیراثر ہوتا ہے اور کسی نہ کسی سے مشورہ کرتا ہے لیکن قانون صرف ان کے فیصلے اور اختیار کو دیکھتا ہے۔
عمران خان خود کہا کرتے تھے کہ وہ ہر بات میں بشریٰ بی بی سے مشورہ کرتے ہیں اور یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ آرمی چیف تو کیا ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری میں بھی انہوں نے بشریٰ بی بی کی رائے کو مقدم رکھا لیکن قانون ذمہ دار ان کو ٹھہرائے گا ۔
اس لئے آئین کی رو سے آرمی چیف کی تقرری وزیراعظم کا اختیار ہے ۔ عمران خان ہو ںیا شہباز شریف عملا ًوہ کئی لوگوں سے مشورہ کرتا ہے لیکن آئینی طورپر وہ کسی سے مشورہ کرنے کا پابند نہیں۔ہم نے سیاستدانوں کیلئے نہیں بلکہ فوج کیلئےچیف سلیکٹ کرنا ہے ۔ اس لئے سیاستدانوں کے اتفاق رائے کی بات بظاہر جتنی پرکشش ہے اتنی غیرآئینی اور بے بنیاد ہے ۔یوں بھی آرمی چیف بننے کے بعد کوئی بھی ہو، وہ آرمی کا چیف ہوتا ہے ۔
جنرل مشرف کو نواز شریف نے آرمی چیف بنایا تھا لیکن اسی پرویز مشرف نے نواز شریف کو رخصت کیا۔
جنرل قمرجاوید باجوہ کو بھی نواز شریف نے آرمی چیف بنایا تھا لیکن ان کے دور میں نوازشریف کے اقتدار کو زوال آیا اور عمران خان کو وزارت عظمیٰ دلوائی گئی۔ یوں جس کو بھی آرمی چیف بنائیں، وہ کمانڈ سنبھالتے ہی فوج کے چیف ہوں گے اور وہی کچھ کریں گے جو ان کی فوج چاہے گی۔
دوسری ایک فضول لیکن بظاہر بڑی دانشمندانہ بات یہ مشہور کی گئی ہے کہ آرمی چیف ایسا ہونا چاہئے جو متنازعہ نہ ہو۔ بھلا اس دنیا میں کوئی کام کرنے والا بندہ غیرمتنازعہ ہوسکتا ہے؟۔
جنرل مشرف اور جنرل ضیا کی تقرری میں سنیارٹی کے اصول کو پامال کیا گیا تھا اور یوں کیا وہ پہلے دن سے متنازعہ نہیں تھے؟۔ کیا جنرل راحیل شریف پہلے دن سے متنازعہ نہیں تھے کیونکہ جنرل کیانی نے نواز شریف کو جو نام تجویز کئے تھے، ان میں سرے سے ان کا نام ہی شامل نہیں تھا؟ کیا جنرل قمرجاوید باجوہ کو تقرری کے وقت خود آرمی کے اندر سے بڑے طاقتور لوگوں نے متنازعہ نہیں بنایا تھا؟۔ کیا خود عمران خان متنازعہ نہیں تھے؟ کیا خود محمود خان اور پرویزالٰہی متنازعہ نہیں؟۔
پاکستان میں کوئی سیاستدان، کوئی جج، کوئی جرنیل، کوئی جرنلسٹ ایسا نہیں جو متنازعہ نہ ہو یاجو پوری قوم کیلئےیکساں قابل قبول ہو۔ غیرمتنازعہ صرف وہی ہوسکتا ہے جس کی نہ اپنی کوئی سوچ ہو اور نہ وہ کچھ کررہا ہو۔ اس لئے میاں شہباز شریف ہمت کریں ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ سے مشاورت کریں اور میرٹ و سنیارٹی کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر اس قضیے کو نمٹا دیں ۔