’’بنتِ بہادر شاہ ظفر‘‘کا بقیہ

’’حیران تھے کہ دیکھئے اب اور کیا پیش آتا ہے۔ زینت پیاس کے مارے رو رہی تھی کہ سامنے سے ایک زمیندار نکلا۔ میں نے بے اختیارہو کر آواز دی۔ بھائی تھوڑا پانی اس بچی کو لا دے۔

زمیندار فوراً ایک مٹی کے برتن میں پانی لایا اور بولا آج سے تو میری بہن اور میں تیرا بھائی۔ یہ زمیندارکورالی کا کھاتا پیتا آدمی تھا۔ اس کا نام بستی تھا۔ اس نے اپنی بیل گاڑی تیار کرکے ہم کوسوار کیا اور پوچھا کہ جہاں تم کہو پہنچا دوں۔

ہم نے کہا کہ اجاڑہ ضلع میرٹھ میں میر فیض علی شاہی حکیم رہتے ہیں، جن سے ہمارے خاندان کے خاص مراسم ہیں، وہاں لے چل۔ بستی ہم کو اجاڑہ لے گیا مگر میر فیض علی نے ایسی بےمروتی کابرتائو کیا جس کی کوئی حد نہیں۔ صاف کانوں پر ہاتھ رکھ لئے کہ میں تم لوگوں کہ ٹھہرا کر اپنا گھر بار تباہ نہیں کرنا چاہتا۔

وہ وقت بہت مایوسی کا تھا۔ ایک تو یہ خطرہ تھا کہ پیچھے سے انگریزی فوج آتی ہوگی، اس پر بے سروسامانی کا یہ عالم کہ ہر شخص کی نگاہ پھری ہوئی تھی۔ وہ لوگ جو ہماری آنکھوں کے اشاروں پر چلتے اور ہر وقت دیکھتے رہتے تھے کہ ہم جو بھی حکم دیں فوراً پورا کیا جائے، وہی آج ہماری صورت سے بھی بیزار تھے۔ شاباش ہے بستی زمیندار کو کہ جس نے زبانی بہن کہنے کو آخر تک نباہا اور ہمارا ساتھ نہ چھوڑا۔

لاچار اجاڑہ سے روانہ ہو کر حیدر آباد کا رخ کیا۔ عورتیں بستی کی بیل گاڑی میں سوار تھیں اور مرد پیدل چل رہے تھے۔ تیسرے روز اک ندی کے کنارے پہنچے جہاں کومل کے نواب کی فوج پڑی ہوئی تھی۔

انہوں نے جو سنا کہ ہم شاہی خاندان کے افراد ہیں تو بڑی خاطر کی اور ہاتھی پر سوار کرکے ندی سے پار اتارا۔ ابھی ہم ندی کے پار اترے ہی تھے کہ سامنے سے انگریزی فوج آگئی اور نواب کی فوج سے لڑائی ہونے لگی۔

میرے خاوند اور مرزا عمر سلطان نے چاہا کہ نواب کی فوج میں شامل ہو کرلڑیں مگر رسالدار نے کہلا بھیجا کہ آپ عورتوں کو لے کر جلدی چلے جایئے، ہم جیسا ہوگا بھگت لیں گے۔ سامنے کھیت تھے جن میں پکی ہوئی تیار کھیتی کھڑی تھی۔ ہم لوگ اس کے اندر چھپ گئے۔

ظالموں نے خبر نہیں دیکھ لیا تھا یا ناگہانی طور پر گولی لگی جس سے آگ بھڑک اٹھی اور تمام کھیت جلنے لگا۔ ہم لوگ وہاں سے نکل بھاگے۔ پر ہائے! کیسی مصیبت تھی کہ ہم کوبھاگنا بھی نہ آتا تھا، گھاس میں الجھ الجھ کر گرتے تھے۔ سر کی چادریں وہیں رہ گئیں۔ برہنہ سر حواس باختہ ہزار دقت سے کھیت کے باہر آئے۔ میرے اور نواب نور محل کے پائوں خونم خون ہوگئے۔ پیاس کے مارے زبانیں باہر نکل آئیں۔

زینت پر غشی کا عالم تھا۔ مرد ہم کو سنبھالتے تھے مگر ہمارا سنبھلنا مشکل تھا۔ نواب نور محل تو کھیت سے نکلتے ہی چکرا کر گر پڑیں اور بے ہوش ہوگئیں۔ میں زینت کو چھاتی سے لگائے اپنے خاوند کا منہ تک رہی تھی اور دل میں کہتی تھی کہ الٰہی ہم کہاں جائیں، کہیں سہارا نظر نہیں آتا۔

قسمت ایسی پلٹی کہ شاہی سے گدائی ہوگئی لیکن فقیروں کو بھی چین و اطمینان ہوتا ہے، یہاں تو وہ بھی نصیب نہیں۔

