خان صاحب کی حقیقت

کیا میں سیاستدان ہوں اور عمران خان میرا حریف ہے؟ نہیں۔ میں ایک صحافی ہوں اور صحافی ہی مروں گا۔ یوں میرا ان سے مقابلہ ہے اور نہ ہم ایک دوسرے کے حریف ہیں۔

کیا میرا عمران خان سے جائیداد یا کاروبار کاجھگڑا ہے؟۔ نہیں۔ ہر گز نہیں۔ ایسا کوئی معاملہ پیش آیا ہے اور نہ آسکتا ہے۔ وہ میاں والی کے نیازی اور میں ایک قبائلی پس منظر کا مزدور۔ ان کے محلات بنی گالہ اور لاہور میں ہیں جبکہ میں اسلام آباد میں ابھی تک کرائے کے گھر میں رہ رہا ہوں

۔کیا میری ہمدردی یا وابستگی ان کی کسی حریف جماعت سے ہے ؟ نہیں۔ ہر گز نہیں۔ یہ صفحات گواہ ہیں کہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی حکومتوں پر سخت ترین تنقید اس عاجز نے کی۔

پشاور میں ایم ایم اے کی حکومت میں سب سے زیادہ زیرعتاب میں رہا۔ اے این پی کی حکومت میں کبھی وزیراعلیٰ ہائوس کے اندر نہیں گیا اور ان کی حکومت مجھے نمبرون مخالف سمجھتی رہی۔مولانا فضل الرحمان کے ساتھ فاٹا مرجر کے معاملے پر ڈھائی سال جو جنگ ہوئی اس کو روزنامہ جنگ کے پرانے شماروں میں ملاحظہ کیاجاسکتا ہے۔

جہانگیر ترین، پرویز خٹک، ریحام خان اور کئی دیگر لوگ گواہ ہیں کہ کتنے لوگوں نے مجھے عمران خان کے ساتھ بٹھانے کی کوشش کی اور میں انکار کرتا رہا۔ ہر ایک کو یہی جواب دیتا کہ میرا اور ان کا صحافی اور سیاستدان کا تعلق توہوسکتا ہے لیکن دوستی نہیں ہوسکتی۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ میری تنقید کا زیادہ رخ عمران خان کی طرف کیوں رہا اور جواب میں عمران خان نے میرے خلاف ہر غیرقانونی اور غیراخلاقی حربہ کیوں استعمال کیا؟۔ آج میں پہلی مرتبہ اس کی وجہ بتانے کی کوشش کررہا ہوں۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ میرے نزدیک ایک صحافی کی بنیادی ڈیوٹی یہ ہے کہ وہ جو فرد، جو ادارہ یاجولیڈر جیسا ہے، ویسا قوم کے سامنے لے آئے۔ ہمارا کام حقیقت واضح کرنا ہے اور پھر فیصلہ کرنا قوم کا کام ہے کہ وہ حمایت کرتی ہے یا مخالفت۔ میں نہ نواز شریف کو فرشتہ سمجھتا ہوں، نہ زرداری کو، نہ مولانا فضل الرحمٰن کو اور نہ کسی اور سیاسی رہنما کو۔

لیکن میرے نزدیک وہ جیسے ہیں بڑی حد تک قوم کے سامنے ان کی حقیقت واضح ہے لیکن میری سمجھ کے مطابق عمران خان جیسے تھے، اس سے الٹ انہوں نے قوم کے سامنے اپنے آپ کو پیش کیا۔ میری ڈیوٹی یہ ہے کہ میں نواز شریف، زرداری، مولانا اور عمران خان کی جو حقیقت ہے وہ قوم کے سامنے لائوں اور پھر فیصلہ قوم پر چھوڑ دوں۔یوں جس دن عمران خان کی حقیقت اسی طرح قوم کے سامنے آجائے جس طرح نواز، زرداری، مولانا، سراج الحق، اسفندیار ولی اور دیگر لیڈروں کی آئی ہے، میرا عمران خان سے متعلق خصوصی سلوک ختم ہوجائے گا۔ الحمد للّٰہ رفتہ رفتہ ان کی حقیقت واضح ہورہی ہے لیکن میرے نزدیک اب بھی لاکھوں لوگ ان سے متعلق غلط فہمی کا شکار ہیں۔

اللّٰہ گواہ ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں اس ایشو پر میں بڑے کرب سے گزرا ہوں۔ جب آپ کو کامل یقین ہو کہ سامنے کھڑے شخص نے کالے کپڑے پہنے ہوئے ہیں لیکن ہزاروں لوگ کہہ رہے ہوں کہ نہیں یہ تو سفید رنگ کے ہیں تو اس صورت میں آپ جس کرب سے گزرتے ہیں، میں عمران خان کے معاملے میں اسی کرب سے گزرا۔ کئی لوگ اس بنیاد پر میرے دشمن بن گئے اور مجھ سے یہ تقاضا کرتے رہے کہ اس کالے کو سفید کہوں۔

