معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
میڈیا کی حالت زار اور ارشد شریف کی شہادت
میڈیا صرف اینکرز کا نام نہیں۔ جب ہم میڈیا کی بات کرتے ہیں تو وہ مالکان (سیٹھ)، ایڈیٹر (جو سب سے اہم عہدہ ہے لیکن مالکان نے اس کو غیرموثر کر دیا ،جس کی وجہ سے میڈیا کا معیار گر گیا)، رپورٹر (جو میڈیا کا سب سے اہم عنصر ہے)، کیمرہ مین اور ٹیکنیکل اسٹاف کا نام ہے۔ اگر مجرم ہیں تو سب سے زیادہ مالکان مجرم ہیں جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ، عمران خان یا نواز شریف وغیرہ کی خاطر میڈیا کو تقسیم کیا۔
دوسرے نمبر پر اینکرز ذمہ دار ہیں ۔ بالخصوص وہ اینکرز جو اسٹیبلشمنٹ، یا کسی جماعت کے آلہ کار بنے ۔ بدقسمتی سے گزشتہ آٹھ دس سال میں الیکٹرانک میڈیا کو اسٹیبلشمنٹ نے پولیٹکل مینجمنٹ کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیاجنہوں نے انہیں استعمال کیا ، وہ تو پردے کے پیچھے رہے لیکن ان اینکرز نے تو عوام کے سامنے اسٹینڈ لیا تھا۔
وہ اگر اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے آنکھوں کے تارے بنے تھے تو ساتھ انہوں نے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ،پی ٹی ایم ،اور قوم پرست جماعتوں کو اپنا دشمن بھی بنا لیا ۔
ان احمقوں نے اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کی لڑائی میں فریق بن کر اپنے ساتھی میڈیا پرسنز اور مالکان کو غدار، انڈین ایجنٹ ، امریکی ایجنٹ اور نہ جانے کن کن فتووں سے نوازا۔ اب جب عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کو مجبور کیا کہ وہ ان کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھالیں تو یہ لوگ دوراہے پر کھڑے ہوگئے۔
ان میں سے کچھ تو حسب سابق اسٹیبلشمنٹ سے جڑے رہ گئے لیکن بعض نے اسے آنکھیں دکھانا شروع کردیں۔
ان میں بعض کے مالی مفادات بھی عمران خان سے وابستہ ہوگئے تھے ۔ چنانچہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے اسی طرح کھڑے ہوگئے جس طرح عمران خان کھڑے ہوگئے ۔
یہی المیہ ہے جس سے اس وقت پاکستانی میڈیا دوچار ہے ۔گزشتہ پندرہ بیس سال میں اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے ایکا کے خلاف آواز اٹھانے والے مالکان اور اینکرز نے بڑی سختیاں برداشت کیں لیکن سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ میڈیا کے وہ لوگ (رپورٹرز)آزمائش سے دوچار رہے جو میڈیا کا سب سے اہم جزوہیں ۔ جن کی تنخواہیں اور سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔
جو اکثر جگہوں پر ملٹری اور ملیٹنٹ کے مابین سینڈوچ بنے ہوئے ہیں ۔ جو سب سے زیادہ شہید کئے گئے لیکن اہل صحافت نے انکا کوئی خاص ذکر کیا اور نہ اہل سیاست نے ۔
کسی کے قاتل پکڑے گئے اور نہ کسی کے قتل کے لئے عدالتی کمیشن بنے ۔ کسی نے ان کے یتیم بچوں کا پوچھا اور نہ کسی نے ان کی برسیاں منائیں ۔
ذرا ملاحظہ کیجئے کہ گزشتہ برسوں میں کتنے صحافی حملوں کا نشانہ بنے ۔ کتنے قتل ہوئے اور پھر خود ہی فیصلہ کر لیجئے کہ میڈیا ظالم ہے یا مظلوم ؟۔
میں 2006 سے پیچھے نہیں جاتا کیونکہ پھر اس کالم کا دامن تنگ ہوجائیگا۔ 11نومبر 2006ء میں شمالی وزیرستان کے اندر حیات اللہ قتل ہوئے اور کچھ عرصہ بعد ان کی اہلیہ کو بھی قتل کردیا گیا۔
23نومبر 2007ءکو زبیر احمد مجاہد اور9 فروری 2008ءکو عبدالصمد چشتی مجاہد مارے گئے ۔22مئی 2008ءکو باجوڑ میں محمد ابراہیم ، 3نومبر 2008کو عبدالرزاق جوہڑہ اور8نومبر 2008کو ہی قاری محمد ابراہیم مارے گئے ۔
26مارچ 2009کو راجہ اسد حمید اور14اگست 2009ءکو صدیق باچا مارے گئے ۔صرف دس دن بعد یعنی24اگست کو پاکستانی سرزمین پر ایک افغان صحافی اور ہمارے دوست جان اللّٰہ ہاشم زادہ مارے گئے ۔
