50 دن میں ایک بار بھی سیاسی مداخلت نہیں ہوئی:راجہ رفعت مختار

انسپکٹر جنرل پولیس سندھ راجہ رفعت مختار نے کہا ہے کہ 50 دن میں ایک بار بھی سیاسی مداخلت نہیں ہوئی۔

’جیو نیوز‘ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سندھ پولیس انتخابات کے لیے پُرامن اور سازگار ماحول فراہم کرنے کے لیے تیار ہے، کم وسائل ہونے کے باوجود سندھ پولیس بڑے بڑے بحرانوں میں کھڑی ہے۔

آئی جی سندھ کا کہنا ہے کہ کم سہولتوں کے باوجود سندھ پولیس بڑے بڑے چیلنجز کا مقابلہ کر رہی ہے، اس پولیس نے جتنا کراچی میں دہشت گردی کا مقابلہ کیا، کتنی ہی جانیں قربان کی، پھر کچے میں ڈاکوؤں کا مقابلہ کیا اور ابھی تک لڑ رہے ہیں۔

سندھ پولیس بہترین فورس ہے: آئی جی سندھ
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے سندھ پولیس بہترین فورس ہے، باقی مزید کئی اور پیمانے ہیں جن کے حساب سے سندھ پولیس میں کمی ہے، میری سربراہی میں موجود پولیس سیٹ اپ کو مختصر مدت کے لیے چنا گیا ہے جس کا مقصد الیکشن کرانا اور اس کے لیے پولنگ اسٹیشنوں اور عملے کو سازگار ماحول فراہم کرنا ہے۔

آئی جی سندھ نے کہا کہ مسائل دور کرنے ہیں اور الیکشن کے لیے لاء اینڈ آرڈر کی صورتِ حال کو ٹھیک کرنا ہے، کراچی میں اسٹریٹ کرائم اور کچے کے ڈاکوؤں کے حوالے سے پریشانیاں ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں آئی جی راجہ رفعت مختار نے کہا کہ سندھ میں سسٹم کے بارے میں بہت سنا ہے، تاہم میں نے دیکھا نہیں ہے، بنیادی طور پر سسٹم کسی ایک ادارے میں اتھارٹی نہ ہونا ہے، اداروں کا کام کرنے کا ماحول خراب ہونا اور کسی ایک کی اجارہ داری ہونا ہے، جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔

پنجاب کے مقابلے میں سندھ کے لوگ بڑے دل والے ہیں: آئی جی
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پنجاب کے مقابلے میں سندھ کے لوگ بہت بڑے دل والے ہیں، صبر والے ہیں جو ہر چیز کو برداشت کر لیتے ہیں یا پھر وہ مایوس ہو چکے ہیں، عوام مایوس نہ ہوں یہ جرائم اور جرائم پیشہ لوگوں کے خلاف جنگ ہے جو ہم نے لڑنی ہے۔

سندھ پولیس میں سیاسی مداخلت کے حوالے سے کیے گئے ایک سوال کے جواب میں آئی جی سندھ نے کہا کہ میں نے صرف سنا ہے، دیکھا آپ لوگوں نے ہو گا کہ صوبے کا کلچر کیا ہے؟

انہوں نے کہا کہ سندھ میں کام کرتے ہوئے مجھے لگ بھگ 50 دن ہو گئے ہیں کسی ایک دن بھی اس طرح کی صورتِ حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور نہ کوئی سیاسی مداخلت ہوئی۔

راجہ رفعت مختار کا کہنا ہے کہ میرے چارج لینے کے بعد 12 ستمبر تک صوبے کی پولیس میں نمایاں تبدیلیاں کی گئی ہیں، اس کے بعد سے اب تک صوبے میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہے، کسی نیشنل ہائی وے پر دھرنا نہیں ہوا۔

کچے میں کرائم 90 فیصد کم ہو چکا: راجہ رفعت مختار
کچے کے علاقے میں پولیس کی کارروائیوں کے حوالے سے آئی جی سندھ نے کہا کہ 4 ڈاکو مارے جا چکے ہیں، 9 ڈاکو سرینڈر کر چکے ہیں جن میں سے 2 کے سروں کی قیمت مقرر تھی جبکہ 12 ڈاکوؤں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ کچے میں ڈاکوؤں کے حوالے سے بدنام علاقوں میں کرائم 90 فیصد کم ہو چکا ہے، مجرمانہ سرگرمیوں سے بہتر ہے کہ کچے کے علاقے کو بہتر کیا جائے، وہاں بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں، مئی سے لے کر اکتوبر تک جب دریا میں پانی ہوتا ہے انہی دنوں میں ڈاکو مضبوط ہوتے ہیں اور لوگوں کو اغواء کرتے ہیں۔