پھر 2010سے طاقتور ریاستی اداروں اور شخصیات کا دبائو شروع ہوا کہ میں کالے کو سفید کہوں۔ پیشہ ورانہ لحاظ سے اپنے اس موقف کی میں نے بھاری قیمت ادا کی کیونکہ میں ایک سیلیبرٹی، ایک پاپولسٹ، زیادہ ریٹنگ دینے والے اور سب سے بڑھ کر اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے شخص کی مخالف صف میں کھڑا تھا۔

انہوں نے بھی میرے خلاف ہر حربہ استعمال کیا۔ جب سے سوشل میڈیا آیا ہے وہ میری ٹرولنگ کرواتا رہا جس میں سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ میری عظیم ماں کو گالیاں دلوائی گئیں۔ پھر جب ان کے ہاتھ حکومت آئی تو انہوں نے ہر طرح سے میرے خلاف حکومتی طاقت استعمال کی لیکن رب ذوالجلال کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے استقامت دی۔ میری خوش قسمتی یا بدقسمتی تھی کہ مجھے دور طالب علمی میں جب عمران خان سیاست کے میدان میں آرہے تھے، ان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور اس کے نتیجے میں میں نے کچھ نتائج اخذ کئے۔

مثلا لوگ انہیں سیدھا سادہ اور کھرا انسان سمجھتے رہے لیکن جب وہ سیاست شروع کررہے تھے تومجھے اس وقت اندازہ ہوا کہ وہ انتہائی شاطر اور چالاک انسان ہیں۔ لوگوں کے سامنے شوکت خانم کو بنیاد بنا کر یہ باور کراتے رہے کہ وہ نہایت صاحب دل انسان ہیں لیکن مجھے اس وقت یقین ہوگیا تھا کہ وہ سراپا دماغ ہیں اور ان کے پاس دل نہیں۔

انہوں نے لوگوں کو باور کرایا کہ وہ نہایت غنی اور قناعت پسند ہیں لیکن مجھے اس وقت سے ایمان کی حد تک یقین ہوگیا تھا کہ شہرت، طاقت اور اقتدار ہی ان کی منزل ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو بہادر مشہور کررکھا ہے لیکن میری رائے یہ ہے کہ بہادر شخص سفاک اور مخالفین کے بارے میں بے رحم نہیں ہوسکتا۔

میری سوچ یہ ہے کہ اگر ایک انسان اپنے خاندان اور اپنے دوستوں کا وفادار نہیں تو آگے جاکر اپنی قوم اور ملک سے بھی وفا نہیں نبھاسکتا۔ کیونکہ انسان وفادار ہوتا ہے یا بے وفا اور میں دیکھتا رہا کہ وہ کسی کے ساتھ وفاداری نہیں نبھاتے۔ ایک اور صفت میں نے ان کے ہاں محسن کشی کی محسوس کی تھی جس کا نظارہ ان دنوں سب کررہے ہیں کہ جس ادارے نے انکی پارٹی کو ایک فین کلب سے اٹھاکر اقتدار تک پہنچایا اور ان کی خاطر ہر طرح کی بدنامی مول لی، وہ آج اس ادارے کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔

کالم کااختتام اس ایک واقعے پر کرنا چاہوں گا کہ جب عمران خان سیاسی پارٹی بنارہے تھے تو ماڈل ٹائون کے ای بلاک کے ایک گھر میں ایک تحریری دستاویز پر دستخط ہوئے جس میں فیصلہ ہوا کہ جنرل حمید گل اور عمران خان میں سے ایک چیئرمین اور دوسرے صدر ہوں گے۔ اس کے گواہوں میں ڈاکٹر فاروق خان اور منصور صدیقی اس دنیا میں موجود نہیں لیکن دو گواہ یعنی محمد علی درانی اور جاوید احمد غامدی زندہ ہیں۔

اس معاہدے کی کاپی ایک غیرسیاسی مگر ایماندار انسان کے پاس موجود ہے جبکہ یہ سب کچھ میری نظروں کے سامنے ہوا تھا۔ معاہدے کے بعد عمران خان لندن اپنے سسرال گئے اور جب واپس آئے تو انہوں نے باقی لوگوں سے کہا کہ جنرل حمید گل کو ساتھ نہیں رکھنا اور پارٹی ایسے وقت میں انائوننس کرنی ہے جب وہ ملک سے باہر ہوں۔

چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور جنرل حمید گل مرحوم اور دیگر لوگ حیران پریشان رہ گئے۔آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کس کے کہنے پر انہوں نے جنرل حمید گل کو یہ دھوکہ دیا۔ان کی یہ چالبازی اور بے وفائی دیکھ کر مجھے شدید ذہنی جھٹکا لگا لیکن ساتھ یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ ان کی سیاست کی ڈوریں کہاں سے ہل رہی ہیں۔