معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
تحریک عدم اعتماد مہنگائی کے ستائے عوام کے لیے اصل ریلیف ثابت ہوگی، شہباز شریف
لاہور: قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد مہنگائی کے ستائے عوام کے لیے اصل ریلیف ثابت ہوگی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے مہنگائی پر حکومت کے خلاف بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ گھی اور خوردنی تیل کی قیمت میں 23 اور 24 روپے اضافے کے بعد 10 روپے پٹرول کی کمی عملاً واپس ہوچکی ہے، ایل پی جی اور گیس کی قیمت میں 16.37 فیصد اضافے کے بعد نام نہاد ریلیف ہوا میں تحلیل ہوچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام کو ریلیف دینا ہے تو پی ڈی ایل اور بجلی کی قیمتوں میں ماہانہ 4 روپے سے زائد اضافہ واپس لینے کا اعلان کیا جائے، خدشہ ہے کہ 10 روپے کا سیاسی ریلیف آنے والے دنوں میں ہر شہری کو سیکڑوں روپے مہنگائی کی صورت ادا نہ کرنا پڑ جائے، تین سال میں موجودہ حکومت نے گندم، آٹا، چینی، بجلی کی قیمتوں میں 100 فیصد اضافہ کیا اور تاریخ میں کبھی اتنا اضافہ نہیں ہوا۔
شہباز شریف نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد مہنگائی کے ستائے عوام کے لیے اصل ریلیف ثابت ہوگی، ایک طرف مہنگائی کے ستائے عوام اور دوسری طرف لٹیرے حکمران ہیں، ملک میں پٹرولیم بحران کی دہائیاں جاری ہیں، گندم، چینی اور ایل این جی کی طرح حکومت پٹرولیم بحران پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔
قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ ملکی تجارتی خسارہ سالانہ بنیادوں پر بڑھ کر 82 فیصد ہوگیا، گردشی قرض میں 114 فیصد سے زائد اضافہ ہوچکا ہے، تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر معیشت کی تباہ حالی کا بیان ہے، اس خسارے کی قیمت کو ن ادا کرے گا؟ امپورٹ بل میں 55 فیصد اضافہ ہوا، آٹھ ماہ سے مسلسل تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے جبکہ سات ماہ میں توانائی کے شعبے کا گردشی قرض 2.358 ٹریلین کی تاریخی سطح پر پہنچ چکا ہے، یہ رقم کون ادا کرے گا؟
شہباز شریف نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ ان خساروں کے لیے رقم کہاں سے آئے گی؟ کیا عوام کو لوٹ کر پھر ادائیگیاں کی جائیں گی؟ رواں مالی سال میں تاریخ کا بلند ترین تجارتی خسارہ ہونے جارہا ہے، یہ رقم کہاں سے آئے گی ؟
اپوزیشن لیڈر نے مزید کہا کہ ٹیکس وصولی کا کریڈٹ ریکارڈ درآمدات کو جاتا ہے کیونکہ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات دگنا ہوچکی ہیں، دعوے کے مطابق ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں ہوا، سیلز ٹیکس، ودہولڈنگ ٹیکس، کسٹم ڈیوٹیوں کی مد میں اضافہ سے ٹیکس وصولی بڑھی۔