17فروری 2010کو عاشق علی منگی ،28مئی 2010ءکو اعجاز الحق ، 27جون کو فیض محمد خان اور14 ستمبر 2010کو مصری خان قتل ہوئے ۔ اسکے صرف دو دن بعد16ستمبر کو عبدالحمید عرف لالہ حمید بلوچ مارے گئے۔
6دسمبر 2010ءوہ منحوس دن تھا کہ ایک دن میں تین صحافی (پرویز خان، الطاف چانڈیو اور عبد الوہاب قتل کئے گئے۔اسکے چار دن بعد محمد خان ساسولی قتل کئے گئے ۔18فروری 2011ءکو بلوچستان میں ابدوست رند مارے گئے اور 10مئی 2011ءکو ہمارے ایک اور دوست نصراللہ آفریدی قتل کئے گئے ۔
14اگست 2011ءکو یوم آزادی کے دن منیر شاکر اور7اکتوبر 2011ءکو فیصل قریشی نامی صحافی قتل ہوئے ۔
2012 کے سال کا آغاز ایک صحافی کے قتل سے ہوا اور جنوری کے مہینے میں ہمارے ایک اور عزیز دوست مکرم خان عاطف قتل کئے گئے۔19اپریل کو مرتضی رضوی ، 5مئی کو طارق کمال، 11مئی کو اورنگزیب تونیو ، 19 مئی کو عبدالرزاق گل، 28مئی کو عبدالقادر حجازی، 29مئی کو عبدالخالق عرف عبدالحق بلوچ، 7 اکتوبر کو مشتاق خاند، 18 نومبر کو رحمت اللہ عابد اور22 نومبر کو ثاقب خان مقتولین کے اس قافلے میں شامل کردیئے گئے ۔
2013میں سیف الرحمان، محمد اقبال، محمود جان آفریدی ، احمد علی جویا، عبدالرزاق بلوچ اور ایوب خان خٹک قتل کئے گئے۔2014 میں وقاص عزیز خان، خالد خان اور ارشد یوسف کو زندگی سے محروم کردیا گیا۔2015 میں آفتاب عالم، حفیظ الرحمان اور محمد عمر مارے گئے ۔
2016 میں خرم ذکی، شہزاد احمد اور محمود خان کے بچوں کو یتیم کیا گیا۔ 2017 میں محمد جان کے قتل سے سلسلہ شروع ہو اور تیمور عباس، بخشش الٰہی سے ہوتا ہوا ہارون خان پر اختتام پذیر ہوا۔
2018 میں مارچ میں صحافیوں انجم منیر راہ اور عابد حسین قتل ہوئے ۔پھر عمران خان صاحب کا دور شروع ہوا۔ ان کے دور میں یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ کچھ حوالوں سے تیز ہوگیا۔ ان کےدور حکومت میں سہیل خان اور نورالحسن قتل ہوئے۔
2019میں ملک امان اللہ ،علی شیر راجپر، مرزا وسیم بیگ اور عروج اقبال قتل ہوئے۔
2020 میں عزیز میمن، جاوید اللہ خان، ذوالفقار مندرانی، انور جان اور ایک خاتون صحافی شاہینہ شاہین زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
2021ءمیں اجے لاوانی، کاشف انور انصاری، شاہد زہری اور محمد زادہ آگرہ قتل ہوئے ۔
2022ءمیں ضیا الرحمان فارقی، افتخار احمد ،محمد یونس قتل کئے گئے اور اب ارشد شریف شہید اس قافلے میں شامل ہوگئے ۔
صحافیوں کو دھمکیاں دینے ، انہیں چینلوں اور اخبارات سے نکالنے اور نامعلوم افراد کی کالوں کا سب سے زیادہ سلسلہ انکی حکومت میں زوروں پر رہا ۔ اس دوران مطیع اللہ جان کو اغوا اوراسد طور کو زودکوب کیا گیا۔
ابصار عالم پر گولیاں چلیں۔ میرے گھر پر حملہ ہوا۔ جبکہ مرد تو کیا خواتین اینکرز سے بھی سرکاری سرپرستی میں گالم گلوچ کا سلسلہ زوروں پر رہا ۔
یہ جتنے لوگوں کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں سوائے عبدالرزاق جوہڑہ اور ولی خان بابر کے ملزموں کا پتہ چل گیا۔ سب سے ہائی پروفائل کیس حامد میر صاحب کا تھا اور سب سے ہائی پروفائل کمیشن اس کیلئے بنا تھا لیکن آج تک اس کمیشن کی رپورٹ سامنے نہیں آئی ۔
عمران خان نے کبھی ان شہید صحافیوں کی تصویریں اٹھائیں اور نہ اپنی حکومت میں رپورٹ منظر عام پر لانے کی ہمت کرسکے۔
یہ ہمت نوازشریف بھی نہ کرسکے۔ اسی طرح سلیم شہزاد کے قاتلوں اور عمر چیمہ کے ملزمان کا بھی سراغ نہ لگ سکا۔
اللّٰہ کرے ارشد شریف شہید کا معاملہ منطقی انجام تک پہنچے لیکن ماضی کا سبق یہی ہے کہ چند روز انکی لاش پر سیاست ہوتی رہے گی اور پھر انہیں اسی طرح بھلا دیا جائیگا جس طرح ماضی میں مارے جانے والوں کو بھلا دیا گیا ہے۔