آئی جی سندھ کا کہنا ہے کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائم کے حوالے سے ہماری اولین کوشش یہ تھی کہ اسے قابو کیا جائے، میں یومیہ بنیادوں پر اسٹریٹ کرائم کے اعداد و شمار کا جائزہ لیتا ہوں، اکتوبر میں کافی بہتری نظر آئی ہے، اسٹریٹ کرائم میں کمی ہوئی مگر میں مطمئن نہیں ہوں، میرا اطمینان اس وقت ہو گا جب کراچی میں ایک بھی واردات نہیں ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ اسٹریٹ کرائم تب کم ہو گا جب پولیس کا رسپانس فوری ہو گا، مجھے نہیں پتہ کہ ماضی میں ایسا کیوں نہیں کیا گیا، 12 ستمبر سے لے کر آج تک 126 پولیس مقابلے ہو چکے ہیں، ان میں سے 92 مقابلے ایسے تھے کہ لوگوں نے دیکھا کہ واردات ہوتے ہوئے پولیس پہنچی، کئی جگہ لوگوں نے سندھ پولیس زندہ باد کے نعرے لگائے، اب اس کو مزید بہتر کرتے جائیں گے اور ایک دور ایسا آئے گا جب سب مطمئن ہوں گے۔

پرانے زمانے کے بزرگ کو CCTV کیمرے کہا جاتا تھا: آئی جی
راجہ رفعت مختار کا کہنا ہے کہ کراچی میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی یا چھیڑ چھاڑ کے کچھ واقعات ہوئے تھے جن میں ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا، معاشرے کو ٹھیک کرنے کے لیے والدین، اساتذہ، اداروں اور دیگر لوگوں کا کردار ہونا چاہیے، ہر جگہ کیمرہ موجود نہیں ہے لیکن لوگ تو موجود ہیں، پرانے زمانے میں کوئی کیمرہ نہیں ہوتا تھا مگر گلی محلوں میں بڑے بزرگ لوگ ہوتے تھے جو اصلاح کرتے تھے، پرانے زمانے کے بزرگ گلیوں میں بیٹھتے تھے جہاں انہیں سی سی ٹی وی کیمرے کہا جاتا تھا۔

ایک سوال کے جواب میں راجہ رفعت مختار نے بتایا کہ کراچی میں سیف سٹی پروگرام کے حوالے سے اگست میں حکومت نے بجٹ منظور کر لیا ہے۔

غیر قانونی طور مقیم غیر ملکیوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جو رضا کارانہ طور پر چلے جائیں گے ٹھیک ہے، ورنہ ایکشن ہو گا، حکومت کی طرف سے واضح ہدایات آ گئی ہیں اور انتہائی منظم کارروائیاں کی جائیں گی، صرف افغانی ہی نہیں بلکہ بنگالی، برمی اور دیگر قومیتوں کے لوگ بھی غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔

پولیس کے مقامی یا غیر مقامی ہونے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں راجہ رفعت مختار نے کہا کہ انگریز کے دور میں تھانے کو اسٹیشن ہاؤس اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہاں لگ بھگ 30 فیصد پولیس افسران ہوتے تھے یا ماتحت عملہ دوسرے اضلاع سے آ کر قیام پزیر ہوا کرتا تھا، وہ گھر نہیں جایا کرتے تھے اور گھر جانے کے لیے انہیں چھٹی لینا پڑتی تھی اور انہیں تھانے سے باہر جانے کی صورت میں رپٹ کا اندراج کرانا پڑتا تھا، ورنہ وہ تھانے سے باہر نہیں جا سکتے تھے۔

اخراجات کم کرنے کیلئے لوکل بھرتی شروع کر دی گئی: IG
انہوں نے بتایا کہ پرانے روایتی علاقے کے لوگوں کو تھانے میں کم رکھا جاتا تھا، یہ ہماری حکومتوں نے اخراجات کو کم سے کم کرنے کے لیے لوکل بھرتی شروع کر دی ہے، پولیس ملازمین ڈیوٹی کے لیے تھانے آتے ہیں، کام کرتے ہیں اور گھر چلے جاتے ہیں جو کہ پولیس کی اصل روح کے مخالف ہے اس کو شاپر ٹائم کہہ لیں یا 8 گھنٹے والی یا 12 گھنٹے والی ڈیوٹی ہے، انگریز نے ملک میں جو روایت رائج کی تھی اور بعد میں پنجاب میں گئی وہ اب نہیں ہو رہا۔