فوج لڑتی ہوئی دور نکل گئی تھی۔ بستی ندی سے پانی لایا۔ ہم نے پیا اور نواب نور محل کے منہ پر بھی چھڑکا۔ نور محل رونے لگیں اور بولیں ابھی خواب میں تمہارے بابا (بہادر شاہ ظفر) حضرت ظل سبحانی کو دیکھا ہے کہ طوق و زنجیر پہنے ہوئے کھڑے ہیں اور کہتے ہیں۔

’’آج ہم غریبوں کے لئے یہ کانٹوں بھرا خاک کا بچھونا فرش مخمل سے بڑھ کر ہے۔ نور محل گھبرانا نہیں، ہمت سے کام لینا۔تقدیر میں لکھا تھا کہ بڑھاپے میں یہ سختیاں برداشت کروں۔ ذرا میری کلثوم کو دکھا دو۔ جیل جانے سے پہلے اس کو دیکھوں گا‘‘۔

’’بادشاہ کی یہ باتیں سن کر میری آنکھ کھل گئی۔ کلثوم کیا سچ مچ ہمارے بادشاہ کو زنجیروں میں جکڑا ہوگا، کیا واقعی وہ قیدیوں کی طرح جیل خانے بھیجے گئے ہوں گے۔ مرزا عمر سلطان نے اس کا جواب دیا کہ یہ خواب و خیال ہے۔ بادشاہ لوگ بادشاہوں کے ساتھ ایسی بدسلوکیاں نہیں کیا کرتے۔ تم گھبرائو نہیں وہ اچھے حال میں ہوں گے۔

سلطان بادشاہ کی سمدھن بولیں، یہ موئے فرنگی بادشاہوں کی قدر کیا خاک جانیں۔ خود اپنے بادشاہ کا سر کاٹ کر سولہ آنے کو بیچتے ہیں۔ بوا نور محل! تم نے تو طوق اور زنجیر پہنے دیکھا ہے، میں کہتی ہوں کہ بینئے بقالوں سے تو اس سے زیادہ بدسلوکی دور نہیں ہے‘‘۔

مگر میرے شوہر مرزا ضیاء الدین نےتسکین دلاسے کی باتیں کرکے سب کو مطمئن کردیا۔ اتنے میں بستی نائو میں گاڑی کو اس پار لے آیا اور ہم سوار ہو کر روانہ ہوئے۔

تھوڑی دور جا کر شام ہوگئی اور ہماری گاڑی ایک گائوں میں جا ٹھہری جس میں مسلمان راجپوتوں کی آبادی تھی۔ نمبردار نے ایک چھپر ہمارے لئے خالی کرا دیا۔ کون کہہ سکتا تھا کہ ایک دن شہنشاہ ہند کے بچے یوں بسیرے لیتے پھریں گے‘‘۔

قارئین!

مختصراً یہ کہ پھر بہادر شاہ ظفر کے داماد نے خوشنویسی کی مزدوری شروع کردی۔ پھر بارہ روپے ماہوار پر اک بدمزاج نواب کے بیٹے کو قرآن پاک پڑھانے لگے۔ بادشاہ بیگم اپنے ہاتھ سے لونڈیوں کی طرح مگس رانی کرتی رہیں۔ پھر کسی نیک دل بھلے مانس نے اس لاوارث شاہی خاندان کے لئے حج پر جانے کا بندوبست کردیا۔ مکہ پہنچے تو اللّٰہ تعالیٰ نے عجب بندوبست کردیا۔

شہزادی نے کبھی عبدالقادر نامی کسی غلام کو آزاد کرکے مکہ بھیج دیا تھا جو اب دولت مند ہو چکاتھا۔ اسے لٹے پٹے شاہی خاندان کی آمد کا علم ہوا تو حاضر ہوا اور قدموں پر گر کر خوب رویا۔

شاہی گھرانے کے یہ افراد نو سال وہاں ٹھہرے پھر وہاں سے بغداد، نجف و کربلائے معلی سے ہوتے ہوئے واپس دلی آگئے جہاں انگریز سرکار نے دس روپے ماہوار پنشن مقرر کردی۔

پھر سے عرض ہے کہ اشرافیہ اگر بدمعاشیہ بن جائے، نکمی، نالائق، حرام خور اور وژن سے عاری ہو تو کبھی کبھی اس کو عوام سے بھی کہیں زیادہ بھاری قیمت ادا کرناپڑتی ہے کہ افتادگان خاک تو خاک نشینی کے عادی ہوتے ہی ہیں۔

. . . .ان کے لئے کشٹ کاٹنا کہیں زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے لیکن تاریخ سے پہلے کس نےسبق سیکھا جو آج کے ’’شاہی خاندان‘‘ سیکھیں گے۔